بڑھتا معاشی بحران… مستقبل کے لیے نئے خطرات؟
ملک کا سیاسی منظرنامہ نئے عام انتخابات کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے بلکہ سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ ستمبر، اکتوبر یا پھر نومبر میں ملک میں عام انتخابات ہوکر رہیں گے۔ نگران حکومت کے سربراہ کے لیے سابق بیوروکریٹ فواد حسن فواد سمیت متعدد نام زیر غور ہیں، تاہم قرعہ فال بلوچستان کے نام بھی نکل سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نگران کتنی مدت تک رہیں گے اور انتخابات میں وفاق اور صوبوں میں کون اکثریت حاصل کرے گا، اور کون سی جماعت یا سیاسی اتحاد حکومت سازی کے لیے جمہور کا مینڈیٹ حاصل کرسکے گا؟ اس کے جواب کے لیے چند ہفتوں کا انتظار رہ گیا ہے۔ رواں ہفتے مردم شماری کے نتائج جاری کیے جارہے ہیں، اس کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں شروع ہوجائیں گی، امکان ہے کہ صوبوں میں صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھ جائیں۔ عین ممکن ہے کہ اسلام آباد میں بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست بڑھ جائے، تاہم اس سب کا انحصار مردم شماری کے نتائج پر ہے۔ ملک میں حکومت کون کرے گا یہ فیصلہ آئین نے عوام کو دے رکھا ہے۔
انتخابی حلقوں کی حد بندی کے لیے پیمانہ مردم شماری کے نتائج ہیں، لیکن ملکی معیشت کی بہتری اور اس کے استحکام کا پیمانہ کیا ہونا چاہے اور یہ پیمانہ کیا ہے؟ اس بارے میں بہت کم سوچا گیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور سیاسی اتحاد اقتدار ملتے ہی کشکول گلے میں لٹکائے آئی ایم ایف کی نگری کی جانب دوڑ پڑتے ہیں۔ زمینی حقائق کے برعکس وعدے وعید کیے جاتے ہیں، اور اقتدار ملنے پر جس طرح ’’خزانہ خالی ہے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اسی طرح یہ اگلی حکومت کو تھماکر رخصت ہوجاتے ہیں۔ جب سے آئی ایم ایف پروگرام ملکی معیشت کی زندگی میں آیا ہے بس یہی ایک کھیل اب تک جاری ہے۔ لیکن اب ماضی کے برعکس انتہائی ابتر صورتِ حال ہے، معیشت کی قبا تار تار ہوچکی ہے، آئی ایم ایف کی آکسیجن بھی اب کام نہیں آرہی، نادہندگی کا خوف مسلسل بڑھ رہا ہے جس کے باعث کھلبلی ہے کہ ہر طرف مچی ہے۔ معاشی بحران چونکہ سیاسی ترجیحات کے دھاگے سے سلائی کرکے ٹالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اس لیے اب خساروں کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے نسخے بھی کام نہیں آرہے۔ ملک بھر کے چوٹی کے معیشت دانوں نے معیشت مستحکم اور بحال کرنے کی ایک راہ دکھائی ہے، ایک کمیٹی معاشی میثاق کے لیے تشکیل دی گئی جس میں ڈاکٹر اکمل حسین، وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کے شوہر ڈاکٹر حفیظ پاشا، ڈاکٹر پرویز طاہر، ڈاکٹر راشد امجد، ڈاکٹر قیصر بنگالی شامل ہوئے۔ کمیٹی نے ایک خاکہ تیار کرکے دیا ہے کہ انسانی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے طبقاتی خلیج، تفریق و استحصال کیسے ختم کیا جائے۔ اس وقت ملک میں کم و بیش دو کروڑ تیس لاکھ لوگ بشمول 80لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں اور دس کروڑ آبادی خطِ غربت سے بھی نیچے آچکی ہے۔ ان حالات میں ایک نیا میثاقِ معیشت دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے 38ارب ڈالر کے دو طرفہ قرض ری شیڈول کروائے جائیں اور 11 ارب ڈالر سے کمرشل قرضوں کی ادائیگی کے لیے کم شرائط پہ قرضوں کا متبادل تلاش کیا جائے۔ تمام نجی بینک قومیا لیے جائیں، غیر ملکی کرنسی کے نجی اکائونٹس اسٹیٹ بینک کی تحویل میں دے دئیے جائیں، سونے کے ذخائر کے ایک حصے کو بیچ کر بھی کمرشل قرضے ادا کیے جائیں۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ4000 ارب روپے کی مراعات اور سبسڈیز ختم کردی جائیں، زرعی ٹیکس سے 340 ارب روپے، پراپرٹی ٹیکس سے 240ارب روپے، کیپٹل گین ٹیکس سے 150ارب روپے، 120لاکھ روپے کی آمدنی سے اوپر 40 فیصد ٹیکس، کرایہ کی آمدنی پہ 200ارب روپے ٹیکس، تاجروں پہ ود ہولڈنگ ٹیکس لگایا جائے تو اس سے 12,200ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں۔ وفاقی ریونیو کو نئے اقدامات سے 9200 ارب سے 11500 ارب تک بڑھایا جائے، وفاق کی وہ 35وزارتیں اور ان کے درجنوں ڈویژن بند کردئیے جائیں جو محکمے صوبوں کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ دفاع کے اخراجات میں 20فیصد کٹوتی کی جائے، زیادہ سے زیادہ تنخواہ 5لاکھ روپے مقرر کی جائے، زرعی اصلاحات کی جائیں اور زمین کی حد 50ایکڑ سے 100 ایکڑ مقرر کی جائے اور زرعی ٹیکس لگایا جائے۔ زراعت کی جدید کاری کی جائے، صنعتی پالیسی ازسرنو بنائی جائے، خوراک میں خودکفالت پیدا کی جائے، درمیانے اور چھوٹے درجے کی انٹرپرائزز کی سرپرستی کی جائے، برآمدات کو متنوع کیا جائے اور ہائی ویلیو ایکسپورٹس پہ زور دیا جائے، رشوت ختم کرنے کے لیے 5000 کے نوٹ کو ختم کردیا جائے اور دس لاکھ سے زائد مالیت کے بانڈز جاری کردئیے جائیں۔ پانچ ہزار کا نوٹ تو ختم ہونا تھا، حکومت دس ہزار مالیت کا نوٹ جاری کررہی ہے۔ معیشت کے ماہرین کہتے ہیں کہ اربوں ڈالر اور ذخیرہ کیے گئے 50 تولہ سے اوپر سونے کو ضبط کرلیا جائے، غربت و ناداری کے خاتمے کے لیے امدادی رقم 2000ارب روپے کی جائے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ 10 کروڑ لوگوں تک بڑھایا جائے، تعلیم و صحت کے لیے بجٹ کا ترقیاتی پروگرام 2000 ارب روپے تک بڑھایا جائے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انفارمیشن، کمیونیکیشن، مصنوعی ذہانت اور سماجیات کی تعلیم کو فروغ دیا جائے اور تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے تمام ہمسایوں سے تجارت بڑھائی جائے اور سی پیک کو معاشی انقلاب کا ذریعہ بنایا جائے۔
معاشی ماہرین کی یہ صرف سفارشات تھیں، ان سفارشات پر وزیر خزانہ نے رد عمل دیا ہے اور سونا ضبط کرنے کی تجویز پر کہا ہے کہ عوام خوف زدہ نہ ہوں حکومت ایسا نہیں کرے گی۔ لیکن حکومت کو معیشت بہتر اور مستحکم بنانے کے لیے کچھ تو حل دینا پڑے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اے پلان کے مطابق وفاقی بجٹ تو پیش کردیا ہے، تاہم پلان بی ابھی تک خفیہ رکھا ہوا ہے۔ اس پٹاری سے کیا برآمد ہوگا، یہ گرہ بھی جلد کھل جائے گی۔
آئی ایم ایف اور حکومت کے مابین گزشتہ نومبر سے بات چیت جاری ہے، اس دوران حکومت آئی ایم ایف کی شرائط مان مان کر ہلکان ہوچکی ہے لیکن قسط پھر بھی بحال نہیں ہوئی، حکومت سے کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک ڈسکائونٹ ریٹ 21فیصد کی بلند ترین شرح پر لائے، پیٹرول اور ڈیزل پر 50روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی عائد کی جائے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے، سیلز ٹیکس کی شرح 17سے 18فیصد تک بڑھائی جائے، ایکسپورٹ سیکٹرز کو بجلی، گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے، روپے کی قدر اوپن مارکیٹ کی سطح پر لائی جائے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کو ایک سال میں 100روپے سے زائد ڈی ویلیو کیا جائے۔ یہ سب کچھ حکومت کرچکی ہے، اس کے باوجود قسط تو نہ ملی البتہ ملک میں گزشتہ 70سال میں مہنگائی ریکارڈ 38 فیصد تک پہنچ گئی۔ آئی ایم ایف بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کررہا ہے اور بغیر پوچھ گچھ ایک لاکھ ڈالر کی ترسیل کو سرائط کے منافی قرار دے رہا ہے۔ ملک اس وقت شدید ترین معاشی بحران سے دوچار ہے، ٹیکسٹائل صنعت بند ہونے کے قریب ہے، مختلف ممالک کے باہمی قرضے 37ارب ڈالر ہیں جن میں چین کے قرضے 24 ارب ڈالر ہیں، 10ارب ڈالر باہمی قرضے، 4ارب ڈالر سیف ڈپازٹ، 4ارب ڈالر کے کرنسی سواپ اور6ارب ڈالر کے کمرشل بینکوں کے قرضے ہیں جن کی ری اسٹرکچرنگ حکومت کی ترجیح ہے، اور وہ چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف کے تحفظات دور کیے جائیں۔ یہی غیر یقینی صورتِ حال ختم کرنے کی کنجی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط اور ملک کی سیاسی صورتِ حال گزشتہ چار سالوں سے ریکارڈ پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام آئی ایم ایف کے لیے ایک آئیڈیل صورتِ حال سمجھی جاتی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام 2018ء سے ’’بار بار اور دوبارہ‘‘ کے درمیان گمبھیر ہونے کے ساتھ، یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ہماری اقتصادی ٹیمیں واقعی پوری طرح سے سمجھ نہیں پائی ہیں کہ آئی ایم ایف کیا ہے اور اس کا بنیادی مینڈیٹ، اس کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار اور قواعد کیا ہیں؟ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ فنڈ سے رعایت حاصل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں،یہاں تک کہ ملکی معیشت پر تباہ کن سیلاب کے اثرات اور بڑھتی ہوئی مالیاتی کمزوری بھی آئی ایم ایف کو اپنے مؤقف سے ہٹنے پر قائل نہیں کر سکی۔ یہ ہماری معاشی ٹیم کی بد ترین ناکامی ہے۔ماضی میں کئی بار ہوچکا ہے کہ نا پسندیدہ شرط پرآئی ایم ایف پروگرام نہیں لیا گیا جبکہ اِس بار آئی ایم ایف کی دہلیز چھوڑی نہیں جارہی اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ مالی سال 2023-24ء کے لیے عوام دوست بجٹ پیش کیا۔ حقائق یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث بجٹ کا عوام دوست حصہ ختم کردیاگیا ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات کے خیال میں ’’حکومت نے سبکدوش ہونے والے مالی سال کے دوران ٹیکس میں 2.24 ٹریلین روپے کی بے مثال چھوٹ دی ہے، یہ امر آئی ایم ایف کی نظروں میں پاکستان کے کیس کو کمزور بنارہا ہے۔2.24 ٹریلین روپے مالیت کی ٹیکس چھوٹ پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، وہ ماضی کی حکومت کی طرف سے اپنے چار سال سے بھی کم دور میں دی گئی کُل چھوٹ کے 43 فیصد کے برابر ہے۔ یہ بجٹ ابھی پارلیمنٹ میں زیر بحث ہے۔ آئی ایم ایف نے 2023-24ء کے بجٹ کے فریم ورک پر شدید اعتراضات اٹھائے ہیں اور حکومت سے کہا ہے کہ وہ ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو دونوں کوششوں میں اضافہ کرے۔ وزارتِ خزانہ اعتراف کررہی ہے کہ آئی ایم ایف 2023-24ء کے بجٹ کے فریم ورک سے مطمئن نہیں ہے، اس لیے انہیں اگلے مالی سال کے لیے 542 ارب روپے کے نظرثانی شدہ تخمینے کے مقابلے میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کو 869 ارب روپے تک بڑھانے کا دفاع کرنا ہوگا۔ حکومت تنگ دستی میں ہے اور اسے ان شرائط کو پورا کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ وزیراعظم کا یہ بیان کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات ٹھیک نہ ہونے کی صورت میں قوم کو اعتماد میں لیں گے، عیاں کرتاہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر کو 200 بلین ڈالر کی سطح تک بڑھانے کے بارے میں بات کی ہے۔ یہ نکتہ وضاحت طلب ہے، کیونکہ موجودہ پیداواری ماڈل کے ساتھ تو ایسا ممکن نہیںہے۔روپے کی تاریخی گراوٹ نے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔اگر 2018ء سے عالُمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ دونوں حکومتوں کے تعاملات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنا نسبتاً آسان ہو سکتا ہے لیکن اس کی شرائط پر عمل درآمد ایک مشکل کام ہے، اور اگر کوئی حکومت واضح سوچ نہ رکھتی ہوتو ان شرائط کو پورا کرنا ممکن نہیں۔
چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافہ جلد بازی میں متفقہ قانون سازی
گزشتہ دنوں سینیٹ نے متفقہ طور پر لیکن جلد بازی میں پرائیویٹ ممبر کی جانب سے پیش کردہ ایک بل منظور کرلیا۔ پورے سینیٹ میں مشتاق احمد خان واحد ممبرتھے جنہوں نے اس بل کی مخالفت کی اور اختلافی نوٹ لکھا۔ اس بل کے تحت چیئرمین سینیٹ پاکستان کے سب سے زیاد ہ مراعات یافتہ افراد میں شامل ہوگئے ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کا ہر چیئرمین سینیٹ اس سے مستفید ہوگا۔ بل کے مطابق چیئرمین سینیٹ ایکٹ 2023ء ایک اور بل کے فوراً بعد منظور کرلیا گیا۔ یہ بل سینیٹ ارکان کی مراعات اور سہولتوں سے متعلق ہے جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ اس بل کی تفصیلات سینیٹ سیکرٹریٹ کے پاس بھی دستیاب نہیں ہیں۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور پی ڈی ایم سمیت تحریک انصاف کی بھی اس بل کو حمایت میسر تھی۔ ملی بھگت کے ساتھ یہ قوانین ایک ایسے موقع پر منظور کیے گئے ہیں جب ملک سنگین مالی بحران کا سامنا کررہا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے منظور کردہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوچکا ہے اور اب یہ بل حتمی منظوری کے لیے صدرِ مملکت کو پیش کیا جائے گا۔ اگر یہ قانون منظور ہوا تو اس کے نتیجے میں موجودہ، سابقہ اور آئندہ تمام چیئرمین سینیٹ کو ٹیکس دہندگان کی جیب سے یہ مراعات و سہولتیں دی جائیں گی۔ حیرانی کی بات ہے کہ دو سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور فاروق نائیک یہ بل پیش کرنے والوں میں شامل تھے۔ اس نجی بل کو پیش کرنے والے ارکان کی تعداد 40 تھی جن میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر شہزاد وسیم بھی شامل ہیں۔ سینیٹ کے ہر چیئرمین کو اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد (یعنی بعد از ریٹائرمنٹ) تاحیات 12 ملازمین اور 6 گارڈز مستقل طور پر ملیں گے اور ساتھ ہی جہاں بھی جائیں گے انہیں وی وی آئی پی سیکورٹی فراہم کی جائے گی، وہ ملکی اور بین الاقوامی سفر کی خاطر اپنے اور بچوں اور اہلِ خانہ کے لیے ہوائی جہاز طلب کرسکیں گے۔ اگر کوئی سہولت یا مراعت اس بل میں رہ گئی ہو تو بعد میں وہ فنانس کمیٹی سے اس کا مطالبہ کرسکیں گے۔ بل کے سیکشن 21 میں کہا گیا ہے کہ تین سال کی مکمل مدت کے لیے چیئرمین سینیٹ رہنے والا شخص تاحیات مکمل حفاظتی بندوبست کا حق دار ہوگا، یعنی اعلانیہ رہائش گاہ پر چھ سنتری، چار پولیس والے، انسداد دہشت گردی فورس، ایک اسکواڈ گاڑی میں رینجرز، فرنٹیئر کور یا فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار۔ ان سب کے لیے وفاقی حکومت یا متعلقہ صوبائی حکومت مطلوبہ انتظامات کرے گی۔ چیئرمین سینیٹ فنانس کمیٹی کا مجوزہ ذاتی عملہ رکھنے کا بھی مجاز ہوگا، چاہے پھر وہ ریگولر ہو یا کنٹریکٹ پر۔ ایسے ملازمین کی تعداد 12 سے زیادہ نہ ہوگی۔ سیکشن 20 میں لکھا ہے کہ سینیٹ کی فنانس کمیٹی چیئرمین سینیٹ کو ایسی اضافی مراعات دے سکتی ہے جو وہ مناسب سمجھے۔ اس کے علاوہ چیئرمین سینیٹ 8 لاکھ روپے سالانہ یا پھر وہ خود فنانس کمیٹی کے ذریعے طے کردہ صوابدیدی گرانٹ کے حصول کا مجاز ہوگا۔ چیئرمین، سابق چیئرمین اور ان کے اہلِ خانہ، اہلیہ، بیوائوں کی طبی سہولیات سرکاری اور نجی اسپتالوں کے ساتھ ان کی رہائش گاہوں پر بھی لامحدود انداز سے فراہم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نائب سربراہ مملکت یا نائب صدر کا پروٹوکول حاصل کرسکے گا۔ اپنے غیر ملکی سفر کے لیے چیئرمین سینیٹ وفاقی، صوبائی حکومت، مسلح افواج، کسی فلائنگ کلب یا کسی چارٹرڈ ایئر سروس پرووائیڈر کا طیارہ سرکاری قیمت پر حاصل کرسکے گا۔ چیئرمین سینیٹ کو کمرشل طیارے میں اپنی فیملی کا ایک، جبکہ ریکوئزیشن کردہ طیارے میں فیملی کے چار ارکان لے جانے کا اختیار ہوگا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اس بل کی مخالفت کی تھی لیکن بل کی منظوری کے وقت انہیں بولنے نہیں دیا گیا۔(میاں منیر احمد)