گزشتہ دنوں موجودہ وزیر توانائی، سرکاری ناتوانی کا برسرِ محفل اعتراف کربیٹھے۔ ہوا یوں کہ اُس روز ہمارے وفاقی وزیر توانائی نمائندگانِ ابلاغ سے ’توانائی‘ کے موضوع پرمخاطِب تھے۔ خطاب کا خاتمہ بالخیر ہوا تو انھوں نے صحافیوں کو سوالات کی دعوت دے ڈالی کہ’آبیل مجھے مار‘۔ ایک صحافی نے اُٹھ کر افرادِ قوم کی شدید ترین معاشی بدحالی اور بجلی کی قیمتوں کی جدید ترین ’بِل- بِلاتی‘ خوش حالی پر قوم کی مزید بے حالی سے متعلق سوال کرڈالا۔ وزیر موصوف جرأت مندانہ سوال سن کر سنّاٹے میں آگئے۔ انتہائی بے چارگی سے جواب دیا:
’’نہ پائے رفتن نہ جائے رفتن۔ کیاکریں مجبوری ہے‘‘۔
صحافی چپ ہو رہا، کیوں کہ بے بسی اور بے کسی کی اتنی بے مہار کیفیت تو اصل محاورے میں بھی نہیں جتنی رفت گزشت حالت وہ خود اپنی حکومت کی ظاہر کررہے تھے۔ ’رفت گزشت‘ کا مطلب ہے ’گئی گزری‘۔ پس، اے شہر یارانِ شہرِ سخن! اگر موجودہ حکمران ملک و قوم کے ’مسیحا‘ ہیں تو قوم ان کا کوئی عذر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ بقول انجم رومانی:
کیسے مانوں کہ کوئی درد کی تدبیر نہیں
کوئی صورت، کوئی حیلہ، کوئی چارہ ہو گا
خیر، چارہ ہو یا نہ ہو، بے چارہ محاورہ تو مارا گیا۔اصل محاورہ ہے ’’نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘‘۔ اُردو زبان میں کثرت سے استعمال ہونے والے اس فارسی محاورے کا لفظی ترجمہ ہے ’’رُکنے کو جگہ میسر ہے نہ چلنے کو پاؤں‘‘۔ مراد یہ کہ حکومت ایسی حالت میں ہے کہ ٹھہر سکتی ہے نہ بھاگ سکتی ہے۔ مگر بھاگے تو جارہے ہیں۔ پوری حکومت سُودی پھونکوں کی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ لیکن IMF سے کھینچا تانی میں اس ہوائی گھوڑے کی باگ ڈور ٹوٹ گئی ہے۔ باگ ٹوٹ جانے سے معیشت کا گھوڑا بگٹٹ (بگ ٹُٹ) بھاگا جارہا ہے۔ سوار کی جو حالت ہے اُس کو ظاہر کرنے کے لیے مشہور محقق اور ہمارے پیارے بھائی ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے غالبؔ کی ایک ہی غزل کے دو مختلف مصرعوں پر تحقیق کرکے اُن کی مدد سے غالبؔ کا ایک تازہ تازہ شعرکشید کرلیا ہے:
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
تو اے شرابی عزیزو! یہ محاورہ[نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن]ایسے موقعے پر بولتے ہیں جب واقعہ سخت ہو اور جان عزیز۔ گومگو کی کیفیت ہو۔’گو‘ فارسی والا بھی ہوسکتا ہے اور انگریزی والا بھی۔ ’گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘۔ گویا جب ایسا موقع آپڑے کہ کچھ کرتے نہ بنتا ہو،سخت مصیبت اور سخت مجبوری کا عالم ہو توکہتے ہیں’نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن‘۔جیسا کہ غلام بھیک نیرنگؔ نے کہا:
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے، خدا خیر کرے
خدا توبہانے بہانے سے خیر کرنے کے بہانے نکالتا رہتا ہے، مگر ہم ہی ’خیر پسند‘ نہیں۔ہماری قوم کے ہر شخص کی نظر میں ہماری قوم کا ہر شخص ’شرپسند‘ ہے۔اے دوستو! سب اہلِ وطن کو ہے سب سے بَیر۔ بس اس لیے کسی سے نہ رکھو اُمیدِ خیر۔
خیر، بات ہورہی تھی محاورے کی۔ مطلب اور مفہوم واضح ہوگیا ہو تو محاورے کے الفاظ سے بھی دو دو ہاتھ کرتے چلیں۔ ’جا‘ کا مطلب ہے جگہ۔کشورِ پنجاب کا دہقان بھی اس لفظ کے استعمال سے خوب واقف ہے۔ اگر آپ کسی بازار کی کسی رہ گزار پر اُس کا رستہ روکے کھڑے دوستوں سے دل لگی کررہے ہیں تو وہ عقب سے آکر ڈپٹ کر بولے گا: ’’جا دیو‘‘۔ یعنی گزرنے کی جگہ دو۔ جو چیز، جو کام یا جو بات برموقع، برمحل اور اپنی ٹھیک جگہ پر ہو تو اُسے ’بجا‘ کہیے۔ نہ ہو تو یہی سب کچھ ’بے جا‘ کہلائے گا۔ جو شے جگہ جگہ پائی جائے ہم اُسے ’جا بجا‘ پاتے ہیں۔ نماز کے لیے مخصوص کیا جانے والا غالیچہ یا مخصوص کی جانے والی جگہ کو ’جائے نماز‘ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسے ’جانماز‘ بھی لکھتے، بولتے ہیں۔ جو شخص آپ کے بعد آپ کی جگہ کرسی، مسند یا تخت پر بیٹھے وہ آپ کا ’جانشین‘ کہلائے گا اور مفت میں مارا جائے گا۔
’پا‘ کا مطلب پاؤں ہے۔ سچ پوچھیے تو پاؤں (یا ’پانْو‘) بھی ’پا‘ ہی کی ’اُردوائی‘ ہوئی شکل ہے۔ ’ہاتھا پائی‘ کے دوسرے جزو میں اسی سے کام لیا جاتا ہے۔ پاؤں میں پہنا جانے والا ملبوس ’پاجامہ‘ کہلاتا ہے۔ عورتیں جو زیور پاؤں میں پہنتی ہیں اُسے ’پازیب‘ کہتی ہیں۔ لفظی مطلب ’پاؤں کی زیبائش‘ ہے۔ پاؤں مارنے یا پاؤں کُوٹنے والے کو ’پاکوب‘ کہتے ہیں۔ چناں چہ رقاص یا ناچنے والے کو بھی پاکوب کہا جاتا ہے۔ ’کوب‘ کا مطلب کُوٹنا ہے، اسی وجہ سے مار کُٹائی کو زَد و کوب کہتے ہیں۔ جو چیز پاؤں سے روند کر یا لات سے لتاڑ کر خراب کردی جائے وہ ’پامال‘ ہوجاتی ہے۔ اپنے پاؤں جما کر رکھنے والا یعنی ثابت قدم شخص ’پامرد‘ کا لقب پاتا ہے۔ اسی سے اسمِ کیفیت ’پامردی‘ ہے۔ ’اُتھلا‘ یا ’کم گہرا‘ پانی جس میں پاؤں تَہ تک پہنچ جائے اور آدمی پاؤں پاؤں چلتے ہوئے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جا پہنچے ’پایاب‘ ہوتا ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش مرحوم بڑی اُمیدوں اور آرزوؤں سے خودکُشی کرنے کنارِ دریا گئے تھے مگر اسی وجہ سے منہ پِٹا کر ناکام لوٹ آئے:
موت مانگوں تو رہے آرزوئے خواب مجھے
ڈوبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے
فارسی مصدر ’ماندن‘ کے معنی ہیں’ٹھہرنا، رُک جانا، سُست پڑنا یا سُستانا اور باقی بچ جانا‘۔ تھک کر بیٹھ رہنے والا تھکا ماندہ ہوتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا ’پَس ماندہ‘۔ ہمارے ہاں ہمیشہ ملاکر یعنی ’پَسماندہ‘ لکھا جاتا ہے۔ بچاکھچا ’باقی ماندہ‘ (یا ’باقیماندہ‘) کہلاتا ہے۔ مصیبت کا مارا، خستہ حال اور پریشان شخص ’درماندہ‘ ہوتا ہے۔ جس شے کی آب و تاب اور چمک دمک جاتی رہے وہ ’ماند‘ پڑ جاتی ہے۔
’رفتن‘ کا مطلب ہے ’چلنا، جانا،گزرنا یاگزر جانا‘(یعنی مرجانا) اُستاد ذوقؔ کے اس شعر کا دوسرا مصرع بہت مشہور ہوا:
پھرتا ہے سیلِ حوادث سے کہیں مردوں کا منہ
شیر سیدھا تیرتا ہے وقتِ رفتن آب میں
اردو میں رفتن کے مشتقات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ آنا جانا ’آمد و رفت‘ کہلاتا ہے۔ جو لوگ دنیا سے چلے گئے اُن کا شمار ’رفتگان‘ میں کیا جاتا ہے۔ جو زمانہ چلا گیا وہ ’عہدِ رفتہ‘ کہلاتا ہے۔ جو ہفتہ گزر گیا اُس کی خبریں ’ہفتۂ رفتہ‘ کے عنوان سے پیش کی جاتی ہیں۔ جوجاتے جاتے جاتا ہے وہ ’رفتہ رفتہ‘ جاتا ہے۔ مراد ہے آہستہ آہستہ اور بتدریج۔ جوشخص اپنی ذات سے دور چلا جائے یعنی غافل اور دیوانہ ہوجائے وہ ’ازخود رفتہ‘ کہلاتا ہے۔ جس بات کو کہتے ہیں کہ ’جانے دیجے‘ یعنی اس کا رفع دفع کرنا مقصود ہو تو ایسی باتوں کو ’رفت گزشت‘ کردیا جاتا ہے۔ چلنے کی پیمائش کو، یعنی کسی عمل کی سستی یا تیزی کو اس کی ’رفتار‘کہا جاتا ہے، خواہ وہ عمل سست رفتار ہو یا تیز رفتار۔ ’رفتار گفتار‘ چال چلن کے معنوں میں بولتے ہیں۔ زمانے کی روش کو ’رفتارِ زمانہ‘ کہا جاتا ہے۔ قطعِ مسافت کی شرح کو بھی ’رفتار‘ ہی سے ناپتے ہیں۔ساٹھ کی رفتار، ستّر کی رفتار۔ تیز رفتاری پر اکثر چالان بھی ہو جاتا ہے۔مگر مظفرؔ وارثی کا محبوب تو بہت ’تیزرفتاری‘ سے اور مڑ کر دیکھے بغیر بھاگا پھر بھی کسی نے اس کا چالان نہیںکیا:
اُس کی رفتار سے لپٹی رہیں آنکھیں میری
اُس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ وفا کس کی تھی