غرور دو چیزوں سے پیدا ہوتا ہے: (اوّل) خلقت کی تعریف اور مدح سے۔ اور وہ یوں ہے کہ بندے کا فعل مخلوق کو پسند آتا ہے، اِس پر اُس کی مدح و ثنا کرتے ہیں۔ اور وہ اِس پر مغرور ہوجاتا ہے۔ یا وہ اپنے اُس فعل سے مغرور ہوجاتا ہے جو سب کو پسند ہو۔ اور اپنے آپ کو قابل سمجھتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ راستہ اپنے دوستوں پر بند کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے معاملات کو اگرچہ وہ نیک ہوں لوگ پسند نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہوں نے حقیقتِ حال کو نہیں دیکھا۔ اور اگرچہ اُن کی کوششیں راہِ طریقت میں بہت تھیں مگر اُن اللہ کے دوستوں نے ان کو اپنی طاقت اور قوت سے خیال ہی نہیں کیا، اور نہ اُن کی وجہ سے اپنے آپ کو پسند کیا۔ یہاں تک کہ فخر و غرور کرنے سے محفوظ رہے۔ پس جو شخص خدا کو پسند ہوتا ہے، مخلوق اس کو پسند نہیں کرتی۔ اور جو اپنے نزدیک برگزیدہ بنتا ہے، خدا تعالیٰ اس کو برگزیدہ نہیں کرتا۔ چنانچہ ابلیس کو جنّوں نے پسند کیا اور فرشتوں نے بھی قبول کیا۔ اور خود اُس نے اپنے کو بھی پسند کیا۔ چونکہ وہ پسندیدۂ حق نہ تھا، اس لیے اِن کا پسند کرنا اُس کے لیے لعنت کا پھل لایا۔ لیکن اس کے برعکس حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے پسند نہ کیا اورکہنے لگے اتجعل فیہا من یفسد فیہا ترجمہ (کیا زمین میں تُو اُس کو پیدا کرے گا جو اُس میں فساد کرے گا؟) اور آدم علیہ السلام نے خود بھی اپنے آپ کو پسند نہ کیا اورکہا ربنا ظلمنا الفسنا۔ ترجمہ (اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا)۔ لیکن چونکہ آدم علیہ السلام پسندیدۂ حق تھے، اللہ نے فرمایا ونسی ولم نجدلہ عزماً۔ ترجمہ (وہ بھول گیا اورہم نے اس کے لیے پختہ ارادہ نہ پایا) اس لیے ان کا اپنے آپ کو پسند نہ کرنا اور ملائکہ کا بھی ان کو پسند نہ کرنا آپ کے لیے رحمت کا پھل پایا، تاکہ اہل عالم جان لیں کہ ہمارا (اللہ کا) مقبول مخلوق کے ہاں متروک اور مخلوق کا مقبول ہمارے (اللہ کے) ہاں متروک ہوتا ہے۔ اس لیے مخلوقِ خدا کی ملامت دوستانِ حق کی علامت ہے۔ کیونکہ اس میں قبولیت کے آثار ہیں۔ اور اولیا ؒ کے نزدیک بھی، کہ ملامت قربِ حق کی علامت ہے۔ اور جس طرح لوگ اپنی مقبولیت پر خوش ہوتے ہیں اولیاء اللہ مخلوق کے رد کرنے پر خوش ہوتے ہیں۔
(شیخ علی ہجویریؒ،کشف المحجوب سے اقتباس)
مجلس اقبال
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
علامہ دیکھتے ہیں کہ مغرب سے مرعوب مسلمان جب وہاں کے مفکروں کو ذہنوں پر سوار کرکے اُن کے افکار کی بھیک مانگتے ہیں تو وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی تو ان کے پاس ہے، یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید، جو خالق و مدبر کائنات نے عطا فرمائی ہے اور حضور رحمت اللعالمینؐ جیسی معلم ہستی کی عطا کردہ حکمت و ہدایت ان کے پاس ہے، مگر وہ اپنی حقیقت اور مقامِ بلند سے ہی بے خبر ہیں۔ یعنی اپنی خودی (حقیقت) کا انہیں اندازہ نہیں کہ وہ اصلاً کتنے خوش نصیب ہیں۔