بائیڈن، مودی مشترکہ اعلامیہ۔ ہدف پاکستان

ابھی کل کی بات ہے کہ بنگلادیش عالمی بینک سے قرض لینے کے لیے ہر شرط تسلیم کرنے کو تیار تھا، اس کے باوجود جب قرض نہ ملا تو بنگلہ دیش نے ذرائع آمدن بڑھانے کی پالیسی اپنالی، اور پھر اس پر سختی سے عمل کیا۔ چند ہی سالوں میں بنگلادیش کی معیشت خطے کی سب سے مضبوط اور مستحکم معیشت بن گئی۔ یہی کچھ آج آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کررہا ہے، پاکستان اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کے بجائے آئی ایم ایف کا جاری شدہ پروگرام ختم کرکے نیا پروگرام لینے کی تیاریاں کررہا ہے، آئی ایم ایف جیسے ادارے کا بنیادی مقصد پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی مشکل معاشی حالات میں مالی مدد کرنا ہے، لیکن پاکستان کو اس ادارے نے گزشتہ9 ماہ سے چکروں میں الجھایا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کے چکر میں قوم کا کچھ خون تحریک انصاف کی حکومت چوس گئی، اب رہا سہا خون شہبازشریف چوس رہے ہیں۔ اب تو خیر پارلیمنٹ کی آئینی مدت مکمل ہونے میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں، لیکن شہبازشریف حکومت نے اقتدار کے مزے خوب لوٹے ہیں۔ ان کی کابینہ کا حجم 90 کے قریب ہے، لیکن ان وزراء میں شاید ایک بھی ایسا نہیں ہے جو وزیراعظم کو مشورہ دے کہ ہمیں قرضے لینے کے بجائے اپنے ذرائع آمدن بڑھانے چاہئیں۔ نئے ٹیکس لگانے سے وقتی طور پر کام نکل جاتا ہے لیکن مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ کابینہ میں کسی نے ذرائع آمدن بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی۔

وفاقی حکومت نے6 ہزار 978 ارب 17 کروڑ 90 لاکھ روپے کے اخراجات کیے، جن میں سے 3 ہزار 582 ارب 44 کروڑ 70 لاکھ روپے قرض و سود کی مد میں ادا کیے گئے۔ یوں رواں مالی سال وفاقی حکومت کے کُل اخراجات کا 51 فیصد حصہ قرض و سود کی ادائیگی میں صرف ہوا۔ وزارتِ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران ایف بی آر کی جانب سے 5 ہزار 155 ارب 90 کروڑ 60 لاکھ روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا، جبکہ 6 ہزار 396 ارب 58 کروڑ 20 لاکھ روپے کا مجموعی ریونیو اکٹھا کیا گیا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کے ریونیو کا 69 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کے مجموعی ریونیو کا 56 فیصد ہے، ہر گزرتے سال کے ساتھ قرض و سود کی ادائیگیوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی آمدن کا تقریباً 58 فیصد پیسہ قرض اور سود کی مد میں ادا کر دیا جاتا ہے۔ اس معاشی پس منظر کے ساتھ قومی اسمبلی نے 14 ہزار 480 ارب روپے کا مالی سال 24-2023ء کا وفاقی بجٹ منظور کر لیا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 ارب سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب مقرر کیا گیا ہے جبکہ پنشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب روپے کردی گئی۔منظور کیے گئے بجٹ کے مطابق این ایف سی کے تحت 5 ہزار 276 ارب روپے کے بجائے 5 ہزار 390 ارب روپے ملیں گے۔فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 459 ارب کے بجائے 466 ارب روپے کر دیے گئے جبکہ وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 900 ارب روپے ہوگا۔

حکومت کی خواہش تھی کہ بجٹ سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجائے، لیکن نہیں ہوسکا، حالانکہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی گئی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت نے مزید 215ارب روپے کے نئے ٹیکسوں سمیت آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرلی ہیں، نئے اقدامات سے مالیاتی خسارے میں 300ارب روپے اور حکومتی اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی ہوگی۔

اس معاملے کے کچھ بنیادی نکات کے مطابق وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد 9جون کو پیش کیے گئے بجٹ کے اہم معاشی اہداف تبدیل کرتے ہوئے 215ار ب روپے کے نئے ٹیکس لگادیے ہیں، جبکہ 223 ارب روپے کے ٹیکس پہلے ہی عائد کیے جاچکے ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر آئندہ مالی سال کے لیے 438ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کردیے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لیے 85ارب روپے کے اخراجات میں کٹوتی بھی کی جائے گی۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ خسارے میں 300ارب روپے کی کمی ہوگی اور یہ 6924 ارب روپے سے کم ہوکر 6624ارب روپے متوقع ہے۔ نظرثانی شدہ اہداف کے بعد پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی کی حد 60 روپے کی گئی ہے، گریڈ17سے 22 گریڈ تک کے ملازمین کی دہری پنشن پر پابندی لگا دی گئی، سپر ٹیکس کے انکم سلیبز میں اضافہ کیا جائے گا۔ تاہم دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان اقدامات کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا۔ بیرون ملک سے ایک لاکھ ڈالر بھیجنے پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق انکم ٹیکس میں سالانہ 24 لاکھ سے زائد آمدن پر ٹیکس میں 2.5 فیصد، ماہانہ 2 لاکھ سے زائد کی تنخواہ پر انکم ٹیکس کی شرح میں 2.5 فیصد اضافہ، اور کھاد پر 5فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے 35 ارب روپے آمدن ہو گی۔ میٹھے مشروبات پر 10سے 20فیصد، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر مزید ایک فیصد ٹیکس سمیت متعدد سفارشات تجویز کی گئی ہیں۔ توقع ہے کہ آئی ایم ایف کی مزید شرائط کی تکمیل کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا، جس کی مدت 30جون کو ختم ہورہی ہے۔

بجٹ کے یہ اعداد و شمارعام آدمی کے لیے اگرچہ محض ایک گورکھ دھندا ہیں لیکن ٹیکسوں میں اضافے اور مراعات میں کمی اس کی زندگی کو روز بروز زیادہ مشکل بنانے کا سبب بہرحال بنتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ ان اقدامات سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا، بڑی ستم ظریفی ہے۔ حکومت نے چند ماہ پہلے ایک کفایت شعاری کمیٹی بھی بنائی تھی لیکن اس کی سفارشات پر بظاہر کوئی عمل ہوتا نظر نہیں آیا، بلکہ سینیٹ کے چیئرمین اور ارکان کی مراعات میں خطیر اضافے کے حالیہ واقعے سے واضح ہوا ہے کہ حکمراں طبقے صرف اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔

بجٹ سیشن میں ہی قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل صدر مملکت کو بھجوا دیا جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔ اسمبلی نے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت کسی بھی قانون ساز کی تاحیات نااہلی کی مدت کو کم کرکے پانچ سال کردیا ہے۔ اس پر صدر کی منظوری کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اور جہانگیر ترین سمیت وہ تمام پارلیمنٹرین جنہیں نااہل کیا گیا تھا اب ملک میں کوئی بھی الیکشن لڑنے کے اہل ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں جب بجٹ پیش ہوجائے تو پھر اسمبلی کارروائی کے ایجنڈے پر کوئی دوسری بات نہیں رکھی جاتی، حتیٰ کہ قانون سازی بھی نہیں کی جاتی، لیکن نااہلی ختم کرنے کا بل بجٹ کے فنانس بل کا حصہ بنایا گیا تھا اور اسی بجٹ سیشن میں قائداعظم یونیورسٹی میں مسلمان طلبہ و طالبات کے ایک گروہ کی طرف سے ہندوئوں کے مذہبی تہوار ہولی منانے کے عمل کا دفاع بھی کیا گیا اور اسے مذہبی رواداری اور بنیادی حقوق کے ساتھ نتھی کیا گیا جس کے نتیجے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے قائداعظم یونیورسٹی کے اس اقدام پر تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کو جاری نوٹس واپس لینے کا حکم صادر ہوا۔ لبرل طبقے کے دبائو پر یہ نوٹس واپس لیا جانا کسی المیے سے کم نہیں۔

بجٹ میں حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کے باوجود پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ارب 20 کروڑ ڈالر قرضے کی قسط کا معاہدہ التوا میں پڑا ہے، جبکہ نیا مالی سال رواں ہفتے شروع ہوجائے گا جس میں معیشت کا پہیہ چلانے کے ساتھ ساتھ بیرونی قرضوں کی مد میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنا ایک بڑا امتحان ثابت ہوگا۔ آئی ایم ایف نے اسٹاف سطح کا معاہدہ کرنے کے لیے پارلیمان سے بجٹ کے فریم ورک پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے اور حکومت نے اُسے آئندہ مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ تخمینوں سے آگاہ کیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اور عالمی مالیاتی ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیواکی پیرس میں ہونے والی ملاقات کی روشنی میں متعلقہ ٹیم کے ساتھ دو ورچوئل مذاکرات ہوئے ۔ آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان کے سامنے جن تین بڑے مسائل کو رکھا ہے، ان میں بجٹ فریم ورک میں ٹیکس بڑھانے، سرکاری اخراجات میں کمی اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ شامل ہیں۔ لیکن مہنگائی ختم کرنے کا کوئی پروگرام کسی کے پاس نہیں ہے۔

یہ تو ہمارا معاشی منظرنامہ ہے، اور پارلیمنٹ کی مدت میں 6 ماہ تک اضافہ کرنا، نہ کرنا بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ دبئی میں اکٹھی ہورہی ہے، ان کی ملاقات میں انتخابات کی تاریخ دینے، باہمی سیاسی اتحاد سمیت کئی امور پر بات چیت ہوگی۔ نوازشریف لندن سے اور آصف علی زرادری پاکستان سے دبئی پہنچ چکے ہیں۔ پہلا رائونڈ عید سے قبل ہوگا، جبکہ دوسرا رائونڈ عید کے بعد ہوگا۔ یہ ملاقات پی ڈی ایم کے ایجنڈے سے الگ ہوگی۔ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ صرف یہ طے کررہی ہے کہ ہمیں مل کر کیسے حکومت کرنی ہے؟ اس خطے میں جن تبدیلیوں کا شور اٹھا ہوا ہے اُس جانب ان کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کا دورۂ امریکہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد مشترکہ بیان جاری ہوا ہے جس میں پاکستان کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا تاثر دیا گیا ہے۔ جوبائیڈن اور نریندرا مودی مشترکہ بیان میں پاکستان کے حوالے سے دہشت گردی کے ذمے دار ملک کا تاثر دینے کی کوشش دراصل امریکہ اور بھارت کی اس حکمتِ عملی کی عکاس ہے کہ پاکستان کی مشکلات بڑھاکر بھارت کو زیادہ مؤثر بنایا جائے۔ اس اعلامیے کے بعد ہی بھارتی فوج نے تیتری نوٹ سیکٹر پر بلا اشتعال فائرنگ کرکے آزاد کشمیر کے دو شہریوں کو شہید کردیا ہے۔ ایک نئی جیو پولیٹکل سرپرستی کی وجہ سے ہندوستانی افواج نے اپنے جھوٹے بیانیے اور من گھڑت الزامات کو پورا کرنے کے لیے معصوم جانیں لینے کا منصوبہ بنایا۔ یہ بھارتی فوج کا جغرافیائی سیاسی محرکات، جھوٹے بیانیے اور من گھڑت الزامات کا نیا سلسلہ ہے، اور بھارت منصوبے کے تحت من گھڑت بیانیے کی تسکین کے لیے معصوم جانوں کے درپے ہے۔ امریکہ اور بھارت یہ بات بھول چکے ہیں کہ جس ملک نے خطے میں امریکی مفادات کی جنگ کی وجہ سے ابھرنے والی دہشت گردی کے خاتمے میں سب سے زیادہ کامیاب اقدامات کیے، اُس ملک سے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے جیسے مطالبات کیے گئے ہیں۔ تاہم دنیا میں امریکی بالادستی کا دور ختم ہوچکا ہے، لہٰذا بھارت اور امریکہ نئے حقائق کو تسلیم کرکے محاذ آرائی سے گریز کریں تو بہتر ہوگا۔ صدر بائیڈن نے امریکہ بھارت تعلقات میں بڑی اسٹرے ٹیجک تبدیلی کو اکیسویں صدی کی نہایت معنی خیز زقند قرار دیا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی چوٹی کی پرائیویٹ کارپوریشنز کے مابین وسیع تر اشتراکِ عمل کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر باہمی تکنیکی، تجارتی، دفاعی اور سائنسی اشتراکِ عمل کے بے پناہ مواقع اور انڈو پیسفک وسیع ریجن میں اسٹرے ٹیجک شراکت داری کے لیے ہر ممکن تعاون کی راہیں استوار کردی گئی ہیں۔ جبکہ مشترکہ اعلامیے میں چین کا نام لیے بغیر ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں چین مخالف فوجی تعاون کی بنیاد طے کردی گئی ہے، جبکہ پاکستان کا نام لے کر دہشت گردی کے خاتمے اور ممبئی اور پٹھان کوٹ میں ہونے والی دہشت گردی اور سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام کے لیے پاکستان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال بند کرے اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔ ماضی کا حوالہ دیا جائے تو امریکہ بھارت تعلقات کے جس نئے دور کا آغاز صدر بش جونیئر کے دور میں ہوا تھا، اب صدر بائیڈن کے دور میں یہ تعلقات ایک بڑے اسٹرے ٹیجک دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ 75اراکینِ کانگریس کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کے باوجود کانگریس میں چین مخالف، بھارت دوست امریکہ کی دو طرفہ حمایت کی وسیع بنیاد سامنے آئی ہے۔ روس یوکرین جنگ میں بھارت کی غیر جانب داری سے امریکو کو خلش پیدا ہوئی تھی، لیکن چین کے خلاف جاری تجارتی اور سرد جنگ کے باعث امریکہ بھارت کے نخرے اٹھا رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ آئندہ چند سال میں چین مالیاتی و تجارتی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنے، امریکہ بھارت کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر آگے بڑھا کر اپنی عالمی مالیاتی اجارہ داری کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔