اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے، ایوب خان نے جب اس شہر کی بنیاد رکھی تو پہلا اور بنیادی خیال یہی تھا کہ یہ بابوئوں کا شہر ہوگا، جہاں صرف سرکار کی آواز ہی سنی اور سمجھی جائے گی اور اس کی تعمیل ہوگی۔ اس شہر کی بنیاد چونکہ ایک غیر جمہوری دور میں رکھی گئی تھی لہٰذا سوچ یہی تھی کہ یہاں انسانی جمہوری حقوق کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ آج اگرچہ وقت بہت گزر گیا ہے اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، میڈیا نے کم یا زیادہ، ملک کے کونے کونے میں بہرحال بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی ہوا پہنچادی ہے، جہاں جہاں یہ ہوا گئی وہاں وہاں اس کے خلاف مزاحمت بھی کی گئی ہے۔ یہ مزاحمت بیوروکریسی، سیاسی مافیا، پولیس گردی، نظر نہ آنے والے ہاتھوں، نامعلوم افراد کے فعل کی شکل میں موجود ہے۔ وہ تمام سیاسی ایجنٹ جنہیں سیاسی منڈی میں بروکر بننے کا شوق ہوتا ہے اور وہ سیاست کی آڑ میں اپنا پھٹہ لگائے گاہک کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں، یہ مافیا پھر اپنی قیمت لگاتا ہے اور وصول کرتا ہے، اور بدلے میں یقین دلاتا ہے کہ منصب دینے والوں کے ہر مفاد کا تحفظ کیا جائے گا۔
اس مزاحمت کے خلاف گزشتہ ہفتے دو سیاسی شخصیات اپنا مقدمہ لے کر اسلام آباد پہنچیں، حافظ نعیم الرحمن اور ہدایت الرحمن بلوچ۔ اسلام آباد کے جمہوری سوچ کے حامل ہر شخص نے یہاں ان کا استقبال کیا اور ان کی جگ بیتی سنی۔ حافظ نعیم الرحمن کے لیے اسلام آباد میں نادرا چوک میں ایک استقبالیہ جلسہ ہوا، جسے احتجاجی جلسہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد میں کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ موسم کس قدر شدت کے ساتھ گرم ہوگا، اسلام آباد میں جلسے کے روز پنتالیس ڈگری درجہ حرارت تھا، مگر لُو کی حدت اس قدر تھی کہ یہ پچاس ڈگری محسوس ہورہا تھا، اس کے باوجود جمہوریت پسند عوام نے شاہراہ جمہوریت پر حافظ نعیم الرحمن کا شان دار استقبال کیا۔ اسلام آباد بھی ایک عجیب شہر ہے جہاں شاہراہ دستور بھی ہے اور شاہراہ جمہوریت کے نام سے بھی سڑک منسوب ہے، لیکن یہاں نہ دستور ہے اور نہ جمہوریت۔ جس شاہراہِ جمہوریت پر جلسہ ہوا، یہ شاہراہ کئی سال تک بند رہی کہ اس کے ایک کونے پر بورڈ نصب تھا’’آگے راستہ بند ہے‘‘۔ کراچی بلدیہ میں میئر کے انتخاب میں ہونے والی بدعنوانی کے خلاف اسی شاہراہ پر احتجاجی مظاہرہ اور جلسہ ہوا، جس سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے امیر ڈاکٹر طارق سلیم، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں اسلم، جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا، جماعت اسلامی راولپنڈی کے امیر سید عارف شیرازی، نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔ حافظ نعیم الرحمن ایک ایسے شہر میں دستور اور جمہوریت تلاش کرنے نکلے جہاں ’’ٹھنڈی مرغی‘‘ بھی سستے داموں بک جاتی ہے۔ بہرحال ان کی کوشش ایک روز رنگ لائے گی۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کراچی کے میئر کے انتخاب کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور کہا کہ اس انتخاب میں 31 ووٹروں کو اُن کے آئینی حق سے محروم کیا گیا۔ ہم وہ لوگ نہیں کہ جن کی یہ بولی لگا دیں اور کرپشن کے پیسے سے خرید لیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے میئر کو جانا ہوگا، ہم نے الیکشن کمیشن میں پٹیشن جمع کرا دی ہے، ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ کا آپشن موجود ہے، یہ الیکشن ان کے گلے کا کانٹا بن چکا، اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں۔ عید کے بعد شہرِ قائد میں ملین مارچ ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے خلاف دھرنا اور لانگ مارچ کے لیے مشاورت شروع کردی ہے، جبکہ عید کے بعد کراچی میں ملین مارچ اور ایک بہت بڑے جلسہ عام کی تیاری کی جارہی ہے۔ ملک بھر کے ہر سیاسی کارکن کے حقوق کے تحفظ اور اس کی مدد پر یقین رکھتے ہیں، پیپلزپارٹی کو عوام کے آگے سرنڈر کرنا پڑے گا۔ میثاقِ معیشت سے پہلے کرپشن کا حساب مانگتے ہیں، سندھ کے وزیراعلیٰ ہاؤس اور بلاول ہاؤس قبضہ گیری کے حوالے سے ڈیل کے مقامات بن چکے ہیں، پیپلز پارٹی کراچی کو مزید ہڑپ کرنا چاہتی ہے اور اس قبضے کے لیے اُسے الیکشن کمیشن کی پشت پناہی حاصل ہے۔
اٹک، چکوال، راولپنڈی، مری، ٹیکسلا، سرگودھا، جہلم اور گجرات سمیت دیگر نواحی علاقوں سے عوام کی بھاری تعداد حافظ نعیم الرحمن کا مقدمہ سننے اور جاننے کے لیے جلسے میں شریک ہوئی۔ ان کا مقدمہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن، حکومت، بیورو کریسی، پارلیمنٹرین بتائیں کہ جمہوریت کے اصل معنی کیا ہیں؟ کیا جمہوریت کے اصل معنی وہی ہیں جن کی روح کے مطابق جنرل ایوب خان کے دور میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی کہ یہاں حقوق، آئین، جمہوریت کی بات نہیں کی جائے گی، یا جمہوریت کے معنی یہ ہیں کہ جس کے پاس اکثریت ہوگی منصب اسی کو ملے گا۔ بقول شاعر: جمہوریت میں گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ اگر جمہوریت اکثریت کا نام ہے تو پھر نو لاکھ ووٹ لینے والا بلدیہ کراچی کا منظم گروپ تین لاکھ ووٹ لینے والے مافیا کے مقابلے میں کیسے ہار گیا؟ اس سوال کا جواب ہوسکتا ہے کہ پارلیمانی زبان میں یہ دیا جائے کہ ایوان میں جس کی اکثریت تھی اسے کامیابی مل گئی۔ مگر حافظ نعیم الرحمن کا تو مقدمہ یہی ہے کہ تین لاکھ ووٹ لینے والے مافیا کو نو لاکھ ووٹ کے مقابلے میں کیسے برتری دلائی گئی؟ جمہوریت اور آئین تو یہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرائے گا، کسی جائز اور آئینی حق رکھنے والے ووٹر کو رائے دہی کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا، مگر بلدیہ کراچی کے میئر کے انتخاب کے موقع پر اغوا کاروں نے ووٹر غائب کرنے کی بستیاں آباد کیں، پولیس تھانے اصطبل بنائے گئے، اس دوران وہ کہاں تھے جو اس ملک کے نظریاتی مفادات کے تحفظ، جمہوریت کے دفاع اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں؟ جلسے میں ہر مقرر کا سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ یہ کیسا نظام ہے جہاں الیکشن کمیشن پر سوال اٹھتے ہوں؟ اور یہ سوال کیوں اٹھتے ہیں؟ یہ کیسا نظام ہے کہ جمہوریت کبھی طاقت ور بن جاتی ہے اور کبھی مطیع اور فرماں بردار؟ جمہوریت کو اس حال تک پہنچانے والے کون ہیں؟ بات صرف کراچی بلدیہ کے میئر کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کی نہیں ہے، بات یہ ہے کہ کراچی جیسا شہر، جس کی عالمی اہمیت ہے، یہ ملک کی بندرگاہ ہے، ہر عالمی قوت چاہتی ہے کہ یہاں اس کا اثررسوخ رہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ جب سے پاکستان وجود میں آیا، کراچی تب سے ہی بیگانی نظروں میں آیا ہوا ہے، نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ نے دنیا بھر میں اپنے پائوں جمانے کی کوشش کی ہے، اسی تناظر میں بلاشبہ سی آئی اے یہاں اپنا نظام چاہتی ہے، وہ پریشان ہے کہ یہاں اس کا سکہ کیوں نہیں چلنے دیا جاتا؟ مزاحمت کرنے والے گروہ کو عوام کی تائید کیوں مل جاتی ہے؟ یہ کراچی کے حوالے سے ایک کشمکش ہے۔
یہاں ایک بہت ہی اہم سوال کا جواب کراچی کے شہری مانگ رہے ہیں کہ سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے ساتھ اُس وقت جب وہ ناظم تھے، امریکیوں کی ملاقاتوں میں کیا کیا بات ہوئی؟ ان ملاقاتوں کی تفصیلات شہریوں تک پہنچنی چاہئیں۔ جماعت اسلامی نے اس شہر میں جگہ جگہ اپنے پیغام کے فروغ اور حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران انتخابی مہم میں جو نرسری لگائی ہے، یہاں سے اگنے والے پودے اب تن آور درخت بن چکے ہیں، ان درختوں نے کراچی کے شہریوں کو بھتہ خوری، قبضہ مافیا، لوٹ کھسوٹ، ڈومکی اور آرائیں مافیا، چائنا کٹنگ کے گرم موسم میں گھنی چھائوں فراہم کی ہے، اسی لیے کراچی کی گلیوں، محلوں نے جماعت اسلامی کوووٹ دیا اور شہر کے میئر کے لیے حافظ نعیم الرحمن پر مکمل اعتماد کیا۔ جماعت اسلامی کی گزشتہ پانچ سال کی جدوجہد اور حقوق کراچی تحریک کے نتیجے میں اہلِ کراچی نے جماعت اسلامی کو سب سے بڑی جماعت ثابت کیا ہے اور سب سے زیادہ ووٹ بھی دیے ہیں۔ حکومت ِسندھ کی ذمہ داری ہے کہ انتظامی و مالی اختیارات کو بلدیاتی سطح پر منتقل کیا جائے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال کر میئر شپ اور ڈپٹی میئر شپ چھینی ہے، ہم ایک زبردست اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ یہ ان کی بہت اچھی اپروچ ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی کے نومنتخب بلدیاتی نمائندے کرپٹ مافیا کے خلاف مضبوط اپوزیشن ثابت ہوں۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیاں کام کریں اور کرپشن کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اگر جماعت اسلامی کے ٹاؤنز میں ترقیاتی کام روکنے کی کوشش کی گئی تو بھرپور مزاحمت کی جائے۔ جماعت اسلامی کے کُل منتخب نمائندے 1118افراد ہیں جو کسی بھی پارٹی کے نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کی مخصوص نشستوں میں 258 خواتین ہیں جو شہر کی خدمت میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ آج پورے پاکستان میں لوگ پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ چور کہہ رہے ہیں، کراچی میں میئرشپ کا حق جماعت اسلامی کا تھا، جماعت اسلامی کی 13ماہ کی مہم اور مسلسل کشمکش کے بعد کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک اور بلدیاتی انتخابات کے بعد عوامی مینڈیٹ کے تحفظ کی جدو جہد کو زبردست پذیرائی دی۔ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ ووٹ دیے اور ایک بڑی جماعت ثابت کیا ہے۔
جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل اور ’’حق دو بلوچستان تحریک‘‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے بھی اسلام آباد کا دورہ کیا اور یہاں پریس میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ خصوصی نشست ہوئی، جہاں انہوں نے کہا کہ حقوق بلوچستان تحریک کا واحد مقصدآئینِ پاکستان کے مطابق صوبے کے عوام کے بنیادی حقوق کا حصول ہے۔ ہمیں خیرات نہیں چاہیے، وسائل سے مالامال سرزمین کے مالک ہیں، مگر صوبے میں سب سے زیادہ محرومیاں اور غربت ہے۔ ساڑھے چار ماہ جیل میں رہا، قصور صرف صاف پانی کا مطالبہ تھا۔ گوادر پورٹ بنا تو ہمیں بتایا گیا کہ اس سے بلوچستان کی تقدیر تبدیل ہوگی، کون بے وقوف ہوگا جو ترقی نہیں چاہے گا؟ ہم نے مسلسل جدوجہد کی، لیکن ہمارا حق نہیں ملا، یورپ سے موازنہ تو دور کی بات، بلوچستان لاہور سے بھی پانچ سو سال پیچھے ہے، کوئٹہ سے گوادر تک ایک بھی اسپتال نہیں، بلوچستان کی مائوں، بہنوں کو بخار تک کے علاج کے لیے کراچی جانا پڑتا ہے۔ بلوچستان کے عوام کو بندوق کی گولی نہیں، درد کی گولی چاہیے۔ غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا جائے، مقامی رہائشیوں کی تذلیل برداشت نہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کہا کہ ہمیں وہ حق دیں جو آئینِ پاکستان دیتا ہے۔ مطالبہ کررہا ہوں کہ اہلِ بلوچستان کے پاکستانی ہونے پر شک نہ کیا جائے، ہماری عزت کا خیال رکھا جائے، ہماری مائوں، بہنوں کو گالیاں نہ دی جائیں۔ پاکستان کے آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ شہری غلام ہوتا ہے، ہمارے ساتھ غلاموں جیسا سلوک نہ کیا جائے۔ بلوچستان کے مسائل طاقت سے حل نہیں ہوں گے، بلوچستان کے لوگ تعلیم، روزگار چاہتے ہیں۔ مجھ پر سولہ ایف آئی آر درج ہیں۔ جج کو بتایا کہ پانی مانگتا ہوں یہی جرم ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے 47 فیصد رقبے پر محیط ہے، آبادی سوا، ڈیڑھ کروڑ ہے، بلوچستان میں سونے کے ذخائر ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے سونا نکالا جارہا ہے۔ سی پیک کی ریڑھ کی ہڈی بلوچستان ہے۔ ساڑھے سات سو کلومیٹر ساحل ہے۔ ڈیپ سی، مچھلی، کھجور، خشک میوہ جات… دنیا کی کون سی دولت ہے جو بلوچستان میں موجود نہیں! پاکستان میں سب سے زیادہ وسائل بلوچستان میں ہیں لیکن سب سے زیادہ غربت، جہالت بھی وہاں ہے۔ صوبے کا وزیراعلیٰ ہر وقت سویا رہتا ہے۔ انسان اور جانور ایک تالاب سے پانی پیتے ہیں۔ زچگی کے دوران شرحِ اموات بلوچستان میں ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ وسائل کی بندربانٹ کی جارہی ہے۔ موجودہ اور سابقہ حکومت کے دور میں بلوچستان میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ سی پیک اور گوادر پورٹ کی اہمیت سے آگاہ ہیں، جو حق مانگتا ہے اسے غدار قرار دینے کی روش بند ہونی چاہیے۔ بلوچستان کا نوجوان ظلم سے تنگ آکر پہاڑوں پر گیا۔ ہم سب پاکستانی ہے، ہمیں تیسرے درجے کا شہری نہ سمجھا جائے۔ چین کو نہیں وڈیروں، سرداروں اور اسلام آباد میں بیٹھے ان کے سرپرستوں کو بلوچستان کی محرومیوں کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔
حافظ نعیم الرحمن اور ہدایت الرحمن بلوچ نے اپنا مقدمہ جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھا۔ ان کا ایک ایک لفظ جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کے لیے تھا۔ اب دیکھتے ہیں ہماری جمہوریت، پارلیمنٹ اور آئین شہریوں کے بنیادی حق کے لیے اس کڑکتے موسم میں انہیں کیسے گھنی چھائوں فراہم کرتے ہیں۔