انتخابات کے انعقاد پر شکوک وشبہات کے سائے

دبئی میں نواز شریف اور آصف زرداری ملاقات کا ایجنڈا طویل مدت کے لئے عبوری حکومت کی تشکیل ہے

پاکستان کی سیاست سلجھنے کے بجائے الجھتی جارہی ہے۔ تمام سیاسی فریق اور اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے سیاسی کارڈ مختلف حکمت عملیوں کے تحت کھیل رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنا سیاسی دربار سجائے ہوئے ہے اور اپنی مرضی اورمنشا کے مطابق نتائج چاہتا ہے۔ آئین اورقانون کی حکمرانی یا شفافیت پر مبنی سوالات اب ہماری سیاست میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں،کیونکہ جب قومی سطح پر کسی اصول، نظریے، سیاسی و جمہوری اخلاقیات اور آئینی و قانونی نکات سے ہٹ کر محض طاقت کی بنیاد پر سیاست کی جائے تو اس کے نتیجے میں انتشار پیدا ہونا فطری امر ہوتا ہے۔ ہماری قومی سیاست بھی اسی کھیل میں الجھی ہوئی ہے اور تمام سیاسی پنڈت اپنی اپنی خواہش یا خبر کے مطابق قومی سیاست کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ انتخابات کی بازگشت بھی اس سیاسی ماحول میں سنی جارہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ملک کے معاملات انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں، تو دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ حالات ایسے نہیں کہ ملک انتخابات کا متحمل ہوسکے۔ پیپلزپارٹی بروقت انتخابات کی حامی ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی مارچ 2024ء میں انتخابات چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کو کہنا پڑا ہے کہ انتخابات اُسی وقت ہوں گے جب وہ چاہیں گے۔ ایک طرف شریف خاندان ہے تو دوسری طرف آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن۔ سب کی نظریں اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہیں اور وہ اُسی کی طاقت کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں اپنا سیاسی حصہ چاہتے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ بھی موجودہ حالات میں سیاست دانوں کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ سے براہِ راست مذاکرات کے حامی ہیں۔کیوں کہ ان کے بقول اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی ہے اور اسی سے بات کرکے آگے کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاست دانوں کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کی گرفت پورے ماحول پر ہے اور سب کی نظریں بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کی طرف ہیں کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے اورکس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا کس کی حمایت کرتی ہے۔دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ترجمان کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس میں دو ٹوک انداز میں کہاگیا ہے کہ وہ 9مئی کے واقعات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان کی پریس کانفرنس ایسے موقع پر ہوئی ہے جب عدالت میں فوجی کی قانونی جواز کے بارے میں مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فوج نے تو اپنے نظام میں فوجی افسران کا احتساب کردیا ہے جو اُن کے بقول ان واقعات کا حصہ رہے ہیں، لیکن سول افسران یا پولیس اور انتظامیہ میں جنہوں نے نااہلی دکھائی ان کا احتساب کب ہوگا؟ اسی طرح ایک طرف فوجی ترجمان کے بقول ملٹری کورٹ میں مقدمات شروع ہوگئے ہیں جبکہ اٹارنی جنرل کے بقول ابھی مقدمات شروع نہیں ہوئے، اس سے تضاد کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ فوجی ترجمان کہتے ہیں کہ ان واقعات کی دو ماہ سے منصوبہ بندی کی جارہی تھی، اگر یہ سچ ہے تو سوال یہ ہے کہ ان واقعات کو کیوں نہیں روکا گیا؟

لندن میں نوازشریف اورمریم نواز کی ملاقات، اور کہا جاتا ہے کہ وہاں کچھ بڑے حلقوں کی بھی نوازشریف سے ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ دبئی میں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ نتیجہ نکالنے یا اپنے لیے سیاسی راستہ تلاش کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس ملاقات میں اعظم نذیر تاڑر، عرفان قادر اور عطا تاڑر بھی مریم نواز کے ساتھ شامل تھے۔ جبکہ دوسری جانب آصف زرداری اوربلاول بھٹو بھی دبئی میں ہی عید منائیں گے جہاں ان سب کی آپس میں ملاقات ممکن ہے۔ نوازشریف کی وطن واپسی بھی ایک معما ہے۔ مسلم لیگ (ن) ان کی واپسی چاہتی ہے، اور نوازشریف کی کوشش ہے کہ ان کی آمد میں جو بھی قانونی پیچیدگیاں ہیں انہیں دور کیا جائے اور ان کے لیے واپسی کا راستہ نکالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کی آسانی کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی نے تاحیات نااہلی کی مدت کو پانچ برس کرنے کا قانون پاس کیا ہے، اور اس قانون کو بنانے کا مقصد نوازشریف کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ لیکن نوازشریف کا مؤقف ہے کہ جب تک تمام سیاسی، انتظامی اور قانونی رکاٹیں ختم نہیں کی جائیں گی وہ واپس نہیں آئیں گے۔ جب کہ اس کے برعکس نوازشریف کے بھائی شہبازشریف کی کوشش ہوگی کہ پاکستان میں سیاسی معاملات پر کنٹرول ان ہی کا رہے اور وہی فیصلہ کن کردار ادا کریں۔کیونکہ نوازشریف کی واپسی میں اسٹیبلشمنٹ میں بھی تقسیم ہے، اور ویسے بھی اسٹیبلشمنٹ شہبازشریف کے زیادہ قریب ہے اور سمجھتی ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنا زیادہ آسان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف انتخابات سے پہلے واپس آسکیں گے؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے۔ ممکن ہے نوازشریف اپنے مقابلے میں اپنی بیٹی مریم نواز کے لیے سیاسی راستہ نکالنے کی کوشش کررہے ہوں۔ یہ بات بھی زیربحث ہے کہ کیا آئین میں ترمیم کیے بغیر تاحیات نااہلی ختم ہوسکتی ہے؟ اور اگر ایسا نہیں تو نوازشریف کی نااہلی کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن انتخابات کے حوالے سے زیادہ اچھی نہیں، اور ان کو لگتا ہے کہ اِس بار انتخابات اور بالخصوص پنجاب میں ان کے لیے انتخابی معرکہ جیتنا بہت زیادہ آسان نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو جہانگیرترین کی نئی سیاسی جماعت پر بھی تحفظات ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کا دربار بھی ان کا راستہ روکنے کے لئے سجایا گیا ہے۔ دوسری جانب آصف زرداری جو پنجاب کو فتح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں اپنے حالیہ دورۂ پنجاب میں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی، کیونکہ کسی بڑی سیاسی شخصیت نے ان کی جماعت کو جوائن نہیں کیا، لیکن اس کے باوجود ان کو یقین ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں کچھ نہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کمالِ ہوشیاری سے یہ تاثر پنجاب میں دے رہی ہے کہ اگلی باری اس کی ہے اور بلاول بھٹو نئے وزیراعظم ہوں گے۔ لیکن اس تاثر کے باوجود بڑے اور اہم سیاسی خاندان خاموش ہیں اور مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ تاثر بھی بڑھ رہا ہے کہ آصف زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سیاسی رومانس بڑھ رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب میں بڑی سیاسی جگہ بنانا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر معاملات انتخابات کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ حکمران اتحاد سے علیحدہ بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی کا ووٹ بینک اور دوسری طرف حکومت سے علیحدہ ہوکر وہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ عید کے بعد پیپلزپارٹی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے مسلم لیگ (ن) پر دبائو بڑھائے گی۔

دوسری جانب پنجاب کی پانی پت کی جنگ یا بڑی سیاسی جنگ کا اہم کردار پی ٹی آئی ہے۔ کیونکہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اس کی سیاسی بالادستی یا مقبولیت زیادہ ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کسی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر واقعی انتخابات ہوتے ہیں تو کیا پی ٹی آئی آزادانہ اور بغیر کسی خوف، ڈر یا پابندی کے انتخابی عمل میں حصہ لے سکے گی اور انتخابی مہم چلاسکے گی؟ کیونکہ ابھی تک پی ٹی آئی خاصی مشکل میں ہے اور اس کی سیاسی سرگرمیاں عملی طور پر بند ہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ اپنی ہی جماعت کے لوگوں، ارکانِ اسمبلی، پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سمیت پارٹی عہدے داروں سے بھی ملاقات یا سیاسی سرگرمیاں نہیں کرسکتے اور عملی طور پر اپنے گھر ہی میں قید ہیں۔ پی ٹی آئی کے منحرف راہنما فیصل واوڈا معلوم نہیں کس کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ روزانہ کی بنیاد پر مختلف ٹی وی شوز میں دعوت دے کر بلائے جاتے ہیں یا ان کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ وہ تو برملا کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے سکے گی۔ ان کے بقول پارٹی سربراہ کو نااہل یا گرفتار کیا جائے گا، یا گھر میں قید رکھا جائے گا، اور ان کی پارٹی کے تمام ٹکٹ ہولڈرز کو پیغام دے دیا گیا ہے کہ وہ خود کو پارٹی سے علیحدہ کرلیں وگرنہ ان کے لیے مشکلات ہوں گی، پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ اگر فیصل واوڈا کی یہ باتیں درست ہیں تو ان کو یہ باتیں کون بتارہا ہے؟ اور یہ کس قسم کا انتخابی ماحول سجایا جارہا ہے؟ کیونکہ اس طرز کے انتخابات کی سیاسی حیثیت یا ساکھ کیا ہوگی اس پر بھی بڑا سوالیہ نشان پیدا ہوگا۔ جس ترتیب یا تواتر سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر پارٹی چھوڑ رہے ہیں اس کے بعد یہ سوال اہم بن جاتا ہے کہ کیا واقعی پی ٹی آئی کو انتخاب لڑنے کی اجازت مل سکے گی؟ یا انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی نہ ہو، مگر اس طرح اسے میدان میں اتارا جائے کہ پارٹی کے لوگ کچھ بھی نہ کرسکیں اور ان کو انتخابی معرکے میں شکست ہو۔پی ٹی آئی میں یہ خبر بھی موجود ہے کہ اگرواقعی چاروں طرف سے پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے دور رکھا گیا تو وہ انتخابات کے بائیکاٹ کی طرف بھی جاسکتی ہے۔فی الحال تو پی ٹی آئی اوراس کی پوری قیادت کوسیاسی طو رپر مفلوج کردیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا معاملہ بھی عدالت میں ہے اور دیکھنا ہوگا کہ عدالت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے، اگر فیصلہ فوجی ٹرائل کے حق میں ہوتا ہے تو پی ٹی آئی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے سربراہ بدستور موجود ہیں اور ہر قسم کے دبائو کے باوجود سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خاص طو رپر انہوںنے خود کو مائنس ون فارمولے سے علیحدہ کرلیا ہے اوران کے بقول کسی کی بھی ڈکٹیشن پر وہ مائنس نہیں ہوں گے اور آخر تک مقابلہ کریں گے۔ دوسری طرف اب یہ بھی خبریں ہیں کہ خیبر پختون خوا میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو تیار کیا جارہاہے کہ وہ پی ٹی آئی میں بغاوت کرکے صوبے میں اپنا علیحدہ گروپ یا جماعت بنائیں تاکہ پی ٹی آئی کو خیبر پختون خوا میں کمزور کیا جاسکے۔یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہورہا ہے جب ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی۔لیکن پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل کون کروا رہا ہے اوراس کے پیچھے کیا سیاسی مقاصد ہیں؟ایک خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو نکال کر انتخابی معرکہ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) میں ہی سجایا جائے۔ اگر ایسا ہے تویہ کام سیاسی انجینئرنگ کے بغیر ممکن نہیں، اورایسا کرنے سے مستقبل میں حالات مزید خراب ہوں گے۔

ایک خبر یہ بھی موجود ہے کہ اگر حالات انتخابات کے لیے سازگار نہیں ہوئے تو پھر ایک نئی سوچ یہ بھی ہے کہ اگلی نگران حکومت کو انٹیرم حکومت کا درجہ دیا جائے اوریہ عبوری سیٹ اَپ تین ماہ کا نہیں بلکہ ایک برس کا ہو۔ اس خاکے میں جو لوگ رنگ بھررہے ہیں ان کی کوشش ہے کہ اس عبوری سیٹ اَپ پر آصف زرداری اور نوازشریف کو بھی اعتماد میں لیا جائے ا ور جو بھی عبوری سیٹ اَپ آئے اس میں ان کی رضامندی شامل ہو۔اس لیے جو لوگ بھی انتخابات نہ ہونے کی دلیل دیتے ہیں ان کے خیال میں پاکستان کی سیاست میںکسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔نوازشریف اور زرداری کی مختلف لوگوں سے پاکستان اورپاکستان سے باہر ہونے والی ملاقاتوں کا ایک ایجنڈا لمبی مدت کے لیے عبوری سیٹ اَپ کی تشکیل بھی ہے۔ لیکن یہ عبوری سیٹ اپ پر کیسے چلے گا اوراس کو کون چلائے گا؟ یا اس کی تشکیل آئینی تقاضوں کے مطابق کیسے ہوگی؟ یہ خود بڑا

سوالیہ نشان ہے۔اسی طرح انتخابات میں تاخیر کی حکمت عملی سے بلی تھیلے سے باہر آجائے گی اور لوگ سمجھیں گے کہ یہ تاخیر اورانتخابات سے فرارپہلے سے موجودسیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ویسے بھی انتخابات میں تاخیر سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس بحران سے نمٹنے کا علاج عام انتخابات ہیں۔ لیکن اس بحران کا حل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہی انتخابات میں شفافیت قائم رہ سکے۔ویسے بھی یہاں اب آئین اور قانون سمیت عدالتی فیصلوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے قانون عرفان قادر کے بقول ’’اگر سپریم کورٹ پروسیجر ایکٹ میں کوئی بھی فیصلہ ہمارے خلاف دے گی تو اسے ہم تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے‘‘۔ اداروں کو جس حد تک ہم برباد کررہے یا ادارے خود کو بربادی کے لیے اپنے آپ کو پیش کررہے ہیں اس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔