پاکستان کی سیاست کا ہیجان کیا رخ اختیار کرے گا؟

انتخابات میں ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کا بڑا ردِ عمل ہو گا

پاکستان کی مجموعی سیاست ہیجانی کیفیت کا شکار ہے، اورکسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں کہ طاقت ور طبقات جس انداز سے ملک کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ مسائل کے حل کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ جہاں سیاست آئین و قانون سے بالاتر ہوکر، یا جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرکے ذاتی مفادات کے گرد گھوم رہی ہو وہاں یہ سوچنا کہ ملک کسی درست سمت کی طرف بڑھ سکے گا، خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔کوئی بھی ریاست یا معاشرہ کسی بھی صورت محض دعووں، جذبات یا عوام کو خوش نما نعروں سے گمراہ کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا، بلکہ یہ عمل مجموعی طور پر ترقی مخالف ایجنڈا ہے۔

ایسی سیاست کا مقصد عوام کو نظرانداز کرنا اور طاقت ور طبقات کی سیاست کو مستحکم کرنا ہے، اور اس پر عوامی ردعمل یا عوامی ساکھ کے سوالات بھی سامنے آجاتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے میں جب لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ موجودہ حالات میں پاکستان درست سمت میں بڑھ رہا ہے؟ تواکثریت نے اس کی نفی کردی اور سب کا متفقہ فیصلہ یہی سامنے آیا کہ ملک کی سمت درست نہیں بلکہ ہم تباہ کن راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ نکتہ نظر یا سوچ محض عام طبقات تک محدود نہیں، بلکہ اوپر سے لے کر نیچے تک جس طبقے میں بھی چلے جائیں آپ کو یہی سوچ غالب نظر آئے گی کہ ہم غلط راستے پر چل رہے ہیں۔

پاکستان کا موجودہ بحران سیاست کے ساتھ ساتھ ریاستی بحران کی بھی عکاسی کرتا ہے، اور ظاہر کرتا ہے کہ ہم مشکل حالات کا شکار ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات ہی درکار ہیں۔ موجودہ حکومت اگست میں اپنی مدت کے خاتمے کے بعد نئے انتخابات کا عندیہ دے رہی ہے۔ حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بقول کسی بھی صورت میں انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا اور نگران حکومت میں کسی بھی قسم کی توسیع نہیں کی جائے گی۔ یہ باتیں ایسے موقع پر ہورہی ہیں جب ملک میں انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے بھی دو متضاد آرا چل رہی ہیں۔

ایک رائے انتخابات بروقت ہونے کی ہے تو دوسری طرف یہ سوچ بھی غالب ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات میں تاخیر کا عمل بھی سامنے آسکتا ہے۔ انتخابات میں اگر تاخیر ہوتی ہے تو سوال یہ ہے کہ کون ایسا چاہتا ہے اورکیوں چاہتا ہے؟ کیونکہ جب حکمران اتحاد انتخابات کے انعقاد کی یقین دہانی کرا رہا ہے اور ان کے بقول اکتوبر یا نومبر میں ہی انتخابات ہوں گے تو کیوں انتخابات کے نہ ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں؟ ایک منطق یہ پیش کی جارہی تھی کہ نئی مردم شماری کے نتائج کو بنیاد بناکر انتخابات میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔ لیکن حکمران اتحاد نے واضح کردیا ہے کہ نئی مردم شماری کے نتائج پیش نہیں کیے جائیں گے اور انتخابات پرانی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے درخواست کی تھی کہ نئے عام انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہونے چاہئیں، مگر اس کو تسلیم نہیں کیا گیا، کیونکہ حکمران اتحاد کو خدشہ تھا کہ نئی مردم شماری کو بنیاد بناکر عام انتخابات میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر انتخابات میں تاخیرکرنا مقصود ہوا تو ایم کیوایم پرانی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کو عدالت میں چیلنج کرسکتی ہے۔ البتہ حکمران اتحاد میں یہ اتفاق ہوگیا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں 8 اگست تک تحلیل کردی جائیں گی اور اس کے مطابق 90 روز میں انتخابات ہوں گے جو نومبر کے پہلے ہفتے میں متوقع ہیں۔

اصل سوال آنے والے دنوں میں نگران حکومت اور نگران وزیراعظم کا ہے کہ کون ہوگا؟ کیونکہ وزیراعظم شہبازشریف اور آصف علی زرداری کے بقول معاشی امور کے کسی ماہر کے بجائے کسی بزرگ سیاست دان کو ہی نگران وزیراعظم کے طور پر نامزد کیا جائے، تاکہ یہ فیصلہ کوئی اورنہیں بلکہ حکومت، شریف خاندان اور آصف زرداری مل بیٹھ کر کریں۔ کیونکہ اسلام آباد میں یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ نگران وزیراعظم کا بھی انتخاب وہی کریں گے جن کے پاس اختیار ہے، اور اِس وقت جس کے پاس اختیار ہے اسے سب لوگ اسٹیبلشمنٹ کے نام سے جانتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ اصل ریموٹ کنٹرول بھی اسی کے پاس ہے۔

اس لیے نگران وزیراعظم کے نام پر جو اتفاق سامنے آئے گا اسی سے اندازہ ہوسکے گا کہ مستقبل کی سیاست کا رخ کس طرف ہے۔ عمران خان کے بارے میں پہلے پلان اے یا پلان بی تھا کہ ان کو ہر صورت انتخابی عمل سے باہر رکھا جائے یا طاقت کے زور پر روکا جائے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق کچھ نئی گفتگو شروع ہوئی ہے، اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو باہر نکال کر انتخابات کی ساکھ قائم نہیں ہوسکے گی، اس لیے طاقت کے کچھ مراکز میں بھی یہ سوچ ابھری ہے کہ ہمیں نئے حالات کے مطابق اب پلان اے اور پلان بی کے مقابلے میں پلان سی لانا ہوگا یعنی عمران خان کو بھی انتخابی عمل کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ مستقبل کی سیاست میں ٹکرائو کے ماحول کو کم کیا جاسکے۔ لیکن یہ سوچ واقعی آگے بڑھ سکے گی اس پر کچھ کہنا حتمی طور پر ممکن نہیں ہوگا کیونکہ یہ کام بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ دوسری طرف حکمران اتحاد میں بھی مایوسی بڑھ رہی ہے۔

اول مسلم لیگ (ن) کو تحفظات ہیں کہ پنجاب میں کیوں جہانگیر ترین کی جماعت کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کو یہ بھی گلہ ہے کہ پرویز خٹک جو اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ (ن) کا حصہ بننا چاہتے تھے ان کو بھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت سے روکا گیا ہے اور نئی جماعت بنانے کا ٹارگٹ دیا گیا، اور انہوں نے نئی جماعت ’’پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین‘‘ کے نام سے بنادی ہے۔ اہم بات اس میں سابق وزیراعلیٰ کے پی کے محمود خان کی شمولیت ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کے لیے بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا ۔لیکن جو ابتدائی فہرست سامنے آئی ہے اس میں سے دس کے قریب لوگوںنے تردید کردی ہے اورکہاہے کہ ان کے نام غلط پیش کیے گئے ہیں اورہم بدستور پی ٹی آئی کا حصہ اور عمران خان کے ساتھ ہیں۔

اس نئی جماعت کی تشکیل ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی مہم جوئی ہورہی ہے اور عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو گلہ ہے کہ پنجاب میں آصف زرداری کی آمد کو بھی کوئی قبولیت نہیں مل رہی، اور بڑے خاندانی سیاسی لوگوں کو پیپلزپارٹی میں شامل ہونے سے روک دیا گیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگر آپ کو کوئی جماعت جوائن کرنی ہے تو جہانگیر ترین کی جماعت میں شمولیت اختیار کریں۔ اسی طرح نگران وزیراعظم کے نام کو حتمی شکل دینے کے لیے بھی دونوں بڑی جماعتوں کو پذیرائی نہیں ملی۔ نوازشریف اور مریم نواز کی سیاسی واپسی پر بھی سوالیہ نشان ہیں اوریہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کے مقابلے میں اگر اسٹیبلشمنٹ کی کوئی چوائس ہوگی تو وہ شہبازشریف ہی ہوں گے۔

انتخابات سے قبل نوازشریف کی واپسی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے تھے خیبر پختون خوا میں عمران خان کا بندوبست اسٹیبلشمنٹ کرے گی تو ان کی جماعت کو انتخابی سیاست میں فائدہ ہوگا۔ لیکن ان کو بھی گلہ ہے کہ عمران خان کو صوبے کی سیاست سے باہر کرنے کا کوئی مؤثر بندوبست نہیں کیا گیا، بلکہ اب ان کے ساتھ ساتھ پرویز خٹک کو بھی میدان میں اتارا جارہا ہے جو ان کے لیے نئی سیاسی مشکلات پیدا کرے گا۔ یعنی ابھی تک انتخابی منظرنامے کی کوئی واضح شکل سامنے نہیں آرہی، اورنہ ہی حکمران اتحاد میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔ اس لیے جیسے ہی انتخابی عمل شروع ہوگا، حکمران جماعتوں کے درمیان سیاسی تنائو بڑھے گا۔ اسی طرح انتخابی شیڈول آنے یا نگران وزیراعظم بننے کے بعد کیسے عمران خان کی جماعت کو انتخابی مہم سے روکا جاسکے گا؟ دنیا میں عمران خان کو انتخابات سے باہر رکھنے پر ردعمل ہوگا اور لوگ انتخابات کی حیثیت پر ہی سوالات کریں گے کہ اس نظام کی ساکھ کیا ہے!

مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا چیلنج یہ بن گیا ہے کہ وہ انتخابات میں کس بیانیے کے ساتھ جائے گی۔ کیونکہ معاشی معاملات میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی اورمہنگائی بدستور بڑھ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے لوگوں میں مزید پریشانی پیدا کردی ہے۔ اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد جو بھی سرمایہ کاری ہورہی ہے یا جو برادر اسلامی ممالک ہماری مدد کررہے ہیں اس سے فوری طور پر لوگوں کو معاشی بنیادوں پر ریلیف دینا ممکن نہیں۔ مسلم لیگ (ن) جس کی بڑی سیاسی طاقت پنجاب ہے، اگر اسے وہاں سے ہی انتخابات کےمیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اقتدار کی سیاست سے دور ہوسکتی ہے۔

ایک چیلنج انتخابات کی شفافیت کا ہے۔ اگر انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوتی ہے توایسی صورت میں ایک اور بڑے بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔ ویسے بھی موجودہ صورتِ حال میں انتخابات میں اگر سیاسی انجینئرنگ کی گئی تو اسے بڑے پیمانے پر کرنا ہوگا، اوریہ عمل خود ہماری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جائے گا۔اسی طرح پرویز خٹک جو نئی سیاسی جماعت بنارہے ہیں کیا ان کی سیاسی قبولیت عمران خان کے خلاف ممکن ہوسکے گی؟ اورکیا وہ واقعی پی ٹی آئی میں کوئی بڑا شگاف ڈال سکیں گے؟ کے پی کے کی موجودہ صورت حال فی الحال عمران خان کے کنٹرول میں ہی ہے، اب دیکھنا ہوگا کہ پرویز خٹک خود کیا کرتے ہیں یا ان سے کیا کروایا جاتا ہے۔جہانگیر ترین پہلے ہی خاصے بددل نظر آتے ہیں اوران کے بقول پا رٹی کا سربراہ علیم خان کو بنانے کا فیصلہ بھی ہمارا نہیں بلکہ ہم پر تھوپا گیا ہے۔

اصل میں حکمران اتحاد میں یہ شکوک موجود ہیں کہ کہیں ان کو بھی دھوکا نہ دیا جارہا ہو،یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات سے بھی نالاں ہیں۔بالخصوص نواز شریف اورمریم نواز کو گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بدستور ان کا راستہ روک رہی ہے۔ پاکستان کو اگر واقعی بحرانوں سے نکلنا ہے تو اسے ایک مضبوط سیاسی اورمعاشی نظام درکا رہے۔لیکن بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز کمزور حکومتوں کے ماڈل پر کام کرتے ہیں اوراب بھی یہی سوچاجارہا ہے کہ ایک ایسی حکومت کو سامنے لایا جائے جو کمزور ہو اوراس کا ریموٹ کنٹرول ہمارے پاس ہی ہو۔یعنی کسی بھی جماعت کے پاس کوئی واضح مینڈیٹ نہ ہو، اورنہ ہی کسی جماعت کو سولو فلائٹ کی اجازت ہوگی۔یہ سب کچھ ظاہرکرتا ہے کہ ہماری سیاست ابھی بھی جمہوریت کے ارتقائی عمل سے گزررہی ہے اور اسے ابھی وہ کھلی آزادی میسر نہیں جو جمہوری نظام کو حاصل ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حد سے بڑھتے ہوئے کنٹرول میں خود ہمارے سیاست دانوں کا بھی اہم حصہ ہے جو جمہوریت کے لیے کھڑے ہونے کے بجائے اقتدار یا طاقت کے حصول کے لیے خود ہی اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔