اسلام آباد میں جشن کا سماں ہے، حکمران خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ شادیانے بجائے جارہے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ حالانکہ یہ معاہدہ اس قدر یک طرفہ اور کڑی شرائط پر کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکام کو اس پر خوش ہونے کے بجائے رونا چاہیے۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ آئی ایم ایف نامی اس عالمی ساہوکار نے صرف حکومتی عہدیداروں کی یقین دہانیوں پر اعتماد کرنے کے بجائے حزبِ اختلاف اور پارلیمان کی دیگر جماعتوں سے بھی معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی حاصل کرنا ضروری سمجھا ہے۔ لہجہ اس قدر کرخت ہے کہ منہ در منہ ہمارے عزت مآب حکمرانوں کی توہین کی جارہی ہے، تین ارب ڈالر کے نئے قرض کی منظوری سے قبل ناک رگڑوانے کے باوجود قرض پروگرام کی منظوری کے فوری بعد پاکستان کو ایک بار پھر سخت پیغام دیا گیا ہے۔ عالمی ساہوکار کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن بہادر بیجانی نے پاکستانی وزیر خزانہ سے باقاعدہ رابطہ کرکے انتباہ کیا ہے کہ نیا قرضہ پروگرام آخری موقع ہے، حکومتِ پاکستان کو اعتماد کا بحران ختم کرنا ہو گا ورنہ آئندہ کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اعتماد کے بحران کا عالم یہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے سے قبل اپنی کڑی شرائط پر عمل کرنے پر مجبور کررہا ہے، چنانچہ معاہدے کے مطابق حکومت نے بجلی 4.96 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد بجلی کی بنیادی قیمت 24.82 روپے سے بڑھ کر 29.78 روپے فی یونٹ کردی گئی ہے، تاہم صارفین کو ٹیکسوں اور سلیبز کے سبب اوسطاً پچاس روپے فی یونٹ ادا کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی محض اس ایک شرط کو پورا کرنے سے عام آدمی کو کس قدر اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا اور ملکی صنعت پر اس کے کس قدر منفی اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ہم ذلت اور پستی کی کس سطح تک پہنچ چکے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بجلی مہنگی کرنے کی منظوری دینے کے بعد وزیراعظم محمد شہبازشریف نے ذاتی طور پر ایم ڈی، آئی ایم ایف کو ٹیلی فون کرکے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ معاہدے کی معمولی خلاف ورزی بھی نہیں کی جائے گی اور صرف یہی حکومت نہیں، اس کے بعد آنے والی نگران عبوری حکومت بھی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ اگرچہ قوم کو طفل تسلیاں دے رہے تھے کہ معاہدہ نہ ہوا تو بھی کوئی پروا نہیں، ہمارے پاس متبادل منصوبہ، پلان بی موجود ہے۔ مگر عملی حقیقت کیا تھی اس کی ایک جھلک وزیراعظم کی تقاریر میں دیکھی جا سکتی ہے، جو بار بار ’’دوست‘‘ ممالک کا شکریہ ادا کررہے ہیں کہ انہوں نے اس معاہدے تک پہنچنے میں تعاون کیا۔ حد تو یہ ہے کہ خود ’نادہندگی‘ کی کیفیت سے گزرنے والے سری لنکا کے صدر رانیل وکرما سنگھے کو بھی جناب وزیراعظم نے فون کرنا اور شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا ہے کہ انہوں نے دوست اور خیرخواہ کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاہدے تک پہنچنے میں تعاون کیا۔
عالمی ساہوکار سے سودی قرض کے تازہ معاہدے سے ملکی معیشت پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر اس کی توقع بہت کم ہے، کیونکہ پاکستان اب تک آئی ایم ایف سے بائیس پروگرام حاصل کرچکا ہے، مگر ان سے ملکی معیشت میں جس قدر بہتری آئی ہے وہ سب کے سامنے ہے، اور کیفیت ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ سے مختلف نہیں۔ یوں بھی پاکستان جیسی مملکتِ خداداد سودی قرضوں کے ذریعے کبھی ترقی نہیں کرسکتی، کہ خود خالقِ کائنات کا فیصلہ ہے کہ وہ سود کا مٹھ مارتا ہے۔ جب خالق نے حکم سنا دیا تو مخلوق مختلف نتائج کیوں کر حاصل کر سکتی ہے! بعض لوگ مغربی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ سودی نظام کے باوجود ترقی کررہے ہیں، ان لوگوں کو مصورِ پاکستان علامہ اقبال کی اس نصیحت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ:
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
پاکستانی حکمران اگر نیک نیتی، اخلاص اور سنجیدگی سے ملک کو معاشی بحران اور قرضوں کی مصیبت سے نجات دلانا چاہیں تو یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں، صرف شاعرِ مشرق، پیامبرِ انقلاب کی ہدایت ’’خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘ پر عمل کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اور رسولؐ سے جنگ پر مبنی سودی نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اور اب یہ کوئی خواب نہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں سود سے پاک بینکاری نظام نہایت کامیابی اور تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، ضرورت صرف عزم و ہمت اور استقامت سے اسے اختیار کرنے کی ہے۔ دوئم، ملک میں سادگی اور کفایت شعاری کو رائج کریں اور حکمران اپنی ذات سے آغاز کرکے عوام کے لیے قابلِ تقلید مثال بنیں، بدعنوانی کے قریب خود جائیں نہ کسی کو جانے دیں اور بدعنوان عناصر کو نشانِ عبرت بنانے کا سامان کریں، حکمران خاندان بیرونِ ملک بینکوں میں پڑے اپنے اربوں ڈالر پاکستان واپس لائیں، اس طرح بیرونِ ملک کی گئی کھربوں روپے کی سرمایہ کاری پاکستان منتقل کرلی جائے تو لاکھوں لوگوں کو روز گار، اور معیشت کو بے پناہ استحکام ملے گا۔ موجودہ و سابقہ حکمرانوں، وفاقی و صوبائی وزراء، ارکانِ مجلس شوریٰ، ججوں، جرنیلوں، سول و فوجی بیورو کریسی اور مختلف اداروں کے اہم مناصب پر موجود لوگوں کو سرکاری خزانے سے فراہم کی جانے والی شاہانہ مراعات ختم کی جائیں، پروٹوکول کلچر اور سیکورٹی پر اٹھنے والے اربوں روپے سالانہ کے اخراجات پر کٹوتی لگا کر انہیں زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک محدود کیا جائے۔ تمام اعلیٰ حکام کو فراہم کی گئی بڑی بڑی گاڑیاں واپس لے کر پیٹرول، بجلی، گیس اور ٹیلی فون وغیرہ کے بلوں اور عالی شان مکانات کے کرایوں اور دیگر مراعات کی ادائیگی قومی خزانے سے بند کرکے ان حکام کو بھی یہ سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کا پابند کیا جائے، جیسا کہ نچلے درجے کے کم تنخواہ یافتہ سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کرتے ہیں، اسی طرح ملک میں ارتکازِ دولت، ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، قمار بازی، سٹے اور جوئے جیسی معاشرتی لعنتوں پر قابو پانے کے لیے مؤثر و ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت، مہنگائی، بے روز گاری اور غربت جیسے مسائل سے نجات حاصل نہ کرسکے۔ مگر اس کے لیے اخلاصِ نیت، محنت و صلاحیت، امانت و دیانت، جذبۂ خدمت اور خوفِ خدا رکھنے والی قیادت شرطِ اوّل ہے، جب کہ موجودہ حکمران طبقے میں ان خوبیوں کا فقدان محتاجِ بیان نہیں۔(حامد ریاض ڈوگر)