عبدالرزاق شرکا پراسرار قتل اور عمران خان کی ’’نامزدگی‘‘ ’’قانون اور انصاف کے ایوان خاموش‘‘

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مثالی لیڈر ہیں نہ اُن کی کم و بیش چار سالہ حکومت اچھی مثالیں اور روایات قائم کرسکی، بلکہ وہ پیشرو حکومتوں کا تسلسل ہی گردانی گئی ہے۔ اپنی حکومت میں عمران خان نے پوری توجہ انتقامی اقدامات پر دے رکھی تھی۔ وہ اقتدار سے الگ کیے گئے تو اسی راہ پر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت چل پڑی۔ انہیں زیر عتاب کرنے میں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگوں پر کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں، یہاں تک کہ عمران خان پر بھی قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے۔ 9مئی کے پُرتشدد واقعات کے بعد عمران خان مزید شکنجے میں کسے گئے۔ کوئٹہ میں پریکٹس کرنے والے ایک وکیل عبدالرزاق شر نے عمران خان کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں غداری کی درخواست دائر کی تھی۔ ایک دوسرے شخص نے بھی اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کروایا تھا، اُس نے اپنی درخواست میں لکھا تھا کہ اسپتال میں بیٹھے ہوئے اس نے عمران خان کی تقریر سنی جس میں انہوں نے’’ ریاستی اداروں پر بے بنیاد الزامات عائد کیے اور افسران کے خلاف بلاجواز اشتعال انگیز تقریر کرکے نفرت پھیلائی۔ تقریر سے دل آزاری ہوئی، اس لیے مقدمہ درج کیا جائے۔ ‘‘

یہاں امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ بھی بڑے سرگرم ہیں۔ وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بحالی تحریک میں جنرل پرویزمشرف حلقہ فکر کے ساتھ کھڑے تھے، جبکہ وکلاء کی اکثریت تحریک میں شامل و سرگرم تھی۔ وکیل عبدالرزاق شر 6 جون 2023ء کو کوئٹہ کے علاقے عالمو چوک پر قتل ہوئے۔ وقوعہ کے روز عمران خان کے خلاف سنگین غداری مقدمے کے اندراج سے متعلق درخواست کی سماعت بھی مقرر کی گئی تھی۔ روایتاً وکلاء تنظیموں نے واقعے کی مذمت کی، عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے واقعے کو دہشت گردی کہا۔ پھر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کے بیانات دیے۔ ویسے بھی آئی جی پولیس بلوچستان عبدالرزاق شیخ نے کسی تساہل کا مظاہرہ کیے بغیر جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ یوں جے آئی ٹی نے تحقیقات شروع کردیں اور عمران خان کو تحقیقات کے لیے طلب کرلیا۔ مقتول وکیل کے بیٹے سراج الدین ایڈووکیٹ کو عمران خان کو نامزد کرنے کی ہدایت ملی۔ یعنی اب عمران خان گوناگوں مقدمات سمیت کوئٹہ میں وکیل کے قتل میں بھی نامزد ہیں، جبکہ وکیل کے قتل کی کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ خاندانی دشمنی تھی، وہ مخالفین کی جانب سے قتل ہوئے۔ صوبے میں ایسی حکومت، چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی، آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ آصف علی زرداری کے مقرر کیے ہوئے ہوں تو توقع ایسی ہی تحقیقات اور انصاف کی، کی جانی چاہیے۔

9مئی کے ناخوشگوار اور پُرتشدد واقعات کے دوران متعدد سیاسی کارکن پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ کوئٹہ میں بھی ایک کارکن جاں بحق ہوا۔ چناں چہ حقیقتِ حال کچھ بھی ہو، اس بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل قانونی بازپرس کا متقاضی ہے۔ مگر اس پر قانون اور انصاف کے ایوان خاموش ہیں۔

امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ تو عہدوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ نواب اکبر خان بگٹی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات تھے۔ نواب بگٹی نے سینیٹ کا رکن منتخب کرایا۔ تب سینیٹ کے اندر تقاریر، سیاسی اجتماعات، بیانات اور انٹرویوز کے ذریعے فوج اور اسٹیبلشمنٹ پرسخت تنقید کرتے۔ نواب اکبر بگٹی کے بارے میں ان کی کتاب ان کے داخلی تضادات اور دو رخی کی گواہی دیتی ہے۔ انہوں نے سوئی میں فوجی چھائونی کے قیام کے قضیے کے بارے میں لکھا ہے کہ’’زبردستی سوئی کے لوگوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے فوجی چھائونی تعمیر کی جارہی ہے‘‘۔ مزید لکھا کہ ’’20جنوری 2005ء کو باقاعدہ فوج نے زمین پر قبضہ کرکے ٹینک اور توپیں کھڑی کردیں، مگر یہ فوجی چھائونیاں حق کی کسی بھی جدوجہد کو دبا نہیں سکتیں بلکہ اس سے کہیں بڑی چھائونیاں ڈھاکا اور بنگلہ دیش کے چپے چپے میں بھی بنائی گئی تھیں مگر عوام نے ان سنگینوں، گولیوں پر غلبہ حاصل کرلیا۔‘‘ فوج کو اسی پیراگراف میں سامراج کہا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ڈیرہ بگٹی میں فائرنگ کے ذریعے گیس پائپ لائنوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں ادارے شامل ہیں جو اس کام کے عوض رقم دیتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ لکھا ہے ’’اب طارق بن زیاد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی کشتیاں جلا کر وطن کے دفاع میں نواب اکبر بگٹی شہید اور نواب زادہ بالاچ مری کی قربانیوں کے بعد بلوچ قوم کا ہر نوجوان اس جذبے سے سرشار قومی جدوجہد میں برسرِپیکار ہے جن کی رہنمائی نواب زادہ براہمداغ بگٹی، نواب زادہ میر عالی بگٹی، نواب زادہ حیربیار مری سمیت دیگر سپوت کررہے ہیں۔‘‘پھر ہوا یوں کہ پرویزمشرف کے ترجمان بنے، یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کا عہدہ لے کر عدالت میں نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں سرکار کی جانب سے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ایک اور جگہ لکھا کہ ’’بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے بلوچستان کی شناخت کی علامت بن چکی ہیں‘‘۔ یہاں تک کہا ہے کہ کشمیر کے حریت پسندوں کی قیادت کی طرح بلوچ رہنمائوں کو بھی بیرونی دنیا میں ریاست کے اعزازی سربراہ کا درجہ دے کر نواب زادہ براہمداغ بگٹی، نواب زادہ حیربیار مری، نواب زادہ عالی بگٹی، نواب زادہ گزین مری کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔ انہیں حریت پسند لیڈروں کی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنا مؤقف عالمی قوتوں کے سامنے براہِ راست پیش کریں‘‘۔

امان اللہ کنرانی عہدوں کے لیے دھونس اور دبائوکے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثناء اللہ زہری کے دور میں ایڈووکیٹ جنرل ر ہے۔ ریکوڈک کیس میں بھی خوب فوائد سمیٹے۔یہاں وکیل عبدالرزاق شر کے قتل کی حقانیت خوب واضح ہوتی ہے کہ ان جیسے لوگ پرزے کا کام کررہے ہیں۔