جھونپڑی سے شاہی محل تک

بیسویں صدی عیسوی کے شروع میں ظفر الدین شاہ قاچار ایران کا بادشاہ تھا۔ ایک دن بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا۔ تمام وزیر اور امیر اپنی اپنی جگہ کھڑے تھے اور حاجت مند اپنی اپنی عرضیاں بادشاہ کی خدمت میں پیش کررہے تھے۔ یہ دربارِ عام کا دن تھا، جس میں بادشاہ نے ہر شخص کو دربار میں آکر اپنی فریاد پیش کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ فریادی پر واقعی ظلم ہورہا ہے تو بادشاہ ظالم کو سزا اور فریادی کو اس کا حق دلواتا تھا۔

اچانک ایک برقع پوش خاتون دربار میں داخل ہوئی اور ایک عرضی بادشاہ کی خدمت میں پیش کی۔ یہ عرضی اتنی خوش خط لکھی ہوئی تھی کہ اس کو دیکھ کر آنکھوں میں روشنی آجاتی۔ خوش خط ہونے کے ساتھ اس عرضی کی عبارت اتنی عمدہ تھی کہ فوراً دل پر اثر کرتی۔ عبارت کا مضمون یہ تھا:

’’بادشاہ سلامت! اللہ آپ کا اقبال بلند کرے۔ میں ایک غریب اور لاچار لڑکی ہوں۔ دنیا میں میرا کوئی سہارا نہیں۔ کئی سال ہوئے میرے محلے کے ایک نوجوان سے میری منگنی ہوگئی تھی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ کچھ عرصے بعد وہ مجھ سے شادی کرلے گا، اسی امید پر میں نے دوسرے لوگوں کی طرف سے آنے والے پیغام نامنظور کردیے۔ جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو اس نوجوان نے میرے ساتھ شادی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے کبھی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا۔

جناب عالی! میں ادب کے ساتھ درخواست کرتی ہوں کہ اس شخص کو بلا کر مجبور کریں کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق میرے ساتھ شادی کرے ورنہ میری زندگی تباہ ہوجائے گی‘‘۔

یہ عرضی پڑھ کر بادشاہ حیران بھی ہوا اور اس کو ہنسی بھی آئی، کیوں کہ اس سے پہلے کسی لڑکی کی طرف سے ایسی عجیب عرضی اس کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ اس نے خاتون سے پوچھا ’’بی بی! وہ شخص تمہارے ساتھ شادی نہ کرنے کی کیا وجہ بتاتا ہے؟‘‘

لڑکی نے کہا ’’جناب! وجہ کیا پیش کرے گا، وہ تو یہ مانتا ہی نہیں کہ اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا‘‘۔

بادشاہ بولا ’’اس کا نام کیا ہے اور وہ کہاں رہتا ہے؟‘‘

لڑکی نے کہا ’’اس کا نام نصیر الدین ہے اور وہ دستکاروں کے محلے میں رہتا ہے‘‘۔

بادشاہ نے خیال کیا کہ شاید یہ لڑکی بدصورت ہوگی اسی لیے نصیرالدین نے اس کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس نے لڑکی سے کہا ’’بی بی! تمہارے ساتھ پورا انصاف ہوگا لیکن کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بار تمہارا چہرہ دیکھ لوں‘‘۔

پھر اس نے اپنے وزیروں اور دوسرے درباریوں سے کہا کہ وہ ذرا ایک طرف ہوجائیں تاکہ کسی اور کی نظر لڑکی کے چہرے پر نہ پڑے۔ وہ سب ایک طرف ہوگئے تو لڑکی نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھادیا۔ اس کو دیکھ کر بادشاہ ہکا بکا رہ گیا۔ لڑکی بے حد خوبصورت تھی اور اس کی بھولی بھالی صورت سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ دکھی ہے۔

بادشاہ نے لڑکی سے کہا ’’اب اپنا نقاب چہرے پر ڈال لو، میں تمہیں ابھی بلواتا ہوں اور اس معاملے کی تحقیق کرتا ہوں۔ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ وہ واقعی اپنے وعدے سے پھر گیا ہے تو اسے اپنا وعدہ پورا کرنے پر مجبور کیا جائے گا‘‘۔

لڑکی نے عرض کی ’’حضور! وہ بہت چالاک ہے، اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں بنائے گا، مجھے امید ہے کہ آپ پوری تحقیق کیے بغیر اس کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے‘‘۔

بادشاہ نے لڑکی کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ تمہارے ساتھ پورا انصاف ہوگا۔

پھر بادشاہ نے چار سپاہیوں کو حکم دیا کہ فوراً جائو اور فلاں محلے سے نصیرالدین کو اپنے ساتھ لاکر میرے سامنے پیش کرو۔

سپاہی تھوڑی دیر بعد نصیر الدین کو اپنے ساتھ لے آئے اور اسے بادشاہ کے سامنے پیش کردیا۔ بادشاہ نے نصیرالدین سے مخاطب ہوکر کہا ’’ہم نے سنا ہے تم نے اس لڑکی سے نکاح کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب تم اپنے وعدے سے پھر گئے ہو۔ اگر یہ سچ ہے تو تمہیں اسی وقت ہمارے سامنے لڑکی سے نکاح کرنا ہوگا۔‘‘

اس خاتون نے پھر اپنے چہرے سے نقاب اٹھادیا اور نصیرالدین کی طرف دیکھنے لگی۔ جب نصیرالدین نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو فوراً بولا ’’حضور! کیسا وعدہ اور کیسا نکاح؟ اس لڑکی سے میرا نکاح نہیں ہوسکتا‘‘۔

بادشاہ نے کڑک کر پوچھا ’’کیوں؟‘‘

نصیرالدین نے کہا ’’حضور! یہ لڑکی تو میری سگی بہن ہے، اس سے میرا نکاح کیسے ہوسکتا ہے!‘‘

بادشاہ بولا ’’تم نہایت مکار آدمی ہو۔ تمہیں میرے سامنے بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہیں آتی!‘‘

نصیر الدین نے کہا ’’حضور! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ میری ماں جائی بہن ہے۔ جس محلے میں ہم دونوں ایک ہی گھر میں پلے بڑھے وہاں کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں۔ آپ حکم دیں تو میں ابھی اپنے بزرگ رشتے داروں کو بلا لاتا ہوں، اگر وہ یہ گواہی دیں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں تو حضور جو سخت سزا چاہیں مجھے دیں‘‘۔

بادشاہ نے کہا ’’ٹھیک ہے تم ابھی جاکر گواہوں کو اپنے ساتھ لائو اور میرے سامنے پیش کرو‘‘۔

کچھ دیر بعد نصیرالدین لمبی داڑھیوں والے دو بوڑھوں کو اپنے ساتھ لے آیا اور بادشاہ کی خدمت میں عرض کی ’’حضور! یہ دونوں بزرگ ہمارے بہت قریبی رشتے دار ہیں۔ ان دونوں سے آپ قسم دے کر پوچھ لیں کہ یہ لڑکی میری سگی بہن ہے یا نہیں‘‘۔

بادشاہ نے دونوں بوڑھوں سے کہا ’’تم دونوں قسم کھا کر بیان دو کہ یہ لڑکی نصیرالدین کی سگی بہن ہے یا نصیرالدین جھوٹ بول رہا ہے‘‘۔

دونوں بوڑھوں نے باری باری قسم کھا کر بیان دیا کہ یہ لڑکی واقعی نصیرالدین کی سگی بہن اور ان کی قریبی رشتے دار ہے۔

لڑکی جو اب تک خاموش کھڑی تھی، بوڑھوں کا بیان ختم ہوتے ہی آگے بڑھی اور بڑے جوش کے ساتھ کہنے لگی ’’بادشاہ سلامت! نصیرالدین اور یہ دونوں بوڑھے سچے ہیں۔ میں واقعی نصیرالدین کی سگی بہن ہوں لیکن پچھلے دو برسوں میں مجھ پر جو کچھ بیتی وہ بھی سن لیں۔ کوئی دو سال پہلے ہمارے ماں باپ فوت ہوگئے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد میرے بھائی نصیرالدین نے ماں باپ کی چھوڑی ہوئی تمام دولت، جائداد اور مکان پر قبضہ کرلیا۔ جب میں نے اس سے اپنا حق مانگا تو بے رحم بھائی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اس کے بعد سے آج تک میں کرائے کے ایک معمولی مکان میں رہ رہی ہوں۔ یہ مکان کیا ہے ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہے جس میں لوگوں کے کپڑے سی کر اور چکی پیس کر میں بڑی مشکل سے گزارا کررہی ہوں۔ جب کام نہ ملے تو مجھے فاقے بھی کرنے پڑتے ہیں۔ میرے ماں باپ امیر لوگ تھے اور انہیں مجھ سے بڑی محبت تھی۔ انہوں نے مجھے بڑے لاڈ پیار سے پالا، اور میں نے جو مصیبتیں جھیلی ہیں وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے قاضی کی عدالت میں اپنے حق کا دعویٰ کیا۔ اسی نصیرالدین نے جو حضور کے سامنے مجھے اپنی سگی بہن مان رہا ہے قاضی کی عدالت میں قسم کھا کر بیان دیا تھا کہ میں ہرگز اس کی بہن نہیں ہوں اور وہ مجھے جانتا تک نہیں۔ یہی دونوں بوڑھے جو آج قسم کھا کر کہہ رہے ہیں کہ میں نصیرالدین کی سگی بہن ہوں قاضی کی عدالت میں قسم کھاکر یہ کہہ چکے ہیں کہ میں نصیرالدین کی بہن نہیں ہوں اور میرا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ان تینوں کے بیانات اور دستخط قاضی کے رجسٹر میں موجود ہیں، حضور منگواکر دیکھ لیں۔ جب یہ تینوں حضور کے سامنے مان چکے ہیں کہ میں نصیرالدین کی سگی بہن ہوں تو میری درخواست ہے کہ حضور میرے ماں باپ کی جائداد اور مال سے میرا حصہ دلوادیں تاکہ میں اپنی زندگی عزت اور آرام کے ساتھ گزار سکوں‘‘۔

خاتون کی باتیں سن کر بادشاہ اور دربار میں موجود لوگ حیران رہ گئے۔ بادشاہ نے گرج کر نصیرالدین سے پوچھا ’’کیوں نصیرالدین جو کچھ تیری بہن نے بیان کیا وہ سچ ہے؟‘‘

نصیر الدین کا ڈر کے مارے برا حال تھا، اس نے کانپتے ہوئے کہا ’’حضور! میری بہن سچی ہے، میں نے واقعی اس پر بہت ظلم کیا اور اس پر میں بہت شرمندہ ہوں۔ یہ مجھ سے اسی وقت اپنا حق لے سکتی ہے۔ اللہ کے لیے مجھے معاف فرمادیں‘‘۔

بادشاہ نے کہا ’’ہرگز نہیں، تمہیں اپنے کیے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ میں حکم دیتا ہوں کہ تمہیں گرفتار کرکے قید خانے میں ڈال دیا جائے اور تمہاری تمام جائداد تم سے لے کر تمہاری بہن کو دے دی جائے‘‘۔

اس کے بعد بادشاہ نے دونوں بوڑھوں سے مخاطب ہوکر کہا ’’او بدبختو! تمہیں قاضی کی عدالت میں جھوٹی گواہی دیتے ہوئے شرم نہیں آئی؟ تم قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہوں۔ تمہیں تو چاہیے تھا کہ اللہ سے ڈرتے اور نصیرالدین کو اپنی بہن پر ظلم کرنے سے روکتے، مگر تم نے الٹا ایک یتیم لڑکی کو دکھ دیا۔ اب جھوٹی گواہی دینے کی سزا بھگتو۔ میں حکم دیتا ہوں کہ تمہیں دو سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے‘‘۔

اس کے بعد بادشاہ نے لڑکی سے مخاطب ہوکر کہا ’’تم نے اپنا مقدمہ جس لیاقت اور ذہانت سے لڑا ہے وہ تعریف کے لائق ہے، اب بتائو کہ اپنی عرضی تم نے کس شخص سے لکھوائی تھی؟‘‘

پھر بادشاہ نے اس سے کچھ اور سوال کیے جن کے جواب اس نے ایسے اچھے طریقے سے دیے کہ وہ حیران رہ گیا۔ اسے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ لڑکی بہت پڑھی لکھی ہے اور کئی ہنر بھی جانتی ہے۔ اب بادشاہ نے اس سے کہا ’’بی بی! ہمارے خیال میں تم ایران کی ملکہ بننے کے لائق ہو۔ اگر تم یہ بات منظور کرو تو ہم اگلا قدم اٹھائیں گے۔ لڑکی نے شرما کر اپنی گردن جھکالی اور کہا ’’حضور میں التجا کرتی ہوں کہ میرے بھائی اور ان بوڑھوں کو رہا کردیں۔ میں ان کو معاف کرتی ہوں۔ ساری جائداد بھی بھائی کو مبارک، میں اپنا حصہ نہیں لیتی۔‘‘

بادشاہ نے ان کو رہا کردیا اور پھر کچھ دن بعد اس لڑکی سے شادی کرلی۔ اس طرح ایک غریب لڑکی اپنی لیاقت کی بدولت جھونپڑی سے شاہی محل میں پہنچ گئی۔