پیپلزپارٹی کی جیت کو ہمیں پیپلزپارٹی سے زیادہ اُن کی جیت سمجھنا چاہیے جو واقعی پیپلزپارٹی کی سیاسی حمایت کررہے ہیں۔
پاکستان میں عام انتخابات کی شفافیت ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہی ہے۔ کوئی بھی عام انتخاب ایسا نہیں جسے مکمل شفاف انتخاب کا نام دیا جاسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے سجائے ہوئے انتخابی نظام اور حکومتوں کی تشکیل نے قومی سیاست کو ایک بڑے بحران میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ اس برس اکتوبر یا نومبر میں عام انتخابات کی باتیں کی جارہی ہیں۔ پیپلزپارٹی اکتوبر یا نومبر میں عام انتخابات کی حامی ہے، جبکہ مسلم لیگ (ن) اورجے یو آئی کا خیال ہے کہ ہمیں ابھی مزید عمران خان کو کمزور کرنا ہے اور اگلے برس مارچ میں عام انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ لیکن فیصلہ یہی ہوتا نظر آرہا ہے کہ عام انتخابات اِسی برس ہوں گے کیونکہ عام انتخابات سے گریز کا راستہ کسی کو بھی آسان نہیں لگ رہا، اور لگتا ہے کہ انتخابات سے گریز کا راستہ نئی سیاسی اور قانونی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ لیکن اب اہم بات یہ ہے کہ کیا ملک میں شفاف انتخابات ممکن ہوسکیں گے؟ کیونکہ قومی سیاست کا سب سے بڑا سوال انتخابات کی شفافیت ہے، اور اگر انتخابات کی شفافیت ممکن نہیں ہوتی تو نیا سیاسی بحران پیدا ہوگا۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی اوراب جمہوری نظام ہی چلے گا اور فیصلہ بھی عوام اور سیاسی قوتیں ہی کریں گی۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔ عمران خان حکومت پر بنیادی الزام یہی تھا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا اسکرپٹ تھا اور ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ان کو لایا گیا تھا۔ لیکن اب جو کچھ ہوگا یا ہورہا ہے وہ اسکرپٹ کے بغیر ہورہا ہے؟ اور جو موجودہ حکومت ہے کیا وہ کسی اسکرپٹ کے بغیرچل رہی ہے؟ کیا اس منصوبے کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں؟کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب بھی عام انتخابات ہوں گے وہ ایک خاص ایجنڈے اورمنصوبہ بندی ہی کے تحت ہوں گے اور کسی بھی صورت میں عمران خان کو انتخاب جیتنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ استحکام پاکستان پارٹی کی تشکیل کو بھی اسی سطح پر رکھ کر دیکھا جارہا ہے۔کچھ لوگ کراچی میں ہونے والے میئر کے انتخاب کو بنیاد بناکر عام انتخابات کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کررہے ہیں، اور ان کے بقول کراچی میں جس طرح میئر کا انتخاب ہوا ہے ایسا ہی کچھ عام انتخابات اور ان کے نتائج کی صورت میں دیکھنا ہوگا۔
کراچی کے میئر کے انتخاب کا نتیجہ یہی ہونا تھا جو ہمیں پیپلزپارٹی کی جیت کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ نتیجہ پہلے سے ہی سب کو معلوم تھا کیونکہ پیپلز پارٹی نے وفاقی اور سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن سمیت انتظامی اداروں کی مدد سے یہ نتیجہ پہلے ہی سے طے کرلیا تھا کہ جیت ہماری ہی ہوگی۔ حالانکہ جمہوریت نمبر گیم سے جڑا نظام ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے باہمی اتحاد کی بنیاد پر 192 کی عددی تعداد کی موجودگی میں کراچی کے میئر کا انتخاب حافظ نعیم الرحمٰن کو جیتنا تھا، مگر جہاں آئین، قانون اور جمہوریت کی حکمرانی کا تصور کمزور ہو وہاں مختلف نوعیت کے نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی اتحاد 173افراد پر مشتمل تھا، مگر جب انتخاب کی بنیاد دھونس، دھاندلی، اقرباپروری اور ریاستی یا حکومتی حمایت سے جڑی ہو تو نتیجہ وہی نکلنا تھا جو پیپلزپارٹی نے نکالا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی جیت کو ہمیں پیپلزپارٹی سے زیادہ اُن کی جیت سمجھنا چاہیے جو واقعی پیپلزپارٹی کی سیاسی حمایت کررہے ہیں۔ یہ جیت اسٹیبلشمنٹ کی ہی مرہونِ منت ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ زرداری کی کراچی میں جیت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ آج کل ویسے بھی قومی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور پیپلزپارٹی کے درمیان گہرا سیاسی رومانس دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اس کی حمایت کررہی ہے۔ اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی پنجاب اور کے پی کے میں بڑی سیاسی سطح کے طاقت ور افراد کو اپنی جماعت میں شامل کرنا چاہتی ہے۔اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آنے والے انتخابات کے لیے سیاسی انجینئرنگ شروع ہوگئی ہے۔ اگر یہ کھیل آگے بڑھتا ہے تو اس سے یقینی طور پر انتخابات کی صحت مشکوک ہوگی اور انتخابات یقینی طور پر متنازع شکل اختیار کرسکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کو تاریخ میں پہلی بار میئر کراچی کے انتخاب میں جیت مبارک ہو، مگر یہ جیت کئی طرح کے سوالیہ نشانات چھوڑ گئی ہے جو ہمیشہ پیپلزپارٹی کا پیچھا کرتی رہے گی۔کیونکہ اس جیت سے جمہوریت یا مقامی حکمرانی کی خودمختاری اور مضبوطی کی بات کمزور ہوئی ہے اور برملا جمہوری عمل پیچھے کی طرف چلا گیا ہے۔کراچی کی مقامی حکومت کا ایوان جو 366 ارکان پر مشتمل ہے اس میں سے کراچی کے میئر کے انتخاب کے دن پی ٹی آئی کے 31 ارکان کی عدم موجودگی، غیر حاضری یا ووٹ نہ ڈالنے کا عمل سارے ہی انتخاب کو مشکوک بناتا ہے۔ بہتر تھا کہ پی ٹی آئی کے لوگ ایوان میں موجود ہوتے اور وہ ووٹ نہ ڈالتے تو بات سمجھ میں آسکتی تھی، مگر اُن کی عدم موجودگی اور یہ الزام کہ ان 31ارکان کو ڈیفنس کے ایک بڑے گھر میں سیکورٹی اہلکاروں کی مدد سے قید کیا گیا تھا، معاملات کو مزید مشکوک بناتا ہے۔ جمہوریت میں جو بھی پارٹی مینڈیٹ کے ساتھ انتخاب جیتتا ہے اُس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کے حمایت یافتہ فرد کو ہی ووٹ ڈالے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ پارٹی پالیسی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں نے مل کر پیپلز پارٹی کے لیے جو سہولت کاری کی ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ لگتا ہے کراچی کے میئر کا انتخاب عوام یا اُن کے منتخب افراد کو نہیں کرنا تھا بلکہ کچھ اورہی قوتوں کو کرنا تھا۔ یہ منظرظاہر کرتا ہے کہ ہمارا انتخابی نظام مجموعی طور پر یرغمال ہے اوران حالات میں شفاف انتخابات مشکل یا ناممکن نظر آتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے میئر کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب 13ووٹوں کے فرق سے جیتے ہیں، جبکہ کراچی میں موجود 25 ٹائون میں سے 13پر پیپلزپارٹی، 9پر جماعت اسلامی اور 3 پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس لیے کراچی کے میئر کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کی جیت کے باوجود 12ٹائون میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی برتری ہے۔ اس پس منظر میں جیسے جیسے یہ نظام آگے بڑھے گا ہمیں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر بڑا ٹکرائو دیکھنے کو ملے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے میئر کے انتخاب میں جیت کے لیے 184ووٹوں کی ضرورت تھی مگر پیپلز پارٹی کی کمالِ ہوشیاری سے کی گئی ترمیم کی مدد سے اسے محض کُل حاصل کردہ ووٹوں میں برتری تک محدود رکھا گیا،کیونکہ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو 184ارکان کی حمایت حاصل نہ تھی۔ پیپلزپارٹی کا نکتہ نظر ہے کہ پی ٹی آئی کے 31ارکان کو غائب کرنا، اغوا کرنا ہمارے ایجنڈے کا حصہ نہیں اور اگر انہوں نے ووٹ نہیں ڈالا تو اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ارکان کو غائب نہیں کیا گیا تو یہ ارکان اسمبلی میں آنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہوئے؟ اورکہیں ایسا تو نہیں کہ ان 31ارکان کو پیپلزپارٹی نے ہی مختلف معاملات طے کرکے ووٹ ڈالنے سے روکا ہو تاکہ اس کی جیت یقینی ہوسکے! ان 31 ارکان کو سامنے آنا چاہیے تھا اور بتانا چاہیے تھا کہ انہوں نے کیوں پارٹی پالیسی کے برعکس پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالا، تاکہ یہ طے ہوسکے کہ ان پر کوئی دبائو نہیں تھا اور نہ ہی ان کو غائب کیا گیا۔ اس لیے جب تک یہ ارکان سامنے آکر اپنا بیان نہیں دیتے پیپلزپارٹی کی جیت پر سوالیہ نشان رہے گا۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی جیت کے باوجود یہ کھیل اب نئی سیاسی اور قانونی محاذ آرائی کی نذر ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ یہ نئی لڑائی کیا نیا رنگ پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل ہی پیپلزپارٹی کے راہنما ندیم افضل چن کے بقول ہم شفاف انتخابات چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ شفاف انتخابات 1990ء کے انتخابات کی طرح نہ ہوں۔ اسی طرح طلال چودھری کے بقول ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں شفاف انتخابات ہوں، اور یہ شفاف انتخابات کراچی کے میئر کے انتخاب کی طرح نہ ہوں۔
دراصل پیپلزپارٹی، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی خواہش تھی کہ ان پر سے یہ لیبل ہٹے کہ ان کا مینڈیٹ محض اندرونِ سندھ تک محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی جو آج کل اسٹیبلشمنٹ کے سب سے قریب سمجھی جاتی ہے وہ اس داغ کو دھونے کے لیے پورے سندھ کی حکمرانی کا خواب دیکھتی تھی جسے خاص طاقتوں کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس کھیل کے تانے بانے پہلے ہی سے بُن لیے گئے تھے تاکہ پیپلزپارٹی کو پورے سندھ کی حکمرانی دے کر اس کی ساکھ بڑھائی جاسکے۔ یہاں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اوربالخصوص حافظ نعیم الرحمٰن کو بھی داد دینی ہوگی کہ ان تمام تر حالات، جبر اور استبداد کے باوجود ان لوگوں نے بھرپور مزاحمت کی۔ ہمارے سندھ کے دانشور دوستوں کو اس بات کا تو گلہ ہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھیوں کے خلاف بات کی ہے، مگر پیپلزپارٹی نے اپنی جیت کے لیے جو غیر جمہوری طور طریقے اختیار کیے اس کی مذمت کے لیے وہ تیار نہیں، یا دبے لفظوں میں اس پر بات کررہے ہیں۔ اہم بات یہ کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سے قطع نظر ووٹوں کی تعداد اور دو جماعتوں کے مشترکہ اتحاد کے بعد پیپلزپارٹی کی جیت کو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جمہوری تقاضوں کے مطابق ہوئی ہے؟ سندھی دانشور پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی پر ضرور تنقید کریں، یہ اُن کا حق ہے، مگر جو حقائق ہیں انہیں نظرانداز نہ کیا جائے،کیونکہ جس طریقے سے انتخاب ہوا ہے اس سے نہ صرف جیت کا عمل مشکوک ہوا بلکہ اس نے جمہوری عمل کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔کراچی کے مقامی انتخابات کے تناظر میں حلقہ بندیوں، انتخابی دھاندلی، نتائج میں ردوبدل اور قانون سازی یا ترامیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے بجائے افراد یا جماعتوں کو مضبوط کیا ہے۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بارے میں تین سوال ہمیشہ اہم رہیں گے: (1) پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا اور پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نظام میں میئر اور ڈپٹی میئر کے براہِ راست انتخاب کا نظام رکھا تھا۔ یعنی لوگ براہِ راست میئر کے انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے تاکہ چور دروازوں سے، یا ارکان کی خرید وفروخت کی بنیاد پر میئر کے انتخاب کو روکا جاسکے۔ جب تک میئر کے انتخابات براہِ راست نہیں ہوں گے خرابی پر مبنی موجودہ نظام برقرار رہے گا۔
(2) جو بھی میئر کا امیدوار ہو اُس پر لازم ہونا چاہیے کہ وہ پہلے یونین کونسل کا انتخاب لڑے، اور جیت کر میئر کے انتخاب میں حصہ لے۔ باہر سے میئر کے امیدوار کو لانے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ مرتضیٰ وہاب کو بھی باہر سے لایا گیا، اس لیے یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔
(3) اسی طرح شو آف ہینڈز کے بجائے خفیہ رائے شماری ہو تاکہ لوگ بغیر کسی ڈر اور خو ف کے ووٹ ڈال سکیں۔ اسی طرح ہم عوامی مینڈیٹ اور سیاسی جماعتوں کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے اور اس کے مقابلے میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کریں گے تو اس کے نتیجے میں سیاسی و جمہوری نظام سمیت مقامی حکومتوں کا نظام بھی کمزور ہوگا۔
اب جبکہ ملک میں عملی طور پر عام انتخابات کا ماحول بن چکا ہے، نئی سیاسی صف بندیاں اور محاذ آرائی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس لڑائی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے کھیل کا حصہ بن گئی ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کراچی کی طرح کے انتخابات سے گریز کرے اور اپنی مرضی سے کسی کو لانے، یا نہ لانے کے کھیل کو ختم کیا جائے۔ کیونکہ سیاسی مہم جوئی قومی سیاست کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گی، اور حکومت ہو یا ہماری اسٹیبلشمنٹ… دونوں کی ترجیح عام انتخابات کا بروقت انعقاد اور ان کی شفافیت ہی ہونی چاہیے، کیونکہ یہی حکمت عملی ملک کی سیاسی اور معاشی ترقی میں کوئی بڑا کردار ادا کرسکے گی۔