کشمیر کی خصوصی شناخت مٹانے کے لیے بھارتی حکومت کی کوشش شروع سے جاری ہے
بھارت کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کشمیر میں آرٹیکل 370کے خاتمے کو چیلنج کرنے والی رٹ پٹیشنز پر سماعت کا آغاز کردیا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے فیصلے کے خلاف 23 درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر تھیں جن پر سماعت کا آغاز سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف ڈی وائی چندراچد کی سربراہی میں ہوگیا ہے۔ درخواست گزاروں میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔ محبوبہ مفتی نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کشمیریوں کی رائے حاصل کیے بغیر ہونے والا فیصلہ غیر آئینی ہے کیونکہ آئینِ ہند میں واضح طور پر کشمیریوں کی مرضی اور مشورے کی بات کی گئی ہے۔ مودی حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کشمیر اسمبلی کو ختم کردیا تھا، اور اس فیصلے میں کسی طور کشمیریوں کی رضامندی شامل نہیں۔
کشمیر اقوام متحدہ میں ایک متنازع مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ کاغذوں میں اس کی متنازع حیثیت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تنازعے کے حل کے لیے بننے والے کمشنر کی صورت موجود ہے، اور کون سا عالمی راہنما ہے جس کا بیان ریکارڈ پر موجود نہیں کہ پاکستان اور بھارت کو تنازع کشمیر پُرامن طور پر مذاکرات سے حل کرنا چاہیے! اور زمین پر اس تنازعے کی بین الاقوامی حیثیت اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین اور سیزفائر لائن کو کنٹرول لائن کہنا اور اس کے لیے بارڈر کی اصطلاح استعمال نہ کرنا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کشمیر ایک سہ فریقی مسئلہ ہے اور اس کا کوئی معاملہ بھی کسی ایک فریق کا اندرونی معاملہ نہیں۔ اس حد تک بات ٹھیک ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ370 بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور کشمیری راہنما شیخ محمد عبداللہ کے طویل دوستانہ تعلقات کا مظہر تھی۔ اسی امید پر نہرو نے شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا تھا۔ بھارت کے آئین کی تیاری کے موقع پر سردار پٹیل کا سخت گیر کانگریسی گروپ ایسی کسی شق اور دفعہ کا کھلا مخالف تھا، مگر پنڈت نہرو نے امبیڈکر کی منت سماجت کرکے اور شیخ عبداللہ کے ساتھ اپنے وعدوں اور تعلقات کا واسطہ دے کر اس دفعہ کو آئین کا حصہ بنوایا جس کے تحت دہلی کے پاس صرف خارجہ امور، مواصلات اور دفاع کے تین شعبے تھے، جبکہ باقی تمام اختیارات مقبوضہ جموں وکشمیر کی حکومت کو حاصل تھے۔ اس دفعہ کے تحت مہاراجا ہری سنگھ کے اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو من وعن اپناکر آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس دفعہ کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو صدر اور وزیراعظم کے عہدے، اپنے آئین اور پرچم کا حق دیا گیا۔ یوں جموں وکشمیر کی ریاست بھارت میں اپنی نوعیت کی منفرد ریاست تھی جو مہاراجا کے مشروط الحاق کے کچے دھاگے کے ساتھ بھارت کے آئین کا حصہ تھی۔
بھارت کی طرف سے کشمیر کو دی گئی یہ آزادیِ پرواز محض دوسال ہی جاری رہی اور بھارتی حکومت نے اس دفعہ کو غیر مؤثر بنانے کی کوششوں کا آغاز کرکے کشمیریوں کے بال و پر کترنا شروع کردیے۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا گیا، اور یوں پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان یارانے کی اس یادگار کی فلک بوس عمارت کی پہلی اینٹ کھسک کر رہ گئی۔
شیخ عبداللہ کو دی گئی آزادیاں بھارت نے اُن کے جانشین بخشی غلام محمد کے ذریعے واپس لینے کا عمل شروع کیا۔ بھارت نے صدر اور وزیراعظم کے عہدے ختم کرکے گورنر اور وزیراعلیٰ میں بدل دیے۔ بھارتی آڈیٹر جنرل اور الیکشن کمیشن کو کشمیر تک توسیع دی گئی۔ الحاق کو حتمی قرار دیا گیا۔ آل انڈیا سروسز یعنی انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز اور انڈین پولیس سروسز کا دائرہ بھی کشمیر تک بڑھایا گیا۔ 1964ء میں بھارتی آئین کی دفعہ 356 اور357 کے تحت ریاستی حکومت کی ناکامی کی صورت میں صدر راج کا اختیار دے دیا گیا۔ دفعہ 370دہلی کے حاکم اور سری نگر کے محکوم حکمرانوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، مگر یہ بھارت کے ڈھانچے میں کشمیر کی الگ شناخت کی علامت تھی۔ بھارت نے آزادی کی اس عمارت کو پہلے خود ہی ویران کیا، پھر اس کے در و دیوار اکھاڑے اور پانچ اگست کو اس کا ملبہ بھی چرانے کی کوشش کی تاکہ ثبوت اور آثار باقی نہ رہیں۔ پاکستان کو ماضی کی روایت کے تحت ہر اُس کشمیری کے ساتھ کھڑا ہونا ہے جو لمحۂ موجود میں دہلی کے مقابل کھڑا ہوتا ہے۔ایک فریق کے طور پر پاکستان کی یہ تاریخی ذمہ داری ہے۔
یوں تو 5 اگست 2019ء سے بہت پہلے ہی کشمیر کی خصوصی شناخت کو مٹا ڈالنے کی کوششیں آہستہ روی سے جاری تھیں، مگر 2019ء سے سال بھر پہلے یہ مقدمہ بھارتی عدالتوں میں پراسرار انداز سے پہنچا دیا گیا تھا۔ سال بھر پہلے ہی ’’ہم شہری‘‘ نامی ایک فرضی تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کو چیلنج کردیا تھا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 35A پر فیصلہ سنانے کی تاریخوں کو آگے بڑھانا شروع کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ بینچ تین رکنی تھا مگر ایک رکن کی غیر حاضری کی وجہ سے فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے مقررہ دن فیصلہ سنانے سے گریز کیا۔ جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں زوردار ہڑتال چل رہی تھی۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کی اپیل پر ہونے والی دو روزہ ہڑتال نے کاروبارِ حیات معطل کرکے رکھ دیا تھا اور عوام چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں احتجاج کررہے تھے۔ ’’وی دی سٹیزن‘‘ (ہم شہری) نامی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بھارتی سپریم کورٹ میں یہ رٹ دائر کررکھی تھی۔ بھارتی آئین کی دفعہ35Aمقبوضہ کشمیر کو خصوصی شناخت دیتی ہے جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری باشندہ ریاست جموں وکشمیر میں نہ تو جائداد خرید سکتا ہے اور نہ ووٹ کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت بھارت کا شہری کشمیر میں ملازمت کا حق بھی نہیں رکھتا۔ یہ دفعہ کشمیر کی الگ شناخت کے حوالے سے بھارت کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدوں کی آخری نشانیوں میں شامل ہے۔ غیر کشمیری باشندوں کے کشمیر میں زمینیں خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے کا قانون جسے عرفِ عام میں اسٹیٹ سبجیکٹ یعنی پشتینی باشندہ ریاست جموں وکشمیر کا تصدیق نامہ کہا جاتا ہے مہاراجا ہری سنگھ نے نافذ کیا تھا۔ آرٹیکل370 کے خاتمے سے پہلے ہی یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ اس قانون کے خاتمے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر بھارتی سرمایہ دار وادی کی طرف نقل مکانی کریں گے، اونے پونے داموں زمینیں خریدی جائیں گی۔ اور مغربی پاکستان سے جانے والے لاکھوں ہندو پناہ گزین پہلے ہی جموں کے علاقوں میں شہریت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں، پنڈتوں کے لیے الگ بستیاں بسانے کے منصوبے بھی کاغذوں میں تیار ہیں، امرناتھ یاتریوں کے لیے وسیع و عریض رہائشی منصوبے اور اس کے لیے الگ سے انتظامیہ کا قیام اور ان کے لیے مکانیت کی سہولت کی فراہمی وادی کے مسلمان اکثریتی کردار کے اوپر لٹکتی ہوئی تلوار رہی ہے۔ یوں کشمیر میں ایک ’’اسرائیل‘‘ کے خدوخال اُبھرنا شروع ہوجائیں گے۔ اب چار سال سے جو کچھ ہورہا ہے یہ اس کی عملی تصویر ہے۔
حال ہی میں محبوبہ مفتی کا یہ چونکا دینے والا بیان سامنے آیا ہے کہ بھارتی حکومت دس لاکھ غیر کشمیریوں کو کشمیر میں ”بے زمین کو زمین دینے“ کے نام پر بسا کر آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ان خدشات اور خطرات کو تقویت دے رہا ہے کہ بھارت کشمیر میں نوآبادیاتی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ کشمیری مسلمان ہمیشہ سے اس خطرے کی بو محسوس کرتے رہے ہیں مگر نریندر مودی کے دورِ حکومت میں یہ خطرہ بہت عیاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کے آتے ہی کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے اور نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہوگیا ہے۔ وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ طاقت اور حیلہ جوئی سے کشمیریوں کو رام نہ کیا جاسکا، اور اب آخری چارئہ کار آبادی کے تناسب کی تبدیلی ہے۔ اس کے لیے پہلے ہی بھارت کے آئینی اداروں کا سہارا لیا جانے لگا تھا اور اب ان آئینی اداروں کے پاس کشمیریوں کا مقدمہ ہے، اور چار سال بعد ہی سہی، ان اداروں نے کشمیریوں کی درخواستوں کی طرف متوجہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔