پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی کاخصوصی انٹرویو
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ میں پروفیسر آف نیورولوجی ڈین میڈیکل سائنسز ہیں۔ آپ نے چانڈکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد سول اسپتال میں ہائوس جاب کیا۔ ایف سی پی ایس کرکے سول اسپتال کراچی میں میڈیسن میں ٹریننگ کی، بعدازاں نیورولوجی میں فیلوشپ کیا۔ کچھ عرصہ سول اسپتال میں ہی تعینات رہے۔ آج کل پروفیسر آف نیورولوجی کے ساتھ میڈیکل اینڈ الائیڈ سائنس اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل یونیورسٹی کے ڈین ہیں۔
سوال:ویسے تو دماغ کی لاتعداد بیماریاں ہیں، آپ کے نزدیک دماغ کی سب سے اہم بیماریاں کون سی ہیں؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی:دماغ کی سب سے اہم بیماری فالج ہے، جبکہ اس کے علاوہ مرگی، جملہ اقسام کے سر درد اور گردن درد سمیت چلنے پھرنے میں تکلیف شامل ہے۔ نسوں کی بیماریوں کا تعلق بھی دماغ سے ہی ہے۔ ان امراض کی تشخیص عمر کے لحاظ سے کی جاتی ہے، مثلاً عمر رسیدہ افراد اور بچوں میں بیماریوں کی الگ الگ اقسام ہوتی ہیں۔ لرزہ اور رعشہ کی بیماری ہمارے ہاں بہت عام ہوچکی ہے۔
سوال: ایک شخص کو کیسے معلوم ہوگا کہ وہ کسی دماغی یا نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے تاکہ ٹھیک جگہ علاج کے لیے پہنچ سکے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: نفسیاتی اور دماغی بیماریوں میں فرق یہ ہے کہ دماغ کی بیماریوں میں کوئی نہ کوئی ایسی علامت ہوتی ہے جس سے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ متاثر ہوتا ہے، لیکن ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں خیالات کی بیماریاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے جسم کا کوئی حصہ کم ہی متاثر ہوتا ہے۔ اس میں فرق کرنے کا بہترین ذریعہ ایک ماہر طبیب ہے جو اس کی درست تشخیص کرسکے کہ بیماری کس قسم کی ہے اور کس معالج سے علاج کرانا چاہیے۔ اگر مریض کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے اور ڈاکٹر یہ سمجھتا ہے کہ اسے نیورولوجسٹ کی ضرورت ہے تو وہاں بھیج دیتا ہے، اگر نیورولوجسٹ کے پاس کوئی نفسیاتی مریض آجاتا ہے تو وہ اسے ماہر نفسیات کے پاس بھیج دیتا ہے۔ زندگی میں انسان کو دونوں ہی قسم کے عارضے لاحق ہونے کے خدشات موجود رہتے ہیں۔ نفسیاتی امراض کچھ عرصے بعد ختم ہوجاتے ہیں جبکہ دماغی امراض کا علاج مستقل کرنا پڑتا ہے۔
سوال: دماغ میں موجود کیمیکلز کا توازن خراب ہونے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: دماغ میں کیمیکلز کا عمل دخل یہ ہے کہ پورا دماغ ان کیمیکلز کی مدد سے ہی سے چلتا ہے، ان میں کمی یا زیادتی کے سبب کچھ علامات ظٗاہر ہوتی ہیں جس میں زیادہ تر چلنے پھرنے میں دشواریاں اور حرکات و سکنات متاثر ہونا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نفسیاتی بیماریوں میں سیروٹونل کا رول ہوتا ہے، اس کے کم یا زیادہ ہونے سے بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دماغ میں موجود کیمیکلز کو نیورو ٹرانسمیٹرز کہتے ہیں، ان کی کمی اور زیادتی کے سبب جتنی علامات ظاہر ہوتی ہیں ان کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے۔ ہر بیماری کسی خاص نیورو ٹرانسمیٹر کا توازن بگڑنے کے سبب لاحق ہوتی ہے۔ ان کیمیکلز جنہیں نیوروٹرانسمیٹرز کہتے ہیں، کی مدد سے امراض کی تشخیص میں بھی مدد لی جاتی ہے۔
سوال:ڈاکٹر صاحب کیا نیند کا کم ہونا دماغی عوارض کا سبب بن سکتا ہے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: نیند کا کم ہونا بیماری کی علامت بھی ہے اور نیند کم ہونے سے بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ دماغی بیماریوں میں نیند کی کمی یا زیادتی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے کیونکہ نیند نہ ہونے کے سبب دماغ تھک جاتا ہے اور اس میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جس کے سبب مختلف عوارض پیدا ہوسکتے ہیں۔ سر کے درد میں نیند کی کمی کے سبب شدت پیدا ہوسکتی ہے۔ نیند کا براہ راست اثر ذہنی بیماریوں پر زیادہ اور دماغی بیماریوں پر کم ہوتا ہے۔
سوال:اسی طرح سردرد جو ایک عمومی مسئلہ ہے، کیا یہ کئی طرح کا ہوتا ہے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: جی ہاں! سردرد کی بہت سی اقسام ہیں۔ کچھ پرائمری ہیڈیکس ہوتے ہیں جن کی وجہ صرف دماغ ہوتا ہے۔ کسی دوسری بیماری کے سبب سردرد کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں عام سردرد کو مائیگرین کہتے ہیں۔
سوال:آپ نے مائیگرین کے درد کاذکر کیا، یہ ہر گھر کا مسئلہ ہے، اس کی علامات، وجوہات و علاج کے متعلق کچھ بتائیں۔
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: مائیگرین یعنی سردرد جسے دردِ شقیقہ بھی کہتے ہیں، اس کی وجہ سے انسان کی زندگی میں بہت سارے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ درد ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ کبھی آدھے اور کبھی پورے سر میں یہ درد ظاہر ہوتا ہے۔ اس مائیگرین کی بہت سی اقسام ہیں، جن میں کچھ کیفیات میں معلوم ہوتا ہے کہ سر درد شروع ہونے والا ہے، جب کہ بعض میں اچانک درد شروع ہوجاتا ہے۔ اس کی چند علامات ہیں جن کی مدد سے طبیب اندازہ لگا سکتا ہے، جیسے جی کا خراب ہونا، متلی آنا اور نیند کی کمی، روشنی کا اچھا نہ لگنا، آواز سے پریشان ہونا۔ ایسی صورت میں قے، الٹی کا آنا عام ہے جس سے مریض کو افاقہ بھی ہوجاتا ہے۔ باقی ذہنی دبائوسمیت کئی بیماریوں کے سبب دماغ پر دباؤ بڑھنے سے بھی سر درد ہوسکتا ہے۔
سوال:ڈپریشن ایک عمومی بیماری ہے، کیا یہ دماغ میں کسی کیمیکل کی کمی یا اس کے متاثر ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: آج کل ہمارے ملک کے جو معاشی حالات چل رہے ہیں اس کے سبب، اور مالی اور سماجی ہم آہنگی متاثر ہونے کی وجہ سے ڈپریشن کی بیماری عام ہوچکی ہے۔ یہ بیماری اپنا الگ نظام رکھتی ہے۔ اسٹریس اور اینگزائٹی الگ بیماریاں ہیں۔ اسٹریس کسی بھی بیرونی دبائو کے سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والی کیفیت کو اینگزائٹی کہتے ہیں، جس کا دورانیہ ڈپریشن کے مقابلے میں کم ہے۔ دورانیہ بڑھنے کے سبب اسے ڈپریشن کہہ سکتے ہیں۔ ڈپریشن کی کچھ اقسام میں جلد افاقہ ممکن ہے، جبکہ چند ایک میں ڈپریشن خودکشی پر منتج ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا علاج درست طریقے سے کرانا چاہیے۔ اس کے لیے ایسے ماحول کی تشکیل ضروری ہے جس میں ڈپریشن کو روکنا ممکن ہے۔ ماحول کا سازگار ہونا ہی اس کا بہترین علاج ہے، جبکہ دوائوں کا استعمال اور کائونسلنگ (ترغیب) بھی ضروری ہے۔ کائونسلنگ کی بھی دو اقسام ہیں: ایک، براہِ راست مریض کو سمجھانا، دوسرا اس کی فیملی کو سمجھانا۔ فیملی کائونسلنگ کے سبب مریض کی ذہنی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مرض میں جلد افاقہ ممکن ہوتا ہے۔
سوال: مینک ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: مینک ڈپریشن یا بائی پولی ڈس آرڈر بھی نفسیاتی بیماریاں ہیں اور دونوں کی علامات مختلف ہیں۔ جب مریض بہت زیادہ غصہ کرنے لگے اور سمجھے کہ پوری دنیا کی طاقت مجھ میں سما گئی ہے اور میں سپرمین ہوں تو اس کو مینک کہتے ہیں۔ اور اگر مریض دنیا کو چھوڑ چھاڑ کر ایک کونے میں بیٹھ جائے اور دنیا میں اس کی کوئی دلچسپی باقی نہ رہے، اسے ڈپریشن کہتے ہیں۔ بائی پول ڈس آرڈر میں کبھی مریض بہت زیادہ ہائپر ہوجاتا ہے، کچھ عرصے کے بعد وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے، پھر اپنے گرد و پیش کے ماحول میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے، اس کی وجہ سے وہ تمام چیزوں کو مینج نہیں کرپاتا اور اسے اپنے اندر بے چینی کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ تو اس طرح مینک ڈپریشن، بائی پولی ڈس آرڈر نفسیاتی بیماریاں ہیں جن کا علاج صرف ڈاکٹر ہی کرسکتا ہے۔ جادو ٹونہ والے کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ بہتر طریقہ علاج دوائیں اور ماحول کی درستی ہے۔
سوال: مرگی کی بیماری کیا ہے، علامات اور علاج کیا ہے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: مرگی اصل میں دماغ کی وہ بیماری ہے جو دماغ کے اندر اضافی بجلی جمع ہونے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ دماغ کے جس حصے میں بھی یہ اضافی بجلی جمع ہوتی ہے اس حساب سے ہی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ کیفیات میں پورے جسم پر مرگی کا حملہ معلوم ہوتا ہے۔ کبھی جسم کے ایک حصے میں اس کا اثر محسوس ہوتا ہے۔ مرگی کا مطلب ہے کہ کوئی نہ کوئی دماغی عارضہ لاحق ہے جس کے سبب مرگی کا دورہ پڑتا ہے۔ جسم کے جس حصے سے بھی اس کا اثر شروع ہوتا ہے دماغ کا وہی حصہ متاثر ہوا کرتا ہے۔ مثلاً دورے سے پہلے کبھی کبھار آنکھوں میں بجلی کی چمک محسوس ہونا، یا پیٹ میں کچھ تکلیف ہونا۔ جب یہ چیزیں شروع ہوتی ہیں تو اس سے مریض کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑنے والا ہے، اور وہ اس طرح خود کو سنبھال سکتا ہے۔ جبکہ عمومی طور پر اچانک دورے میں دونوں ہاتھوں اور پائوں میں جھٹکے آتے ہیں، منہ سے جھاگ نکلتا ہے اور وہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔ جھٹکے ختم ہونے کے بعد مریض کا پورا جسم سُن ہوجاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ کیفیت ختم ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جسے دوائوں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اگر مریض کو مسلسل علاج کے بعد تین سے پانچ سال تک مرگی کا دورہ نہ پڑے تو بیماری ختم تصور کی جاسکتی ہے۔ ایک طویل عرصے تک اگر دورہ نہ پڑے تو مریض کی دوا بند کردی جاتی ہے۔ اگر دوا دینے کے دوران میں دماغ کی کوئی نس بند ہورہی ہو، دماغ سکڑ رہا ہو، کوئی ٹیومر ہو یا سرجری کی چوٹ آئی ہو تو مرگی کے بعد ساری عمر اس کو دوائیں دینا پڑتی ہیں۔ ایسے مریض کی دوائیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ مرگی کی بیماری کے حوالے سے بہت سے لوگوں میں یہ پریشانی بھی دیکھی گئی ہے کہ یہ بیماری کسی اور کو تو منتقل نہیں ہوجائے گی۔ یہ پھیلنے والی بیماری ہے یا یہ کہ مرگی والا شادی نہیں کرسکتا۔ یہ تمام خیالات درست نہیں ہیں، مرگی ایک قابلِ علاج مرض ہے جسے مسلسل علاج کے ذریعے ختم کرنا ممکن ہے۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ مرگی کسی بددعا کے نتیجے میں ہوجاتی ہے، جبکہ یہ بات درست نہیں ہے، یہ ایک دماغی عارضے کے سبب پیدا ہونے والی بیماری ہے۔ مرگی سے متاثرہ شخص اور اس کے گھر والوں کو بھی یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مستقل علاج ہی اس کا حل ہے۔
سوال: میں ایک مریض کو جانتا ہوں جو ہمارے فلیٹ کے ایک رہائشی کسی وجہ سے اکیلے رہتے ہیں، اکثر وہ بند کمرے میں اور کبھی جو سامنے ہو اُسے مغلظات بکتے ہیں اور پھر ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد پھر ایسا ہی کرتے ہیں۔ کیا یہ کوئی دماغی عارضہ ہے یا نفسیاتی مسائل ہیں؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: دماغ کے کچھ حصے ایسے ہیں جو طبیعت، مزاج اور زندگی کے معمولات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ہماری کنپٹی کے پیچھے جو دماغ کا حصہ ہے اگر اس میں کوئی خلل واقع ہوجائے تو ابنارمل بی ہیویئر، گالیاں دینا، جھگڑا اور شور شرابہ وغیرہ کرنا… یہ ساری علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ اس کو ہم کیسے سمجھیں کہ یہ دماغی بیماری ہے یا ذہنی بیماری ہے؟ دماغی بیماری کی علامات مسلسل نہیں ہوتیں، ایک، دو گھنٹے یا کسی خاص دورانیے کے بعد وہ ٹھیک ہوجاتی ہیں، جبکہ نفسیاتی بیماری ہمیشہ چلتی رہتی ہے جو دنوں، ہفتوں اور مہینوں پر محیط ہوتی ہے۔ دماغی بیماری میں ایک ٹیپمرلو بیپی لیپسی کہلاتی ہے جس میں مرگی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جس کا سبب دماغ میں کئی اقسام کے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے اور دماغ پر دبائو بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور دماغ ایک ابنارمل بی ہیویئر شروع کردیتا ہے۔ مگر یہ کچھ عرصے کے لیے ہوتا ہے اور اس کے بعد مریض ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ایک بار بی ہیویئر خراب ہوکر نارمل ہو اور دوبارہ خراب ہوکر پھر نارمل ہوجائے تو یہ دماغی بیماری ہے، اور اگر خرابی مسلسل چل رہی ہے تو یہ علامت یقیناً نفسیاتی بیماری کے باعث ہے اور ایسے مریض کو فوراً نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔
سوال:گردن کے درد کا ذکر کیا، اور کہا جاتا ہے کہ دو تہائی آبادی کی زندگی میں گردن میں درد ہوتا ہے۔ یہ درد کیا ہے، اس کی وجوہات اور علاج کیا ہے، اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: کیونکہ میرا تعلق اندرون سندھ کے دیہی علاقوں سے ہے اور ہمارے ہاں جو مریض زیادہ تر کاشت کار ہوتے ہیں، زمینوں پر کام کرتے ہیں، انہیں سفری سہولیات کے حوالے سے کافی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مریضوں میں زیادہ تر فالج کے مریض ہیں کیونکہ شوگر اور بلڈ پریشر اس کی وجہ سے ہوجاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر مرگی کے دورے کے مریض ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر ہمارے ہاں گردن اور کمر کے درد کا عارضہ لوگوں کو لاحق ہے کیونکہ یہاں پر وٹامن ڈی ڈیفی سینشی بہت زیادہ ہے جس کے سبب ہڈیوں کی طاقت کم ہوجاتی ہے اور لوگوں کی ہڈیاں جلدی نرم ہوجاتی ہے جس کو آسٹریو فروسس کہتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو گردن اور کمر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک بہت ہی خطرناک قسم کی ٹرانسپورٹ ہے جسے چنگچی کہا جاتا ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس سال سے اس کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ اسے زیادہ تر نوجوان لڑکے چلاتے ہیں۔ یہاں گرمی بھی بہت زیادہ پڑتی ہے اور ہوا کا پریشر بہت زیادہ ہوتا ہے جس کے سبب اسے کنٹرول کرنے کے لیے خاصا زور لگانا پڑتا ہے۔ اسی طرح بریک لگانے کے لیے بھی بہت طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس کے سبب پٹھوں پر دبائو پڑتا ہے اور اس طرح ان کی زندگی جلد مفلوج ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو پٹھوں میں تکلیف کی شکایت ہوتی ہے۔ ایم آر آئی کرانے کی صورت ڈس پولیپس ہوتا ہے۔ کافی مرتبہ فزیوتھراپی کرانے کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے تک آرام اور دوائوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی لوگ تو محض اس وجہ سے زندگی بھر کے لیے مفلوج ہوجاتے ہیں یا سرجری کروانی پڑتی ہے۔ سرجری کا عموماً زیادہ فائدہ اس لیے بھی نہیں ہوتا کہ ایسے مریض اکثر خاصی تاخیر سے آتے ہیں۔
جس طرح شہر میں ایکسیڈنٹ کے باعث چوٹیں لگنے سے ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہے اسی طرح دیہی علاقوں میں آسٹریو پراسس کے سبب ہڈیوں کی تکلیف عام ہے۔ لاڑکانہ میں ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ درد کی شکایت کے ساتھ کافی مریض آتے ہیں۔ نفسیاتی بیماریاں کم ہیں تاہم مرگی، فالج، سر درد،کمر اور گردن کے درد کے علاوہ حرکات و سکنات میں مشکلات اور رعشہ کی بیماری کی شکایات عام ہیں۔ ڈیمینشیا کے مریض کم ہیں جس کی وجہ سماجی رابطے یہاں لوگوں کے مضبوط ہیں۔ مشترکہ خاندان کا تصور یہاں عام ہے جس کے سبب ایسے مسائل کم درپیش ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ مسئلہ نامناسب خوراک کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ خوراک کی کمی سے جسم کی افزائش کم ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں لوگوں کی سماجی روابطعام ہونے اور تنہائی نہ ہونے کے سبب بھی ذہنی تنائو کے عوارض کم لاحق ہوتے ہیں۔ شہری بے ہنگم زندگی اور دیہی پُرسکون زندگی کی مناسبت سے بیماریوں کا تناسب کم یا زیادہ ہونا عام سی بات ہے۔ ہمارے کلینک پر جتنے بھی بیمار آتے ہیں ان میں تجزیے سے اگرثابت ہو کہ نفسیاتی بیماری ہے تو ماہر نفسیات کے پاس بھیجتے ہیں، اور اگر دماغی بیماری ہو تو ہم ان کو داخل کرکے علاج شروع کردیتے ہیں۔
سوال:گردن میں درد کیبنیادی وجوہات کیا ہیں؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: گردن میں درد کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ دیہی لوگوں کا کام ہے وزن اٹھانا، کھیتوں میں کام کرنا یا مزدوری وغیرہ کرنا۔ جبکہ شہری زندگی میں سفر زیادہ کرنا شامل ہے۔ کام کی زیادتی کے باعث اس طرح کی تکالیف زیادہ ہوگئی ہیں۔ وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے لوگوں میں ہڈیاں نرم ہونے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور دبائو کی صورت میں ان میں تکلیف ہوتی ہے یا مہرے ٹوٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ساری چیزیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک مرتبہ جب مسئلہ شروع ہوجائے تو مستقل علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور فزیو تھراپی بھی ضروری ہوتی ہے۔
سوال: اداسی، مایوسی اور بیزاری قومی بیماریاں لگتی ہیں۔ یہ بتائیں کہ ہم اداس کیوں ہوتے ہیں اور یہ کیفیت کیوں طاری ہوتی ہے؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: اداسی کو ہم یوں سمجھیں جیسے ماحول… وہ ہمارے ذہن کے مطابق نہیں ہوتا تو ہمارے دماغ سے ایسے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جن کے سبب اداسی طاری ہوتی ہے جو اینگزائٹی کا باعث بنتی ہے۔ ڈپریشن ایک علیحدہ بیماری ہے جو بہت پرانی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی علامات بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں جس میں مریض کے اطراف کے لوگ اسے پسند نہیں آتے جن میں وہ دلچسپی بھی نہیں لیتا۔ گرد و پیش میں دلچسپی نہ لینے سے ڈپریشن زیادہ ہوجاتا ہے۔ اگر ایسے مریض کی کائونسلنگ کی جائے اور مناسب دوائیں دی
جائیں تو مرض میں کمی آسکتی ہے۔ اداسی ماحول کی وجہ سے ہو یا اچانک حادثے کے سبب ہو، گھر میں کوئی پریشانی یا بیماری آجائے، یا کسی کی فوتگی ہونے کے اثرات دماغ پر پڑنے کے عمل کو سیزیر گریف ری ایکشن کہتے ہیں۔ گریف ری ایکشن کی حد چند ہفتے ہوا کرتی ہے۔ اگر وہ چند ہفتوں سے بڑھ جائے تو ڈپریشن میں منتقل ہوسکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ جب انسان کو ایسی علامات شروع ہوجائیں تو بہترین معالج سے مشورہ کیا جائے، جس کے سبب اسے روکنا ممکن ہے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب آپ نے ڈیمینشیا کا ذکر کیا، اس کے بارے میں تفصیل سے بتائیں۔
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: ڈیمینشیا یا جسے بھولنے کی بیماری کہا جاتا ہے وہ پہلے بہت کم ہوتی تھی، لیکن شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماری کے باعث یہ بہت عام ہوگئی ہے۔ الزائمر عمرہ رسیدہ افراد میں پائی جانے والی ایک بیماری ہے جس کا کوئی خاص علاج نہیں ہے۔ یہ ایک ڈی این اے ڈس آرڈر ہے، جس میں دماغ کی نسیں یا نیورونز ڈیمیج ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس کا اثر بڑھ جاتا ہے جس کے باعث بھولنے کی بیماری بڑھتی جاتی ہے۔ ڈیمینشیا کی پہلی پہلی علامات یہی ہوتی ہیں کہ مریض گھر سے نکلتا ہے اور چیزیں بھول جاتا ہے۔ اس کے بعد جب گھر آتا ہے تو گھر کا دروازہ بھول جاتا ہے۔ جب بھی جس مریض میں یہ علامات پائی جائیں وہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرے۔ اس کی کافی ادویہ آتی ہیں۔ اس مرض میں دوائوں سے کمی ممکن ہے۔ ڈیمینشیا سے دماغ جتنا متاثر ہوچکا ہے اسے مزید متاثر ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ پھر ہم اس کی وجہ بھی ڈھونڈتے ہیں کہ مرض کس سبب ہے۔
سوال: ہم خوشگوار اور پُرمسرت زندگی کس طرح گزار سکتے ہیں؟
پروفیسر عالم ابراہیم صدیقی: خوشگوار اور پُرمسرت زندگی گزارنے کے لیے ماحول چاہیے۔ جب ماحول میں اپنائیت ہوتی ہے تو زندگی خوشگوار ہوجاتی ہے، اور اس میں مسائل پیدا ہوں تو پُرمسرت زندگی گزارنا مشکل ہے۔ انسان کو خوش رہنے کے لیے اپنے آپ کو اس ماحول کے مطابق رکھنا چاہیے اور زندگی کی جو ضروریات اسے میسر ہیں اُن پر رب کا شکرگزار رہے۔ اس طرزعمل سے زندگی خوشگوار اور پُرمسرت رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان بہت غمگین اور افسردہ رہتا ہے۔ ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شہری زندگی اور دیہی زندگی میں بہت فرق ہے۔ شہر کی زندگی جہاں پرآسائش ہے، وہیں پر ہجوم ہونے کے سبب پریشانی کا باعث بنتی ہے، جبکہ دیہی زندگی میں سکون اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ایک ہی روٹین لائف ہوتی ہے۔ وہاں کی ضروریات اور سہولیات محدود ہیں جو انہیں اکثر میسر ہوتی ہیں۔ اس طرح سے وہاں کی زندگی کا ایک اسٹرکچر بنا ہوا ہوتا ہے۔ وہاں پریشانی تب آتی ہے جب آپس میں جھگڑے ہوجاتے ہیں یا کوئی ناگہانی آفت آجاتی ہے۔ شہر میں زندگی پُرمسرت گزارنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے، بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔ بہت زیادہ وقت اسی پریشانی میں گزر جاتا ہے کہ اخراجات کیسے پورے ہوں۔ دیہی علاقوں میں اس کے برعکس تمام چیزیں میسر ہوتی ہیں۔ وہاں کی سہولیات، خواہشات اور ضروریات کا مختصر ہونا بھی خوشگوار زندگی کا ایک سبب ہے۔