وائس چانسلرز کا حیرت میں مبتلا کر دینے والا مطالبہ

معروف کالم نگار اور دانش ور دستگیر بھٹی نے اتوار 18 جون 2023ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد میں شائع ہونے والے اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’گزشتہ جمعرات کو تمام اخبارات میں دو ایسی مبتلائے حیرت کردینے والی خبریں شائع ہوئی ہیں جن کی ماضی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی، ان میں سے ایک خبر میں ملک کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر ہے جس میں انہوں ہمارے عدالتی نظام کو ہدفِ تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرزکے بارے میں حد درجہ سخت منفی الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ خواجہ آصف نے جو الفاظ کہے ہیں میں انہیں اپنے کالم میں لکھنے سے قاصر ہوں، لیکن ان کے الفاظ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور درس گاہوں میں جاری کرپشن کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، اور اپنے اس اشارے کو تقویت دینے کی خاطر انہوں نے عدلیہ پر یہ تنقید کی کہ ’’حکومت جب کسی بھی وائس چانسلر کو ہٹانے کا حکم جاری کرتی ہے تو وہ ججوں کے دروازے کھٹکھٹاکر اس حکم نامے کے خلاف حکمِ امتناع حاصل کرکے اپنی کرسیوں سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ کئی جج صاحبان محض ذاتی مفادات کے حصول کے لیے وائس چانسلرز کی کرپشن ختم کرنے میں دیدہ دانستہ اور جان بوجھ کر رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔‘‘

وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ ’’اگر وائس چانسلرز خود کرپشن میں مبتلا ہوں گے تو وہ یونیورسٹیوںکے شاگردوں کو بھی پھر کرپشن ہی سکھائیں گے۔‘‘

اخبارات میں اسی دن شائع ہونے والی اور حیرت میں مبتلا کردینے والی دوسری خبر یہ ہے کہ سندھ کی 22 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے وزیراعظم شہبازشریف کو اپنی درس گاہوں کے مالی مسائل کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے اظہارِ تشویش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ان کے اداروں کو ملنے والا سالانہ بجٹ بے حد کم ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں انتظامی امور کا چلایا جانا بے حد مشکل اور دشوار ہو گیا ہے۔ سندھ کی 22 جامعات کے وائس چانسلروں نے اپنے دستخطوں سے تحریر کردہ اسی مراسلے میں خاص طور پر نئے مالی سال 2023-24ء میں HEC کی طرف سے ملنے والی رقم کو مطلوبہ رقم کے مقابلے میں اس بنا پر ناکافی قرار دیا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ کے پیش کردہ تازہ بجٹ میں گریڈ 1 تا 22 کے سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں اور پنشن کی مد میں جو اضافہ کیا گیا ہے ہمارے لیے اپنے ملازمین کو اس کی ادائی کرنا ناممکن امر ثابت ہوگا، اس لیے یہ لازم ہے کہ ہمارے اداروں کو زیادہ رقم دینے کے لیے وزیراعظم خود کوشش کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے ملازمین پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں، اگر آپ کے حکم کے مطابق موجودہ رقم ہی میں سے ان کی تنخواہیں بڑھائی گئیں تو ہمارے کچھ ادارے نادہندہ ہوجائیں گے۔

اس خط میں وائس چانسلروں نے اس بات پر بھی دکھ کا اظہار کیا ہے کہ اربابِ اختیار نے بجٹ کو 2015ء سے 65 ارب روپے تک محدود کرکے بڑی ناانصافی کا ارتکاب کیا ہے، لہٰذا ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کی قومی کونسل اور نیشنل فنانس کمیشن کا اجلاس فوراً طلب کیا جائے تاکہ سندھ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے فیصلے کیے جاسکیں۔

میری ان دونوں خبروں کے بارے میں ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک توخواجہ آصف جیسے ملک کے دفاع کی وزارت سنبھالنے والے وفاقی وزیر نے وائس چانسلرز پر کرپشن کا الزام عائد کرکے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ 13 جماعتی حکومت نے ملک سے کرپشن کا ناسور ختم کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی، اور اس حوالے سے وہ یکسر ناکام ثابت ہوچکی ہے۔ اس لیے پاکستان کے 23 کروڑ باشندوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی مرکزی کابینہ کے طاقتور عہدیداران یعنی حکمران ازخود تعلیمی اداروں کی تباہی کے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے سربراہوں پر اگر خالی خولی الزام لگانے کے بجائے خواجہ آصف کرپشن میں ملوث وائس چانسلروں کے خلاف قومی اسمبلی میں ثبوت پیش کرتے تو دنیا میں ان کی اپنی عزت اور وقار میں اضافہ ہوجاتا۔ ایک وفاقی وزیر کی جانب سے بغیر کسی ثبوت کے رومال میں لپیٹ کر اتنا بڑا بہتان لگا دینا کسی طور پر بھی مناسب عمل نہیں ہے۔

اس امر میں بھی کوئی کلام نہیں ہے کہ سندھ کی بیشتر یونیورسٹیوں میں اربوں روپے کے تعمیراتی کاموں کے لیے قاعدے قانون کے مطابق ٹینڈر جاری کرکے اچھی ساکھ کے حامل ٹھیکے داروں کو ٹھیکہ دینے کے بجائے اپنے من پسند افراد کو چھپ چھپا کر ٹھیکہ دے دینا اس طرح کی ایک عام مروجہ روایتی حقیقت بن چکی ہے جس طرح سے سندھ سرکار کے ہر ایک ڈپارٹمنٹ میں برس ہا برس سے ’’دھندہ‘‘ یا ’’کاروبار‘‘ جاری و ساری ہے۔ دیگر تمام سرکاری محکموں کی طرح یونیورسٹیوں سے بھی اساتذہ اور دیگر ملازمین کو بھرتی کرنے کے موقع پر میرٹ کی پامالی کا واویلا اکثر سننے میں آتا رہتا ہے۔

حالیہ اطلاعات کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے وائس چانسلرز کے خلاف اپنے کہے گئے الفاظ واپس لیتے ہوئے ان سے معافی طلب کر لی ہے اور یہ ان کا ایک اچھا فیصلہ ہے، لیکن اس واقعے سے ملک کے حکمرانوں، وزرا، مشیروں اور بیورو کریٹس وغیرہ کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ سندھ کے حکمرانوں کو خصوصاً یہ امر ہرگزفراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری مادرِ علمی سندھ یونیورسٹی میں ان کی حکومت قائم ہونے سے قبل عالمی سطح کے دانش مند، تعلیمی ماہرین اور مدبرین کو وائس چانسلر مقرر کیا جاتا تھا تاکہ وہ نژادِ نو کے پڑھنے والے طالب علموں کو شاندار تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کرسکیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ علامہ آئی آئی قاضی صاحب سے لے کر ہم نے جتنے بھی اکابر کو وائس چانسلر کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے دیکھا ہے ان میں تحقیقی دانش ور پروفیسر الیاس ابڑو، ڈاکٹر غلام علی الانا، پروفیسر غلام مصطفی شاہ، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر رضی الدین احمد اور شیخ ایاز کے پائے کے اسکالر، عالم فاضل، علم اور ادب دوست دانش ور شامل تھے۔ ان شخصیات کی زندگی کا مقصد مال و متاع سمیٹنے کے بجائے اپنے اہلِ وطن کا مستقبل سنوارنا اور بدلے میں عزت و وقار اور احترام حاصل کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں پڑھے لکھے جہلا کو حادثاتی طور پر اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں اس معاشرے کو بھی خود غرضی، حرص اور لالچ کے راستے دکھانے کے مقاصد سے دیگر پبلک ڈپارٹمنٹس کی طرح مقدس درس گاہوں میں بھی میرٹ کی پامالی کرتے ہوئے سفارشی کلچر پنپنے لگتا ہے، نتیجے میں تھوڑا بہت اصلاح یافتہ معاشرہ بھی زوال اور انحطاط کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے، کیوں کہ خوشامدی ٹولے کو مزے اور لطف حاصل کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے۔ چھوٹے اذہان کے پست فطرت افراد بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر قابض ہو جاتے ہیں اور سارا معاشرہ ہی اس وجہ سے بالآخر پستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ شعور اجاگر کرنے والے انگلیوں پر گنے جانے والے دانش وروں، وطن دوستوں کا خاکہ اور مضحکہ اڑاکر اور نت نئے جھوٹ گھڑ کر وہ موقع پرست اشخاص خلقِ خدا تک شعور پہنچانے والے سچے تخلیق کاروں، قلم کاروں، ادبا اور شعرا کو پس منظر میں دھکیل کر خود صرف اور صرف ذاتی فوائد کے حصول کے لیے سوچتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان، تباہی اور بربادی چہار اطراف پھیل جاتی ہے اور جہالت کی تاریکی میں ہر روشنی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہی حال بعینہٖ ہمارے صوبے سندھ کا بھی آج ہوچکا ہے۔

جس طرح سے ہم برس ہا برس سے سندھ میں یہ مشاہدہ کررہے ہیں اور بچشمِ خود ملاحظہ بھی کررہے ہیں کہ عام مرد اور خواتین محنت، مشقت اور اپنا کام کاج چھوڑ کر بھیک مانگنے کے لیے قطار بناکر کھڑے ہوئے ہوتے ہیں، انہیں بدلے میں سوائے ذلت کے اور کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ سارے معاشرے میں بے روزگاری اور جرائم میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ترقی کے بجائے تباہی خلقِ خدا کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔‘‘

(نوٹ: کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)