کالم نگار عائشہ دھاریجو نے بروز پیر 17جولائی 2023ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’دنیا ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ جہاں پر آئے دن نت نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ ان ایجادات کے ذریعے انسان ایک دوسرے کے اتنے قریب آگیا ہے جس کا ماضی میں تصور کرنا بھی مشکل تھا۔ اب ذرا موبائل فون کو ہی دیکھ لیں۔ ایک چھوٹے سے موبائل فون کے توسط سے ہم کس طرح ساری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ بذریعہ نیٹ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں، ایک دوسرے سے بآسانی بات چیت کرسکتے ہیں۔ تاہم ان فوائد کے ساتھ نقصانات بھی ہورہے ہیں۔ پہلے لوگ دور دراز کی مسافت طے کرکے کچے کی جانب جایا کرتے تھے۔ کچے کے گوٹھوں کی طرف پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ گاڑیاں ایجاد ہوئیں تو پھر لوگوں نے گاڑیوں کے ذریعے سفر کرنا شروع کردیا۔ جی ہاں! ان سہولیات کی بدولت فاصلے بہت زیادہ سمٹ گئے ہیں۔ ایک فون کال کے ذریعے لوگ بآسانی باہم رابطہ کرلیتے ہیں، لیکن اس موبائل فون کا سب سے بڑا نقصان جو اِس وقت ہمارے ہاں ہورہا ہے وہ ڈاکوئوں کے طاقت ور گروہوں کا اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ڈاکوئوں کے ہر گروہ کے پاس 200 تک سمیں آچکی ہیں۔ سارے سندھ اور پنجاب کے ڈاکو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ فون کی سم گوٹھ کے غریب مسکین فرد کے نام پر جاری کردہ ہوتی ہے تاکہ پولیس کو کسی نوع کا شک و شبہ ہی نہ ہو۔ غریب دیہاتی دراصل مجبور اور بے بس ہوتے ہیں۔ ڈاکو ان کے ناموں سے سموں کا اجرا کرواکے انہیں اپنی غیر قانونی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ زورآور، طاقت ور ڈاکوئوں سے کون پوچھنے والا ہے؟ بکریاں چَرانے والے چرواہے بھی آج کل ٹچ موبائل کا استعمال کررہے ہیں۔ اب جو دو وقت کا کھانا آرام اور سکون کے ساتھ نہیں کھا سکتے وہ بھلا اس ٹچ موبائل کا خرچہ کس طرح سے برداشت کرتے ہیں؟ ظاہر ہے ان کے پسِ پردہ ہاتھ مضبوط اور طاقت ور ہیں۔ کوئی چرواہا ہو یا پھر لکڑہارا… گائے بھینسیں چَرانے والا ہو یا گوٹھوں میں بچوں کی چیزیں بیچنے والا کوئی فرد… ان میں سے بیشتر افراد ڈاکوئوں کے سہولت کار ہوتے ہیں۔ سبب غربت اور افلاس ہے۔ کمزور فرد کے پاس اور کوئی راستہ اور ذریعہ بھی تو نہیں ہوتا۔ اسے محض اپنے بیوی بچوں کو پالنے ہی سے غرض ہوتی ہے۔ ریڑھی والے کی ایک پکار پر ہی بچوں کا ہجوم اکٹھا ہوجاتا ہے۔ سارے گوٹھ کے حال احوال سمیت شہر بھر کی خبریں بھی اس کے پاس ہوتی ہیں۔ اخبارات پہنچانے کا کام بھی اسی کے ذمے ہوتا ہے۔ شہر سے گوٹھ، گوٹھ سے کچے، پھر کچے سے سامان لانے لے جانے والے افراد سب الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو اُس کے اپنے حصے کا کام سونپا گیا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کس مقام پر اور کس کس جگہ پولیس کی کتنی پکٹس کب کب لگی ہیں اس کی اطلاع بھی ڈاکوئوں کو قبل از وقت بآسانی مل جاتی ہے۔ اور تو چھوڑیے! گوٹھ میں کون سی عورت شکل صورت کی اچھی ہے، اس کی خبر بھی ڈاکوئوں کو ان کے مخبر مہیا کردیتے ہیں۔ یہی نہیں، محکمہ پولیس میں بھی ان کے کافی دوست یار موجود ہوتے ہیں، جن کے گھروں کو ڈاکوئوں نے اپنی وارداتوں سے بھردیا ہے، بدلے میں یہ پولیس اہلکار ڈاکوئوں کے ایک طرح سے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ اکثریت کی بات نہیں کرتی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ کچھ صحافی حضرات بھی جو نیم پڑھے لکھے ہوتے ہیں، ڈاکوئوں کے دوست ہی نہیں بلکہ رازدار بھی بنے ہوئے ہیں۔ مفت میں انہیں خبریں ملتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اِدھر اُدھر، یہاں وہاں کی خبریں اور اطلاعات دونوں فریق (پولیس اور ڈاکو) کو مل جاتی ہیں۔ آگے چلیے تو یہ منکشف ہوتا ہے کہ ڈاکوئوں کا اصل سہارا اور ان کے سب سے اہم مددگار قبائلی سردار ہیں، جو سندھ میں پتھاری دار کے نام سے مشہور ہیں۔
بذریعہ فون اب تو ڈاکوئوں نے نت نئے طریقے ایجاد کرلیے ہیں، جن میں سے ایک ’’ہنی ٹریپ‘‘ بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فون کے ذریعے زنانہ آواز پر کسی فرد کا مائل ہوجانا۔ عورت کو اللہ نے ایسا ہنر عطا کیا ہے کہ وہ پتھر کو بھی پانی کر ڈالے۔ کہاں رحیم یار خان اور کہاں کچے کا علاقہ اور وہ بھی کندھ کوٹ سندھ میں واقع؟ لیکن ڈاکوئوں کی ساتھی عورتیں لوگوں کو اپنی گفتگو سے کچھ اس انداز میں مسحور کرلیتی ہیں کہ وہ اپنا آپ ہی فراموش کر ڈالتے ہیں، مسافت اور مقام بھلا دیتے ہیں۔ کہاں ملتان اور کہاں گھوٹکی؟ گھر گھاٹ بھول کر جھوٹے پیار کے جال میں گرفتار ہوکر گھر کا مال و اسباب تک بیچ ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ بلامبالغہ باپ دادا کی عمر کے افراد بھی عورتوں کی آواز سن کر ’’ہنی ٹریپ‘‘ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ ڈاکوئوں نے تربیت یافتہ خواتین کو اپنے اپنے گروہوں میں شامل کر رکھا ہے، جو مذکورہ مکروہ دھندے میں ان کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔ ان عورتوں کا تعلق زیادہ تر کچے کے علاقے ہی سے ہوتا ہے۔
اس سے ذرا آگے چلیے تو ڈاکوئوں کو اب صرف ان کا ہدف ہی درکار ہے۔ فون نے کام کو سہل کردیا ہے۔ ڈاکوئوں کے مخبر کہاں رہتے ہیں، کسی کو اس کی کچھ بھنک تک نہیں پڑتی، یہاں تک کہ ہمارے آس پاس رہنے والے افراد بھی ڈاکوئوں کے مخبر ہوتے ہیں۔ کس انجینئر پر نظر رکھنی ہے، کس ڈاکٹر کو کب کیسے اٹھانا ہے، یا کس صاحبِ ثروت کو کس دن اغوا کرنا ہے، ہر بات کی مکمل اطلاع ڈاکوئوں تک لحظہ بہ لحظہ اور بروقت پہنچتی رہتی ہے۔ کب، کس وقت کون سی واردات کرنی ہے، یہ بھی بذریعہ فون طے ہوجاتا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ دورانِ گفتگو ان کے درمیان ایسے کوڈ ورڈز پہلے ہی سے طے شدہ ہوتے ہیں کہ وہ باہم مطلب کی بات کرلیتے ہیں، دوسرا کوئی جس قدر بھی کوشش کرے وہ کسی صورت بھی معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو ایام 1990ء کی دہائی میں ہوا کرتے تھے، وہی دن اب ڈاکوئوں نے نئی ایجادات کے ساتھ دہرا دیے ہیں، یعنی انہیں واپس لے آئے ہیں۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ پہلے کے ڈاکوئوں کی آنکھوں میں تھوڑی بہت شرم و حیا اور انسانیت جو ہوا کرتی تھی اب وہ بالکل مفقود ہوچکی ہے۔
آج کل تو یوں لگتا ہے کہ گویا ہم کچے کے علاقے میں رہتے ہیں، شہروں میں نہیں۔ کیوں کہ اگر کوئی فرد مر جائے یا پھر اغوا ہوجائے، پولیس اُسی وقت موقع واردات پر پہنچتی ہے جب ڈاکو اپنی کارروائی مکمل کرکے بآسانی جاچکے ہوتے ہیں۔ جس کے بعد جائے واردات سے زخمیوں یا نعشوں کو اسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ آدھا دن تو اسپتال کی کارروائی میں صرف ہوجاتا ہے، جس کے بعد نصف دن مقتول یا مقتولین کی تدفین میں لگ جاتا ہے۔ جو زخمی اور مضروب ہوتے ہیں ورثا کو اُن کی فکر الگ سے ہوتی ہے۔ بعدازاں ایف آئی آر کے اندراج کا وقت آن پہنچتا ہے۔ اب فریادی کس کے خلاف فریاد کریں اور ایف آئی آر کس کے خلاف کٹوائیں؟ نامعلوم افراد یا کچے کے کچھ بدنامِ زمانہ ڈاکوئوں کے خلاف ایف آئی آر درج کردی جاتی ہے، اور پھر پولیس ورثاء کو طفل تسلیاں اور دلاسے دینا شروع کردیتی ہے جن کا کبھی کوئی اختتام نہیں ہوا کرتا۔
جن افراد کو ڈاکو اغوا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں (آج کل اکثر اسی طرح سے ہوتا رہتا ہے) ان کے سارے خاندان کے لیے ایک طرح سے قیامت سی بپا ہوجاتی ہے۔ ہر لمحہ ان پر یہی خوف طاری رہتا ہے کہ ’’پتا نہیں ان کا پیار ازندہ بھی ہوگا کہ نہیں؟ اگر زندہ ہوگا تو معلوم نہیں کس حال میں ہوگا؟ کہیں ڈاکوئوں نے اس پر بہت زیادہ تشدد نہ کیا ہو (اکثر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو بنا کر ڈاکو خود ہی وائرل کردیتے ہیں۔ مترجم)، کہیں ڈاکو اس کی عزت پر حملہ نہ کر ڈالیں! بس اللہ عافیت کا معاملہ کردے، ہمارا پیارا جلد سے جلد بازیاب ہو کر گھر آجائے۔ بس یہی دُعا ان کے لبوں پر ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ 24 گھنٹے ہی مغویوں کے ورثاء کو وہم، وسوسے اور خدشات گھیرے رکھتے ہیں اور وہ دل ہی دل میں خود کو تسلی دینے لگتے ہیں۔ پولیس کی طرف سے پہلے ہی دن سے جھوٹے آسرے دینے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اصل مقام یا وہ ٹھکانہ جہاں ڈاکو رہتے ہیں پولیس وہاں تک پہنچنے کی جرأت سے عاری ہوتی ہے۔ بس ورثاء کو دلاسوں پر دلاسے دیے جاتے ہیں۔ قریبی کچے کے علاقے میں گاڑیاں بھیج کر بتایا جاتا ہے کہ ’’مقابلہ ہوا ہے، کچھ ڈاکو زخمی ہوئے ہیں۔ بہت جلد آپ کا پیارا آپ کو واپس مل جائے گا‘‘۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ڈاکوئوں کے اصل ٹھکانوں پر پہنچنا یا ڈاکوئوں تک رسائی کوئی آسان کام نہیں ہوا کرتا۔ اس میں ظاہر ہے کہ پولیس اہلکار زخمی یا شہید بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے پولیس افسران بااثر شخصیات کی خفیہ طور پر منت سماجت کرکے مسئلے کو حل کرنے کی سعی میں لگ جاتے ہیں۔
ادھر ڈاکوئوں کی جانب سے فون کال موصول ہوتی ہے یا خط، پیغام وغیرہ ملتا ہے کہ ایک کروڑ یا اس سے بھی زیادہ رقم دی جائے، بصورتِ دیگر ذمہ دار آپ لوگ خود ہوں گے۔ آپ خود بتائیے اِس دور میں کہ جب کسی عزت دار سفید پوش فرد کا زندگی بسر کرنا بھی محال ہوچکا ہے، اس دورِ مہنگائی میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے ایک چھوٹی موٹی گاڑی، موٹر سائیکل وغیرہ رکھنا، بچوں کو اسکول میں پڑھانا، گھر کا کچن چلانا اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتے ہوئے ایک کروڑ روپے کی خطیر رقم کا انتظام کہاں سے اور کس طرح سے کیا جائے؟ مطلب یہ ہے کہ ورثاء قرض لے کر، ایک ایک کے سامنے ہاتھ پھیلا کر ہی مطلوبہ رقم کا انتظام کرسکتے ہیں۔ اگر انتظام ہوگیا تو ٹھیک، ورنہ تھک ہار کر وہ اپنی بے بسی پر آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بعض کیسوں میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر ورثاء مغوی کی بازیابی کے لیے پیسے جمع نہیں کرسکتے تو پولیس بھی آج کل کے لین دین کے حساب سے معاملہ طے کرتے ہوئے اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے خود ہی کچھ دے دلا کر ڈاکوئوں سے ڈیل کرنے لگ جاتی ہے۔ اِس دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پڑھے لکھے افراد کا زندگی گزارنا عذاب بن چکا ہے۔ وہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ’’گھر سے نکل تو رہا ہوں، واپسی ممکن بھی ہوسکے گی کہ نہیں؟‘‘ اس نوع کے خدشات دامن گیر رہتے ہیں۔ سندھ کے کئی اضلاع اس وقت ڈاکوئوں، چوروں، اُچکوں کے زیر قبضہ ہیں۔ کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی، جیکب آباد وغیرہ میں پولیس امن وامان کے قیام میں بالکل ناکام ثابت ہوچکی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ پولیس کے پاس نہ جدید ہتھیار ہیں نہ کچے کی طرف چڑھائی کرنے کے لیے راستے ہی دستیاب ہیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ زمینی اور ہوائی آپریشن مل کر کیا جائے اور ڈاکوئوں کے سب ٹھکانوں اور ان کی تمام کیٹیوںکو بالکل تباہ کردیا جائے، پھر بھلے سے علاقے کے وڈیرے ناراض ہوں، کسی کو بھی خاطر میں نہ لایا جائے۔ اگر حکومتِ سندھ واقعی سندھ میں امن چاہتی ہے اور لوگوں کی جانیں عزیز ہیں تو اُسے اس حوالے سے سوچنا پڑے گا اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں گی۔ ورنہ سندھ کے تمام اضلاع کا حال بھی متاثرہ اضلاع بالخصوص کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی کی طرح ہی ہوگا۔ کشمور میں کل ہی کا واقعہ ہے کہ فیصو لاڑو کے مقام سے مریض سکھر لے جایا جارہا تھا کہ اس کے ساتھ جانے والی خواتین کے کان کاٹ کر سونے کے زیورات اُتار لیے گئے اور ان کے پاس موجود ساری رقم چھین لی گئی۔ یہ حال ہے ہمارے صوبہ سندھ کا، جہاں سے امن کے پرندے پرواز کرکے جاچکے ہیں۔