قرضوں کا معاہدہ عارضی انتظام ہے
کیا پاکستان ڈیفالٹ کررہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ریاستی ڈیفالٹ ہوتا کیا ہے؟ اور عام آدمی پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ بالکل سادہ سا جواب دیا جائے تو ریاستی ڈیفالٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب ایک قرض دار ملک قرضوں کی قسط اور اُس کا سود بروقت ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور یہ کہہ دے کہ ریاست قرضے واپس نہیں کرسکتی تو یہ ریاستی نادہندگی (Sovereign Default)ہے۔ ریاستی نادہندگی کے نتیجے میں ناہندہ ملک دوسرے ملکوں سے کوئی چیز یا خام مال منگوا نہیں سکتا، کیونکہ اُس کے پاس غیر ملکی زرِمبادلہ یا ڈالرز موجود نہیں ہوتے۔ اس وقت پاکستان کے اندر بننے والی 40 فیصد مصنوعات کا خام مال باہر سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اب اگر زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے خام مال نہیں آئے گا توملکی مصنوعات تیار ہونا بند ہوجائیں گی، اور یوں ملکی مصنوعات برآمد نہ ہوسکیں گی۔
پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا تقریباً 60 فیصد انحصار تیل پر ہے۔ ہم سب سے زیادہ پیٹرول یعنی تیل درآمد کرتے ہیں۔ اگر تیل سے بننے والی بجلی کی پیداوار میں خلل پڑے تو بجلی کی قلت پیدا ہوجائے گی جس سے ٹرانسپورٹ متاثر ہوگی، ہوائی جہازوں اور برّی فوج کی نقل و حمل پر فرق پڑے گا، ٹیوب ویل نہیں چلیں گے تو زرعی زمینیں سیراب نہ ہوں گی۔ ڈیفالٹ کی صورت میں کھاد اور کیڑے مار ادویہ درآمد نہیں ہوں گی تو زراعت پر برا اثر پڑے گا۔ گندم کی پیداوار جو پہلے ہی ناکافی ہے، مزیدکم ہوجائے گی۔ ادویہ کا خام مال درآمد ہونا بند ہوگا تو عام آدمی کو زندگی بچانے کے لیے دوائیں میسرنہیں ہوں گی۔ گھروں، فیکٹریوں اور اسپتالوں میں بجلی نہیں ہوگی تو نظام زندگی درہم برہم ہوجائے گا اور ملک میں اشیا ئے ضروریہ کی شدید قلت ہوجائے گی۔
ڈیفالٹ کی ایک خطرناک صورت افراطِ زر ہے جس سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور مارکیٹ میں چیزیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہوجائے گی۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثرعام آدمی پر پڑتا ہے کیونکہ ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ جب امریکی ڈالر اوپر اور پاکستانی روپیہ نیچے جاتا ہے تو حکومت کے خزانے پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ادائیگیوں کا توازن بگڑ جاتا ہے یعنی تجارتی خسارہ بڑھ جاتاہے۔ درآمدات کی ادائیگیاں زیادہ اور برآمدات کی کم ہوجاتی ہے۔ ڈالر کی مانگ زیادہ اور سپلائی کم ہونے سے موقع پرست سٹے باز کاروباری زیادہ سے زیادہ ڈالر خریدنا شروع کردیتے ہیں۔ جب ضرورت سے زیادہ لوگ ڈالر خریدیں گے تو لامحالہ ڈالر کی مانگ اور قیمت بڑھ جائے گی۔ فوریکس مارکیٹ میں کرنسی ٹریڈرز بھی ہوتے ہیں جن کا فائدہ ہی اس میں ہے کہ سستے ڈالر خرید کر مہنگے داموں فروخت کریں۔
ڈیفالٹ کی ایک بڑی وجہ قرضوں کی واپسی نہ کر پانا بھی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکمران عالمی اداروں سے مطالبہ کریں کہ سیلاب اور دیگر مسائل کی وجہ سے واجب الادا قرضہ ساقط کردیں یا کم از کم اس کی ادائیگی مؤخر کردی جائے۔ اسے ایک معنی میں بیل آؤٹ کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے مدد مل جائے تو ڈیفالٹ کا خطرہ دو تین سال کے لیے ٹل جائے گا اور وہ اس دوران کچھ بہتر اقدامات کرلیں گے۔
اگرچہ پاکستان کے ریاستی ڈیفالٹ کا فوری خطرہ نہیں ہے لیکن قرضہ اتنا زیادہ ہے کہ پاکستان اپنی آمدن کی بنیاد پر قرض واپس کرنے کے قابل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال قرضوں کی قسطوں اور سو د کی ادائیگی حکومت خود اپنے وسائل سے نہیں کرپاتی۔ اس کے لیے بھی اسے نئے اور مہنگے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ قرض پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کا ایک طریقہ بن چکا ہے۔ اگر ہم گزشتہ 20 سال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملک میں نئے قرضے اور مالی امداد (گرانٹس) اتنی نہیں آئی جتنی رقم قرض کی قسطوں اور اس پرسود کی ادائیگی کی شکل میں پاکستان سے باہر منتقل ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرضہ دینے والے ملکوں نے پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسا لیا ہے۔ وہ پاکستان کو قرض دے کر بھاری منافع بھی کماتے ہیں اور قوم کوغلام بھی بناتے ہیں۔ ماضی کے نوآبادیاتی نظام میں وسائل لوٹنے کے دوسرے طریقے ہوتے تھے لیکن نئے نوآبادیاتی نظام کا طریقہ یہ ہے کہ قرضوں کے ذریعے غریب ممالک کے وسائل لوٹے جائیں۔ ایسے میں کوئی ملک کیسے زندہ رہ سکتا ہے اگر اُس کا خون چوسا جارہا ہو!
پاکستان کو جولائی 2023ء سے شروع ہونے والے مالی سال میں تقریباً 23 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے، جبکہ اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں صرف 4 بلین ڈالر موجود ہیں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ قرض لینے سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قرض سے نجات حاصل کی جائے۔ لیکن ایسا تب ہوگا جب ایک مضبوط اصلاح پسند حکومت نظامِ معیشت میں جوہری اور ساختی تبدیلیاں (Substantial & Structural Transformation) لانے کے لیے پُرعزم ہو۔ پاکستان کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کیوں نا ہم ایک ہی مرتبہ کڑوا گھونٹ پی لیں اور قرضوں کے حصول میں دوڑ دھوپ کے بجائے ملکی وسائل اور افرادی قوت و صلاحیت کا استعمال کریں۔ جماعت اسلامی کے سوا کوئی سیاسی جماعت آئی ایم ایف اور سودی قرضوں کی معیشت کی شدومد کے ساتھ مخالفت نہیں کرتی اور نہ ہی یہ داعیہ رکھتی ہے کہ خودانحصاری، کفایت شعاری، بہتر گورننس اور انسانی و قومی وسائل کا بہتر استعمال کرکے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے لیے موقع پیدا ہوگیا تھا کہ آئی ایم ایف اور قرضوں کی معیشت کو خدا حافظ کہہ دے اور خطے میں روس، چین، سعودی عرب اور ایران کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے فائدہ اٹھائے۔ مگر 22 جون 2023ء کو وزیراعظم شہبازشریف کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پاکستان میں امریکی سفیر سے ملاقاتوں نے پاکستان پر آئی ایم ایف کے شکنجے کو مزید سخت کردیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں 24 جون 2023ء کی تقریر میں اعلان کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط من وعن مان لی گئی ہیں اور نئے مالی سال 2023-24ء کے بجٹ میں آئی ایم ایف کے دباؤ پر تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ لہٰذا وفاقی حکومت اگلے مالی سال میں 215 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کے علاوہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کررہی ہے اور تنخواہ دار طبقے پر مزید 2.5 فیصد انکم ٹیکس لگا رہی ہے۔ یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نئے مالی سال کی بجٹ تقریر میں پہلے ہی 223 ارب روپے کے ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سالانہ بجٹ منظور ہونے سے پہلے منی بجٹ دے دیا گیا ہے۔ حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط پر 2.1 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کا معاہدہ ایک عارضی انتظام ہوسکتا ہے، لیکن معاشی بحران سے مستقل نجات اُسی وقت ممکن ہے جب پاکستان میں نئے عام انتخابات کے بعد تازہ عوامی مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت معنی خیز اور دوررس معاشی فیصلے کرے اور سودی قرضوں اور سودی نظام معیشت کو ترک کردے۔