کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنہنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر بروز پیر 26 جون 2023ء کو معروف کالم نگار اور دانش ور رفیعہ ملاح نے اپنے زیر نظر کالم میں سندھ کے حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں درپیش جس سنگین اور اہم ترین مسئلے کی جانب حکومتِ سندھ اور ہماری جو توجہ مبذول کروائی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’اگرچہ ہمارے معاشرے میں خودکشی ایک عام رواجی اور روایتی عمل ہوگیا ہے، لیکن ترقی یافتہ ممالک میں خودکشی کو سماجی بے حسی کی انتہا گردانا جاتا ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی فرد اپنی زندگی کا خاتمہ صرف اسی صورت میں کرتا ہے جب اسے کہیں سے بھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی، ایسے میں وہ احساسِ بے بسی کی ہر حد عبور کرلینے کے بعد موت کو گلے لگاکر اور زندگی کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے کے بعد خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ کچھ عرصے سے خودکشی کے افسوس ناک واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان کے بھارت سے لگنے والے آخری سرحدی ضلع تھرپارکر سے لے کر سندھ بھر میں شاید ہی کوئی شہر ایسا ہوگا جہاں پر جواں سال مرد و خواتین نے اپنے آپ کو موت کے حوالے نہ کیا ہو۔ ایک سروے کے مطابق خودکشی کرنے والے افراد کی اکثریت کی عمر 18 سے 48 برس کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ وہ عمر ہے جس میں لوگ اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے کیا کرتے ہیں۔ روزگار سے لے کر ازدواجی زندگی بسر کرنے تک کے تمام فیصلے اسی عمر میں ہوتے ہیں، اور اسی عمر میں جب حوصلے اور امنگیں بھی جوان اور توانا ہوتی ہیں اگر مایوسی دامن گیر ہوجاتی ہے تو پھر ایسے میں یہ لوگ موت کی وادی کا رخ کرلیتے ہیں اور اپنی زندگی کی شمع ازخود ہی عالمِ یاس اور ناامیدی میں گل کردیتے ہیں۔ ایسی الم ناک موت کو گلے لگانے والے تو اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن اپنے لواحقین کو ہمیشہ کے لیے ایک ایسا گھائو اور داغِ جدائی دے جاتے ہیں کہ نہ صرف ان کی ساری زندگی دکھوں اور تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے گزرتی ہے بلکہ ان خودکشی کرنے والوں کے بارے میں ان کے پسماندگان اور ورثا سے اَن گنت ایسے سوالات بھی کیے جاتے ہیں جن کے جوابات اور وضاحتوں سے بھی ان کی روح تک مجروح سی ہونے لگتی ہے۔ درحقیقت ایسے سارے واقعات کا ذمہ دار یہ معاشرہ اور ہمارے سماجی رویّے ہیں۔ چند روز پہلے ہمارے آبائی گوٹھ سیتا کے باشندے ایک نوجوان نے اپنی زندگی کا خود ہی خاتمہ کرلیا، جس کے بارے میں بعدازاں بتایا گیا کہ اس کی ایک اچھی ملازمت بھی تھی اور اس کی شخصیت بھی بہترین تھی، لیکن اس نے کسی نامعلوم سبب سے اس خوب صورت زندگی کا خاتمہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے کردیا۔
میں گزشتہ بہت عرصے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی یہ ملاحظہ کررہی ہوں کہ روزانہ ہی کہیں نہ کہیں سے ضرور کسی نہ کسی کی خودکشی کے واقعے کی رپورٹنگ ہوتی ہے جو میرے دل کو بے حد غم زدہ اور اداس کردیتی ہے۔ انہی الم ناک، دل دہلا دینے والے واقعات کی وجہ سے میں اپنا یہ زیر نظر آرٹیکل لکھ رہی ہوں۔ یقیناً خودکشی کے واقعات ایک ذہنی بیماری کو ظاہر کرتے ہیں، اس بارے میں زیادہ تفصیل تو بہتر طور سے نفسیاتی ماہرین ہی بتاسکتے ہیں، تاہم میرے اس آرٹیکل کا مقصد اور مطلب ایسے واقعات کے سلسلے میں احساسات کو اجاگر کرنا اور بعض تجاویز دینا ہے تاکہ اپنے پیاروں کو خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے پیشتر ہی روکا جاسکے، نیز ان کی زندگی کی الجھی ہوئی گتھی کو سلجھانے کی سعی بھی کی جاسکے۔ میں نے ایک رپورٹ پڑھی ہے جس کے مطابق عرصۂ سات برس میں ضلع تھرپارکر میں 7 ایسے جوڑوں نے اجتماعی خودکشی کی ہے جن کا آپس میں باہمی تعلق محبت کا تھا۔ ہفتۂ رفتہ 20 برس کی دوشیزہ پشپا بھیل اور اُسی کی برادری کے ایک نوجوان نے اجتماعی طور پر پھانسی کے پھندے پر جھول کر خودکشی کی ہے۔ یہ الم ناک خبر پڑھتے ہی سچ مچ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں بہت زیادہ پریشان بھی ہوگئی۔ مختلف دوستوں سے دورانِ گفتگو اس موضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس نوع کی خودکشیوں کے مختلف اسباب اور عوامل سامنے آئے ہیں، جن میں قرض لینا اور پھر اس قرض کی واپسی میں درپیش مسائل، لڑکیوں کو ان کی شادی میں درپیش رکاوٹیں، سماجی رویّے اور رسم و رواج کے بچھائے گئے فرسودہ جال، نیز دوسرے بہت سارے اسباب اور وجوہات بھی شامل ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ کوئی بھی انسان خودکشی انتہائی مجبوری کی وجہ سے اور اپنا ہر راستہ بند ہوتا ہوا دیکھ کر ہی کرتا ہے۔ کوئی بھی فرد خودکشی کرنے کا شوق نہیں رکھتا بلکہ اس کے حالات اسے ایک ایسے موڑ پر لاکر کھڑا کردیتے ہیں جس کی بنا پر وہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ خودکشی کے آئے دن پیش آنے والے واقعات کی روک تھام کرنے کی خاطر اب سنجیدگی کی ضرورت ہے تاکہ ایسے المیوں سے بچا جاسکے۔ میری رائے میں اس حوالے سے اگر ہم بحیثیت فرد اور اجتماعی طور پر ہمت کریں اور تمام تر ضروری مساعی کو بروئے کار لائیں، تو یقینا مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور لوگ غیر فطری موت کے راستے پر گامزن ہونے سے بچ جائیں گے۔ خودکشی کے الم ناک واقعات کی وجوہات ڈھونڈنے کے لیے حقوقِ انسانی کمیشن سے لے کر حکومتِ سندھ کے اداروں تک کو یعنی سبھی کو فیکٹ فائنڈنگ کرنی چاہیے اور اس کی روشنی میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات تیار کی جانی چاہئیں۔ ہم خود بھی اپنے طور پر انفرادی حیثیت سے اپنی اپنی ذمہ داری کا تعین کریں۔ اپنی روزمرہ زندگی کا بہ غور جائزہ لیں اور پھر کچھ دائرے تشکیل دے دیں۔ اپنے آس پاس یعنی گھر کے اندر، اہلِ محلہ، دفتر اور ساتھ کام کرنے والوں سے دوستی کے تعلقات میں شامل لوگوں کی نفسیاتی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیتے رہیں۔ ان سے بات چیت کے دوران اگر ہم انہیں مایوسی کا شکار دیکھیں تو وقت نکال کر ان سے ان کا حالِ دل اور روداد سنیں اور موقع کی مناسبت سے ان کی کائونسلنگ کریں۔ اگر کوئی ناامیدی میں مبتلا ہو تو فوری طور پر اس کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اسے مایوسی سے نکالنے کی کوشش کریں، نہ صرف یہ بلکہ اس کی استطاعت کے مطابق اخلاقی اور معاشی مدد بھی کریں۔ اس دوران متاثرہ فرد کی نفسیاتی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ نفسیاتی بیماریوں کے کسی ماہر ڈاکٹر سے بھی رجوع کریں۔ اس عزیز یا رشتے دار کو تنہا نہ چھوڑیں، یا پھر اس کی رازداری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کے اہلِ خانہ سے رابطہ کرکے انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے ساری حقیقی صورتِ حال کے بارے میں آگہی فراہم کریں۔ مایوس، پریشان اور ڈپریشن میں مبتلا افراد کو طنز یا مذاق کا نشانہ بنانے سے گریز کریں، اور انہیں تسلی دیتے ہوئے یقین دلائیں کہ ہم ان کے ہم راز اور مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں حکومتِ سندھ کو چاہیے کہ خودکشیوں کے واقعات کے بارے میں کرمنالوجی کے ماہرین کو ان کے جائزے کے لیے مقرر کرے اور ان کا سماجی اور معاشی جائزہ لے کر ان رپورٹس کی روشنی میں ایک آگاہی مہم چلائی جائے۔ باقی، خودکشیوں کے واقعات کے اسباب ظاہری طور پر سب کے سامنے ہیں اور خودکشی کے واقعات سے لے کر خودکشی تک پہنچانے کے عمل اور اسے روکنے میں کردار ادا کرنے کے لیے طبی نقطہ نظر سے ایک مکمل اسٹڈی کی اشد ضرورت ہے، اور پھر اس اسٹڈی ہی کی بنیاد پر میٹرک یا انٹر کے نصاب میں اس کیفیت اور حالت کی صورت میں ضروری اقدامات کرنے کے بارے میں بھی اسباق شامل کیے جائیں تاکہ خودکشی جیسے آئے دن پیش آنے والے واقعات پر قابو پایا جاسکے اور کوئی بھی مایوس یا ناامید فرد خودکشی جیسا انتہائی قدم نہ اٹھاسکے۔ کیوں کہ دراصل کسی بھی فرد کی خودکشی ایک پورے خاندان کی خودکشی کے برابر ہے، اور کسی بھی ایک شخص کو خودکشی سے بچانا درحقیقت پورے معاشرے کو خودکشی سے بچانے کے مترادف ہے۔