پاکستانی اشرافیہ اپنے مفادات کی قربانی دینے کو تیار نہیں

یو این ڈی پی کے سابق سربراہ برائے پاکستان مارک آندرے فرینچ کا انٹرویو

مارک آندرے فرینچ نے پاکستان کے لیے یو این ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر کی حیثیت سے چار سال گزارے۔ بعد میں انہیں یو این پیس بلڈنگ فنڈ کے چیف آف فائنانسنگ کے منصب پر ترقی ملی تو انہوں نے پاکستان کو خیرباد کہا۔ یہ ستمبر 2016ء کی بات ہے۔ پاکستان سے رختِ سفر باندھنے سے قبل مارک آندرے فرینچ پاکستان کے وقیع انگریزی اقتصادی روزنامے بزنس ریکارڈر کے نمائندے نے انٹرویو کیا۔ انہوں نے پاکستان میں گزارے ہوئے چار برسوں میں اپنے مشاہدات بیان کئے۔

مارک آندرے فرینچ نے یہاں بہت بھرپور وقت گزارا۔ اسٹیک ہولڈرز سے سیر حاصل بحث کے نتیجے میں انہوں نے یو این ڈی پی کے ہر منصوبے سے متعلق لائحۂ عمل بھرپور ذہانت اور دلچسپی سے ترتیب دیا۔ مارک بہت مصروف زندگی بسر کرنے کے عادی رہے ہیں۔ اُنہیں ملنا ملانا اور تبادلۂ خیالات کرنا بہت پسند تھا۔ وہ کسی بھی معاملے میں مشاورت کو بہت پسند کرتے تھے۔ پاکستان میں قیام کے دوران وہ اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ بھی لوگوں اور حلقوں سے ملتے رہے۔ کئی کانفرنسوں اور بحث و تمحیص کے دوران انہوں نے ماڈریٹر کی حیثیت سے اپنے فرائضِ منصبی بخوبی انجام دیے۔

ترقیات سے متعلق عالمی برادری کے اپنے بزرگوں کے برعکس مارک کو پاکستان کے معاشی اور معاشرتی مسائل کے بارے میں جاننے کا زیادہ شوق تھا۔ وہ پاکستان کے پیچیدہ مسائل کے حوالے سے آواز بلند کرنے والوں میں نمایاں تھے۔ زیر نظر انٹرویو میں مارک نے پاکستان میں چار سالہ قیام کے دوران اپنے ادارے کے منصوبوں کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کی نفسیاتی الجھنوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ وہ اس بات پر بہت دکھی دکھائی دیے کہ غیر معمولی قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہونے پر بھی پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور بہبودِ عامہ یقینی بنانے کا مشن کامیاب نہیں ہو پارہا۔ اس انٹرویو میں مارک نے یہ بھی بتایا ہے کہ کس طور پاکستان ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔

بزنس ریکارڈ ریسرچ: آپ پاکستان سے رخصت ہورہے ہیں تو اس حوالے سے آپ کے احساسات سے ہم گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔

مارک آندرے فرینچ: جب آپ کہیں چار سال گزاریں تو وہاں کے سماجی تانے بانے اور تنوع کو شناخت کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ میں خود بھی نہیں جانتا کہ میں کتنی بار بلوچستان گیا ہوں۔ میرا خیال ہے میں نے خیبر پختون خوا کے تقریباً تمام ہی اضلاع کا دورہ کیا ہے۔ میں شمالی علاقہ جات بھی کئی بار گیا ہوں۔ اِسی طور میں نے سندھ اور پنجاب میں بھی سفر کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ میں پاکستان اور اِس کے عوام کا مداح ہوں۔ پاکستان کی تاریخ پڑھیے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ ملک بقا سے ہم کنار کیسے ہوا۔ اپنے قیام کے موقع پر پاکستان کو غیر معمولی تنقید و تنقیص کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کو یقین نہ تھا کہ یہ ملک برقرار رہ پائے گا، چل پائے گا۔ مگر یہ سلامت رہا۔ اِس کا سفر اچھا خاصا طویل رہا ہے اور اِس دوران اِس نے بہت کچھ پایا ہے۔ دوسری طرف میرے لیے یہ بات خاصی تکلیف دہ، بلکہ سوہانِ روح ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام میں اچھی خاصی سکت ہے، لوگ باصلاحیت ہیں، محلِ وقوع اچھا ہے، میدانوں، پہاڑوں اور دریاؤں سمیت تمام ہی بنیادی قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں مگر پھر بھی افلاس کی سطح نیچے لانے، عدم مساوات ختم کرنے، ریاست کو عہدِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اداروں کو فعال بنانے کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ 2016ء میں بھی پاکستان کو 38 فیصد کی حد تک افلاس کا سامنا ہے۔ اس کے متعدد اضلاع صحرائے صحارا کے پس ماندہ ممالک کے سے ماحول کے حامل ہیں۔ بنیادی حقوق کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ خواتین کو ترقی اور بہبود کے خاطر خواہ مواقع میسر نہیں۔ فاٹا کے لوگ امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اُنہیں خاطر خواہ احترام میسر نہیں۔ یہ ملک اب تک وحدت قائم نہیں کرسکا، مل کر کام کرنے کی روایت نے جڑ نہیں پکڑی۔ فکر و عمل کی ہم آہنگی کا راگ تو بہت الاپا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ عملی سطح پر خال خال دکھائی دیتا ہے۔ فاٹا میں اصلاحات اب تک نافذ نہیں کی جاسکیں۔ یہ علاقہ سترہویں صدی میں سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب شدید ذہنی کوفت کا باعث ہے۔

بی بی آر : آپ واپس جارہے ہیں تو کیا اس مرحلے پر کوئی ایسا خیال آپ کے ذہن میں ہے جو غیر معمولی نوعیت کا ہو اور آپ کے ذہن کو گھیرے ہوئے ہو؟

مارک : اس ملک میں کوئی بھی حقیقی تبدیلی اُسی وقت آئے گی جب یہاں کی اشرافیہ (اعلیٰ افسران، سیاست دان، بزنس مین، سیلیبریٹیز وغیرہ) ملک کے اجتماعی اور وسیع تر مفاد میں اپنے قلیل المیعاد، انفرادی اور خاندانی مفادات کی قربانی دینے پر راضی ہوں گے۔ اگر پاکستان کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہے تو بنیادی خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ سیاسی اور معاشی اشرافیہ کو مل کر ملک گیر سطح پر ہم آہنگی کو فروغ دینے کی سمت بڑھنا ہوگا۔

بی بی آر : آپ نے چار سال گزارے ہیں۔ عام طور پر عالمی اداروں کے افسران ڈیڑھ دو سال کے لیے آتے ہیں۔ اتنی کم مدت میں کوئی کسی ملک کو کیسے جان سکتا ہے؟ کسی بھی ملک کے حالات کو سمجھنے، بیوروکریسی اور سیاست دانوں سے تال میل یقینی بنانے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

مارک : یو این ڈی پی کی طرف سے پاکستان کے لیے سرکاری مدتِ قیام دو سال ہے۔ پھر بھی میں نے چار سال گزارے ہیں۔ بہرحال، یہ تو ماننا پڑا ہے کہ کسی بھی ملک کے لوگوں، حکمرانوں، اشرافیہ اور طریق ہائے کار کو سمجھنے کے لیے کچھ مدت درکار ہوتی ہے۔ عالمی برادری میں میرے کئی ساتھی ایسے ہیں جنہوں نے کسی بھی ملک میں سال ڈیڑھ سال گزارا اور پھر کہیں اور چل دیے۔ اتنی کم مدت میں کسی بھی ملک کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ باہر سے آنے والوں کو اپنا رویہ اور رجحان بھی درست رکھنا چاہیے۔ یہ سوچ رکھتے ہوئے نہیں آنا چاہیے کہ پاکستان کو کچھ سکھانا ہے یا ہدایات دینی ہیں۔ کسی بھی ملک میں خدمات انجام دیتے وقت انکسار پر مبنی طرزِ فکر و عمل اپنانا چاہیے۔ میرا کردار یہ تھا کہ معاشرے کے مختلف طبقات کی بات سُنوں، اُن کے مسائل کو سمجھوں اور کسی نہ کسی طور اُن کے لیے کچھ سہولت یقینی بنانے کی سمت کام کروں۔

بی بی آر : 2011ء میں اُس وقت کے یو این ڈی پی ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان نے نئے گروتھ اسٹرے ٹیجک فریم ورک کے خصوصی حوالے سے آجرانہ سرگرمیوں میں یو این ڈی پی کے کردار پر زور دیا تھا۔ آپ کے عہد میں معاشی نمو کسی حد تک کم ہوگئی۔ اس کی بنیادی وجوہ کیا ہیں؟

مارک : یو این ڈی پی نے ہمہ گیر نمو پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ گزشتہ انتظامیہ نے معاشی ترقی کا جو اسٹرے ٹیجک فریم ورک دیا تھا وہ نئی انتظامیہ نے قبول نہیں کیا۔ وژن 2025 میں بہت سے اجزا شامل کیے گئے۔ یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہم یہاں حکومت کے ماتحت کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔

بی بی آر : پاکستان کے لیے یو این ڈی کے ایجنڈے اور سرگرمیوں کا تعین کون کرتا ہے؟ کیا یہ سب کچھ ہیڈ آفس سے آتا ہے؟ کنٹری ڈائریکٹر اپنی بات کس حد تک منوا سکتا ہے؟

مارک : ہم اقوام متحدہ کا ترقی سے متعلق عمومی ادارہ ہیں۔ ہمارے پاس اس حوالے سے خاصی لچک ہے۔ کسی بھی ملک کے تناظر کو دیکھتے ہوئے ہم لائحۂ عمل ترتیب دیتے ہیں۔ ہم عالمی سطح پر ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حکومت کس معاملے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس حوالے سے حکومتِ پاکستان سے عمومی معاہدے ہوتے ہیں اور ہم اُن معاہدوں کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ میری توجہ اس بات پر رہی ہے کہ جو کچھ طے کیا گیا ہے اس کا نفاذ بھرپور ہو اور نتائج سامنے آئیں۔ میرا خیال ہے ہم اپنے اہداف کے حصول میں بہت حد تک کامیاب رہے ہیں۔

بی بی آر : آپ کے خیال میں آپ یو این ڈی پی کے حوالے سے پاکستان میں کیا ورثہ چھوڑ کر جارہے ہیں؟

مارک : میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص کسی ایک منصوبے یا پروگرام کے ذریعے دنیا کو بدل سکتا ہے۔ ہاں، میں نے کچھ نہ کچھ ایسا کیا ہے جو محسوس کیا جاتا رہے گا، یاد رہے گا۔ میں اس بات پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ میری ٹیم نے اچھا کام کیا ہے۔ یو این ڈی پی افلاس کے خاتمے، مساوات کے فروغ، فاٹا میں اصلاحات اور دیگر بنیادی معاملات پر عوام کا شعور بیدار کرنے میں بھی اپنا کردار پوری جاں فشانی سے ادا کررہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے بعد آنے والے بھی اس وراثت کو جاری رکھیں گے۔ جب میں آیا تب تک اس نوعیت کا کردار ادا نہیں کیا جارہا تھا۔ تب ہم قدرتی آفات، سیلاب، زلزلوں وغیرہ پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔ اب ہم معاشرتی سطح پر بھی سوچ رہے ہیں۔ مجھے یو این ڈی پی کے لیے وسیع تر کردار تشکیل دینے کا موقع ملا۔ میں نے صرف ترقیات کے حوالے سے حکومتِ پاکستان کی مدد سے کہیں آگے جاکر سول سوسائٹی سے مل کر پالیسی ڈائیلاگ کے لیے بھی راہ ہموار کی۔ صوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کو ترجیح دی گئی ہے۔ ہمارا پشاور آفس ہمارے اسلام آباد آفس سے بڑا رہا ہے۔ نفری بھی زیادہ ہے اور کام بھی پھیلا ہوا ہے۔ صوبوں میں بڑے پیمانے پر فنڈنگ ہوئی ہے۔ یوں دیکھیے تو یو این ڈی پی میں خاصی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ پہلے ہم وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اب صوبوں کے ساتھ مل کر بھی کام ہورہا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا پر زور دیا ہے۔ میں جب آیا تھا تب ابتدائی 6 ماہ کے دوران 144 منصوبے بند کیے۔ پھر ہم نے اپنی ساری توانائی اور وسائل سات شعبوں پر لگائے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کو بھی شریکِ کار کیا گیا اور حکومت کے ساتھ بھی مل کر کام کیا۔

بی بی آر : یو این ڈی پی پاکستان کے فنڈز کی صوبائی تقسیم کس طور ہے؟

مارک : پاکستان میں ہمارے ملازمین کی تعداد کم و بیش 287 ہے۔ ان میں سے 135 صرف پشاور میں ہیں۔ ہماری فنڈنگ کا 35 فیصد فاٹا کے لیے ہے۔ 35 فیصد خیبر پختون خوا کے لیے ہے۔ بلوچستان کو 15 فیصد فنڈ ملتے ہیں۔ باقی جو کچھ ہے وہ اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں خرچ ہوتا ہے۔

بی بی آر : بلوچستان خاصا پس ماندہ ہے۔ کیا محض 15 فیصد فنڈنگ کم نہیں ہے؟

مارک : بہرکیف، بلوچستان کو ملنے والی فنڈنگ کراچی اور لاہور کے لیے مختص فنڈنگ سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں منصوبوں کی تکمیل آسان کام نہیں۔ وہاں نقل و حرکت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ میں چاہوں گا کہ بلوچستان کے لیے زیادہ فنڈنگ ہو۔

بی بی آر : دیگر صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نظام پر آپ کی رائے کیا ہے؟

مارک : پاکستان کے ہر صوبے میں مقامی حکومتی نظام کے حوالے سے ہم زیادہ خوش اور پُرامید نہیں رہے ہیں۔ صرف خیبر پختون خوا میں حال ہی میں مقامی حکومتی نظام کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں اور معقول فنڈنگ بھی ہوئی ہے۔ مقامی حکومتوں کا محض انتخاب کافی نہیں۔ انہیں اختیارات اور فنڈز بھی ملنے چاہئیں۔ ہم نے متعلقہ قوانین پر نظرثانی کی وکالت کی ہے۔ خیبر پختون خوا میں مقامی حکومت کا نظام چونکہ معقول ہے اس لیے ہم نے فنڈنگ بھی بڑھائی ہے۔ ہم گورننس کا معیار بلند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

بی بی آر : کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ یو این ڈی پی کی سرگرمیوں کو پاکستانی میڈیا میں زیادہ کوریج نہیں ملتی اور موافق رائے بھی؟ نئے کنٹری ڈائریکٹر کو آپ کیا یہ مشورہ نہیں دینا چاہیں گے کہ وہ اس معاملے پر زیادہ متوجہ ہو؟

مارک : میرا خیال ہے کہ میڈیا لٹریسی کے معاملے میں ہمیں خسارے کا سامنا رہا ہے۔ بہت سے اہم معاملات کو بھرپور کوریج ملنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ میں جب اشرافیہ کی بات کرتا ہوں تو یہ بھی تو اشرافیہ ہی ہیں۔ میڈیا اب بزنس کا نام ہے۔ لیکن اگر کوئی کاروبار بہبودِ عامہ کی راہ ہموار نہ کرے تو اِس کا کچھ فائدہ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے دولت آتی ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ میڈیا جمہوریت کے ستونوں میں سے ہے۔ میڈیا کا ایک بنیادی کام عوام کو باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ باشعور رکھنا بھی ہے۔ بدقسمتی سے ملٹری اتھارٹیز پر حکومت کے انحصار اور میڈیا پر مقتدر حلقوں کے اثر رسوخ کے نتیجے میں جمہوریت کی جڑیں کمزور ہوتی چلی گئی ہیں۔ اور جمہوری ادارے تو ملک کی بنیادیں ہوا کرتے ہیں۔ معاشی نمو کے حوالے سے کی جانے والی بیشتر باتیں محض سیمینار اور کانفرنس تک محدود ہیں۔ اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ معیشت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ دنیا بھر میں مساوات کے لیے کام ہورہا ہے۔ عدم مساوات عالمگیر مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لیے کام ہورہا ہے۔ کہیں رفتار زیادہ ہے اور کہیں کم۔ افلاس پر قابو پانا بھی مشکل ہے مگر اُس سے کہیں مشکل ہے عدم مساوات کو ختم کرنا۔ پاکستان میں عدم مساوات حقوق کے حوالے سے بھی ہے اور ترقی کے مواقع کے حوالے سے بھی۔ کئی طبقات محروم ہیں۔ چند ایک طبقات نے بہت کچھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ دولت کا ارتکاز خرابیاں پیدا کررہا ہے۔ پاکستان میں عدم مساوات کے خاتمے کے لیے یو این ڈی پی کام کرتا رہے گا۔ ہمارا بنیادی فریضہ آواز اٹھانا ہے تاکہ عمومی شعور پیدا ہو۔

بی بی آر : آپ اشرافیہ کے کردار پر زور دیتے آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اشرافیہ بھلا کیوں یہ چاہے گی کہ معاملات درست ہوں اور کھیل نئے سرے سے شروع ہو؟ افلاس اور مساوات کی کمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عوام کھڑے ہوتے ہیں یا اشرافیہ کے اندر ہی بغاوت پھوٹ پڑتی ہے۔ کیا آپ کو پاکستان میں ایسے معاملات سر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں؟

مارک : مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہورہا ہے یا ہونے والا ہے۔ مگر خیر، یہ کسی نہ کسی طور ہوکر رہے گا۔ کوئی بھی ملک اِس طور نہیں جی سکتا کہ 40 فیصد لوگ شدید افلاس کی زد میں ہوں۔

بی بی آر : اشرافیہ کو قربانی اُس وقت دینا تھی جب افلاس بہت زیادہ تھا۔ اب تو افلاس کی سطح گر رہی ہے، اب اشرافیہ کیوں قربانی دے گی؟

مارک : اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو ذاتی مفاد کا معاملہ ہے۔ اگر اشرافیہ کو زیادہ چیزیں بیچنی ہیں تو بڑی اور مضبوط میعشت چاہیے۔ اس کے لیے زیادہ کسٹمرز درکار ہوں گے۔ چند ایک چھوٹے گروپ اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔ سیالکوٹ کے بابر علی کی مثال نمایاں ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ سیالکوٹ کے کاروباری طبقے کو ایئر پورٹ کی ضرورت ہے تو انہوں نے حکومت کی طرف سے کچھ کیے جانے کا انتظار نہیں کیا بلکہ اپنے طور پر ایئر پورٹ بنا ڈالا۔ کراچی کا معاملہ میرے سامنے رہا ہے۔ کراچی معیشت کے لیے انجن کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر اس انجن کو چلتا رکھنا ہے تو بہت کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ محض تماشا دیکھنے سے کچھ نہ ہوگا۔ کراچی میں ریاستی اداروں کی جو کیفیت ہے اُس کے تحت تو وہاں ڈھنگ سے جینے اور ترقی کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ چند مال دار مل کر اپنے الگ علاقے قائم کرلیں، یہ نہیں چل سکتا۔ انتہائی مال دار طبقے کے لیے الگ علاقے یا شہر بساکر باقی ملک کو افلاس اور بے امنی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ کیا آنے والی نسلوں کو ایسا ملک دیا جائے گا؟ پاکستان کی اشرافیہ ملک کی سستی لیبر سے فائدہ اٹھاتی ہے مگر جب کچھ لگانے کی بات آتی ہے تو لندن یا دبئی کو منتخب کیا جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ طے کرے کہ اُسے ریاست چاہیے بھی یا نہیں۔ اشرافیہ اس لیے تو نہیں ہوتی کہ محض کماتی رہے اور ملک کو کچھ بھی نہ دے۔ ہر ملک میں اشرافیہ ہوتی ہے اور ملک کے لیے بہت کچھ کرتی بھی ہے۔ ملک سے محض وصول کرنا اور اُسے کچھ نہ دینا، یہ سب کچھ زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ میں نے بہت سے وڈیروں اور زمینداروں سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے صدیوں سے زمین کا فائدہ اٹھایا ہے۔ آبیانے کے نام پر وہ کچھ بھی نہیں دیتے اور لوگوں سے بیگار لیتے ہیں۔ جب یہ لوگ اقوام متحدہ سے رابطہ کرکے آبی وسائل، نکاسیِ آب کے منصوبوں اور تعلیمی اداروں میں سرمایہ کاری کا کہتے ہیں تو یقین کیجیے ہمارے لیے یہ سب کچھ بہت پریشان کن ہوتا ہے۔ (بہ شکریہ:بزنس ریکارڈر)