اگر ہندوستان والے اپنے ریلوے اسٹیشنوں کو ’پھک پھک اڈّا‘ کہہ سکتے ہیں تو پاکستان والے اپنے ٹی وی اسٹیشنوں کو ’بک بک اڈّا‘ کیوں نہیں کہہ سکتے؟ کہہ سکتے ہیں نا؟ یہ بات ہے تو چلو یہ بھی کہہ کے دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے ایک بک بک اڈّے سے ایک تفریحی پروگرام نشر ہوتا ہے۔ اُس پروگرام میں تالُو چھوڑے، مسلسل بولنے والے، ایک مہابکُّو برخوردار نے پرسوں بروزِ بدھ ہمیں ایک صوتی پیغام بھیجا:
’’السلام علیکم۔کیسے ہیں بھائی؟ آپ سے ایک رہنمائی چاہیے۔کل مجھے راستے میں اپنی یونیورسٹی کے ایک اُستاد ملے۔ جلدی میں تھے۔ سلام دُعا کے بعد صرف اتنا کہا کہ ’برخوردار! ایک روز میں تمھارا پروگرام دیکھ رہا تھا، اُسی دن سے ذہن میں تھا کہ تم کو بتادوں بزرگ رشتوں کا اِمالہ جائز نہیں۔ بس یہ کہا اور چلے گئے۔ حضرت! میں کل سے اِسی اُلجھن میں اُلجھا ہوا ہوں کہ اِمالہ کیا ہوتا ہے؟ مختصراً بتا دیجیے‘‘۔
’’وعلیکم السلام۔ ہم تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں بھائی۔ مگر آپ کے اُستاد بہت اُستاد نکلے۔ ایسی اُستادی دکھائی کہ آپ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اُلجھن میں ڈال گئے۔ اُلجھیڑا یہ ہے کہ اِس سوال کا جواب آسان ہے نہ مختصر۔ ایسے میں ہم لسانیات کے اُستادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین صاحب کی دُوہائی نہ دیں تو اور کیا کریں؟‘‘
صاحب! اِمالہ کے لغوی معنی ہیں مائل کرنا، متوجہ کرنا، آمادہ کرنا، رغبت دلانا، میلان رکھنا یا جھکاؤ پیدا کرنا۔ مگر آپ کو جو معنی درکار ہیں وہ اس لفظ کے لغوی معنی نہیں، اصطلاحی معنی ہیں۔ اصطلاحاً ’اِمالہ‘ کے معنی ہیں فتحہ کا کسرہ کی طرف مائل کرنا۔ زبر کو خفیف سے (یعنی ہلکے سے) زیر کی طرف لے جانا۔ الف کو ’ے‘ سے بدلنا، وغیرہ وغیرہ۔ تفصیل اس اختصار کی طویل ہے۔ نہیں نمٹ سکتی ایک صفحے کے کالم میں۔
مختصراً یوں سمجھیے کہ کوئی ایسا اسم جس کے آخر میں الف آتا ہو، یا ’ہ‘، جب اُس اسم کے بعد حروفِ ربط ’نے، سے، پر، تک، کو، میں، کا، کے، کی‘ وغیرہ لگائے جاتے ہیں تو الف یا ’ہ‘ کو ’ے‘ سے بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک لڑکا ہے۔ اسے ترتیب سے تختہ مشق بناکر دیکھیے: ’لڑکے نے پوچھا‘۔ ’لڑکے سے کہو‘۔ ’لڑکے پر الزام نہ دھرو‘۔ ’لڑکے تک بات پہنچادو‘۔ ’لڑکے کو مٹھائی کھلاؤ‘۔ ’لڑکے میں کیا خرابی ہے؟‘ ’لڑکے کا دماغ درست نہیں‘۔ ’لڑکے کے والد کو بلاؤ‘۔ ’لڑکے کی ٹھکائی کردو‘ وغیرہ۔ اگر اوپر کے ہر جملے میں ہم ’لڑکا‘ ہی لکھتے رہتے تو پڑھ کر دیکھیے کیسا لگتا؟ ’لڑکا‘ کی جگہ ’لڑکے‘ لکھنا اور بولنا اصطلاحاً ’اِمالہ کرنا‘ہے۔ اب ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ امالہ کرنا کہاں کہاں ’ناجائز‘ ہے۔ کیوں کہ جہاں جہاں جائز ہے اُس کی فہرست طولانی ہے۔ پھر بھی باتوں باتوں میں اور کہیں کہیں ہم بتاتے رہیں گے کہ یہاں یہاں جائز ہے۔
عربی، فارسی اور ترکی کے جن الفاظ میں الفِ اصلی آتا ہے اُن میں امالہ جائز نہیں۔ مثلاً ہم دعا کو دُعے، مدعا کو مدعے، قضا کو قضے، جزا کو جزے یا پیدا کو پیدے، ہوا کو ہوے، آغا کو آغے اور مرزا کو مرزے کہہ کر نہیں پکاریں گے۔ جہاں اصلی الف نہیں آتا، الف مقصورہ ’یٰ‘ آتا ہے وہاں امالہ جائز ہے، خواہ اُردو میں املا بدل ہی کیوں نہ دیا گیا ہو۔ مثلاً آپ مصلیٰ لکھیں یا مصلّا دونوں صورتوں میں ’مصلّے‘ پر بیٹھ کر دعا کریں گے۔ کوئی ’دعویٰ‘ کریں تو اپنے ’دعوے‘ سے دست بردار بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر دل میں ’تقویٰ‘ نہیں پَر دکھاوا زوروں پر ہے توکہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت کو ’تقوے‘ کا لقوہ مار گیا ہے۔ مگر اعلیٰ اور ادنیٰ کا امالہ جائز نہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جدید تہذیب نے ہر ’اعلے‘ کو ’ادنے‘ میں بدل دیا ہے۔ عربی الفاظ کی جمع میں بھی امالہ جائز نہیں۔ یعنی اولیا، علما، اور شرفا وغیرہ کا امالہ کرنا بدتہذیبی ہوگی: ’’اولیے کرامت دکھاتے رہے، علمے وعظ کہتے رہے اور شرفے سر دھنتے رہے‘‘(سر کا کوئی تو مصرف ہونا چاہیے)۔ اُردوہندی کے مؤنث الفاظ کا، خصوصاً اُن الفاظ کا جن کی جمع نون غنہ لگا کر بنائی جاتی ہے، امالہ کرنا جائز نہیں جیسے گڑیا، پُڑیا، بُڑھیا، لُٹیا وغیرہ۔ اسی طرح شہروں کے ناموں کا امالہ بھی جائز نہیں، مگر یہ مسئلہ شدید اختلافی مسئلہ ہے۔ مثلاً مشہور ضرب المثل شعر میرتقی میرؔ کے دیوانِ چہارم میں اس طرح ہے:
مکے گیا، مدینے گیا، کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا
میرؔ صاحب نے مکہ کا اِمالہ کرکے مکے کردیا، مدینہ کا اِمالہ کرکے مدینے کردیا، مگر کربلا کا اِمالہ کرکے ’کربلے‘ نہیں کیا۔ حالاں کہ کربلا کے آخر میں الف ہے۔ اِمالہ کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے۔ کیا خبر کرنا چاہتے ہوں مگر ’قافیے‘کی مجبوری کے علاوہ بھی کوئی مجبوری حائل ہوگئی ہو۔ سنا ہے والد بہت سخت تھے۔ بہرحال، میر تقی کے بعد بھی بہت سے میرؔ آئے، ان میں میر انیسؔ بھی شامل ہیں، لیکن کربلا کا اِمالہ کرنے کی جرأت آج تک کوئی نہیں کرسکا۔ شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہو کہ شہروں کے ناموں کا امالہ جائز نہیں۔ مگر کیا کیجیے، لوگ یہ ناجائز کام بھی کر گزرے ہیں۔ غالبؔ نے البتہ اپنے مشہور ’قطعے‘ میں کلکتہ ہی لکھا ہے۔ پَر عادت سے مجبور یار لوگ اس کو بھی کلکتے پڑھ جاتے ہیں:
کلکتہ کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں
اِک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
اوپر ہم نے ’قطعے‘ لکھا ہے۔ چُقطّع مُقطّع لوگ کہتے ہیں کہ ’ع پر ختم ہونے والے الفاظ کا اِمالہ بھی جائز نہیں‘۔ مگرہم نے بڑے بڑوں کے ہاں ’برقعے، موقعے، مجمعے، مقطعے اورمطلعے‘ لکھا دیکھا۔ یہ بھی سنا کہ ’مصرعے میں سکتہ ہے‘۔ فصحا کہتے ہیں یہ بھی جائز ہے، مگر ع کی آواز نہیں نکلے گی۔ ’بُرقے، مجمے، مقطے اور مطلے‘ بولا جائے گا۔ مگر ’مطبعے‘ کہنا خود ہمارے جی کو نہیں بھاتا۔ ہم کسی کو بھی ’مت بے‘ نہیں کہہ سکتے۔
شہروں کے ناموں کا امالہ کرنے کی ممانعت کے باوجود اپنے اوکاڑے، سرگودھے، کوئٹے اور ڈسکے ہی کے باشندے نہیں، کلکتے، پٹنے، آگرے اور پونے کے باسی بھی اپنے اپنے شہروں کا امالہ کر بیٹھے ہیں۔ کرکے پچھتائے بھی نہیں کہ اب پچھتائے کا ہووَت؟
1965ء کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے شاعر، ’صاحبِ سیف وقلم‘ ماسٹر وارنٹ آفیسر رحمٰن کیانی مرحوم نے جنگ کے سُورما، اِسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم مرحوم کے شہر کی بابت کہا تھا:
جب بھی کوئی اِس جنگ کی تاریخ لکھے گا
سرگودھا! ترے نام سے آغاز کرے گا
لکّھے گا کہ یہ شہر دلیروں کا ہے مسکن
شاہیں کا بسیرا ہے، عقابوں کا نشیمن
اگر کیانی مرحوم زندہ ہوتے اور عقابوں کے نشیمن کا ’سرگودھے!‘ کہہ کہہ کر پکارا جانا سنتے توع قابوں کا یا اپنا ہی سر پیٹ کر رہ جاتے۔
اب آئیے اپنے اُستادِ محترم کے اس قول کی طرف کہ ’’بزرگ رشتوں کا امالہ جائز نہیں‘‘۔ اُردو میں دادا، نانا، بابا، ابا، تایا، چچا، ماما، پھوپھا، بھیا اور آپا جیسے بزرگ رشتوں کا احتراماً اِمالہ نہیں کیا جاتا۔ ہاں! پنجابی زبان میں بزرگوں کے ساتھ یہ سلوک بھی رَوا ہے۔ اُردو بولنے والوں میں سے دبستانِ بریلی کے اہلِ زبان کو البتہ ہم نے ’بھیا‘ کی گت یا دُرگت بناتے، دیکھاہی نہیںبھگتا بھی ہے کہ ’’بھیّے!ذرا ہنسی کی کوئی بات کہیے‘‘۔لیکن اُردو ہو یا پنجابی، خُرد رشتوں کے ساتھ دونوں زبانوں میں خوب خوب امالہ کیا جاتا ہے۔ اِن رشتوں میںبیٹا، بھتیجا، بھانجا،پوتا، نواسا، لڑکا اور لونڈاسب شامل ہیں۔ ابھی تو صاحب بہت کچھ باقی رہ گیاہے، مگرفی الحال اتنے ہی اِمالے کو بہت جانیے۔