اہلِ سیاست کے حرج ڈالنے سے قوم کا ہرج

اب سے چار ہفتے قبل کا قصہ ہے۔ جمعہ 12مئی کو، اُسی روز شائع ہونے والے کالم سے متعلق، محترم ڈاکٹر تابشؔ مہدی صاحب کا ’ہدایت‘ نامہ نئی دہلی سے موصول ہوا۔ ڈاکٹر صاحب اُردو ادب کے نام وَر نقاد، محقق، عالم اورشاعرہیں۔ نعت گوئی اورغزل گوئی میں آپ کا منفرد مقام ہے۔ اب تک آپ کی43 یا غالباً اس سے زائد تصانیف منظرعام پر آچکی ہیں۔ اس بے مایہ کالم نگار کے نام ڈاکٹر صاحب کا نامۂ گرامی آیا تو ’کبھی چوما کبھی آنکھوں سے لگایا نامہ‘۔ پھر نہایت عقیدت و احترام سے نامۂ طبیب کو طاقِ نسیاں پر دھر دیا۔ آج یاد آیا تومکتوبِ مرطوب کو طاقِ مذکور سے اُتارا، ایک بار پھر چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ (اب کی بار پڑھ بھی لیا)

محبت بھرے کلماتِ تحسین اور خلوص بھری دُعاؤں کے بعد ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’حالیہ کالم بہ سلسلہ بہ راہِ مہربانی یا براے مہربانی پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس کا اختتام آپ نے اس فقرے پر کیا ہے: ’’… تو اس میںحرج ہی کیا ہے؟‘‘یہ لفظ حرج بھی متنازع ہے۔کوئی کہتا ہے صحیح لفظ حرج ہے۔ قرآنِ مجید میں بھی حرج ہی استعمال ہوا ہے۔ کوئی ہرج پر اصرار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے ماہرینِ لسانیات کے حوالے دیے جاتے ہیں۔ موقع ہو تو کبھی اس کو بھی موضوع بنائیے‘‘۔

ڈاکٹر صاحب سے بڑھ کر اس موضوع کا حق بھلا کون ادا کرسکتا تھا؟ مگرنہیں معلوم کیا حرج تھا یا انھوں نے کیا ہرج سمجھا کہ خود نہیں لکھا۔ ہمارے لیے اس موضوع پر لکھنا بھی دشوار اور ڈاکٹر مہدی کی ہدایت سے منہ موڑنا بھی مشکل۔ کریں تو کیا کریں؟ لکھیں تو کیا لکھیں؟

صاحبو! اُردو میں دونوں الفاظ عربی سے آئے ہیں۔ عربی میں ’حَرَ ج‘ کے لغوی معنی ہیں اشیا کے مجتمع ہونے، یعنی جمع ہونے کی جگہ۔ جمع ہونے پر چوں کہ تنگی ہو جاتی ہے، چناں چہ حرج کا مطلب تنگ ہونا یا تنگی ہوجانا لیا گیا۔ زیادہ درختوں والی تنگ جگہ کو ’الحَرَج‘ کہا جاتا ہے۔ آدمی تنگ آ جائے تو غصے میں دانت پیستا ہے، لہٰذا عربی میں حَرَجَ کا مطلب یہ بھی ہے کہ ’اُس نے دانت پیس لیا‘۔ تنگ ہونے اور سینہ تنگ ہوجانے کے معنوں میں یہ لفظ قرآنِ مجید میں جابجا استعمال ہوا ہے۔ مگر قرآن میں’حرج‘ گناہ کے معنوں میں بھی آیا ہے۔ مثلاً سورۃ النور کی آیت نمبر 61 میں بتایا گیا ہے کہ کن کن عزیزوں، رشتے داروں اور بے تکلف دوستوں کے گھر جاکر اُن کاکھانا کھا جانے میں کوئی گناہ نہیں۔ اس کھانے کا شمار ’ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے‘ میں نہیں کیا جائے گا۔ اس طویل آیت میں ’حرج‘ کا لفظ تین بار گناہ کے معنوں میںآیا ہے۔ لہٰذا مسلم معاشرت میں دوستوں اور عزیزوں کے کھانا کھانے پر صاحبِ خانہ خوش ہی ہوتا ہے، خفا نہیں۔

اردو میں حرج زیادہ تر تنگی، سختی اور رُکاوٹ کے معنوں میں بولا گیا، مگر نقصان یا تضیع کے معنی بھی لیے گئے ہیں۔ میر انیسؔکہتے ہیں:

آپ کی جان سے دُور، آئے اگر میری قضا
نہ حرج کیجیے گا میرے لیے منزل کا

عربی میں حرج ’ح‘ اور ’ر‘ دونوں پر زبر کے ساتھ ہے۔ اُردو میں بھی اکثر ایسا ہی ہے۔ انیسؔ کے محولہ بالا شعر میں بھی یہی تلفظ ہے۔ مگر اُردو میں ’ر‘ ساکن کے ساتھ کیا جانے والا تلفظ عام ہے اوراہلِ زبان کے نزدیک جائز ہے۔ مثلاً حکمرانوں کو جھک جھک کر سلام کرنے میں مصروف صاحبانِ جُبہ و دستار کو، پروفیسر اقبالؔ عظیم عین موقع پر پہنچ کر ڈانٹتے ہیں:

جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر
سر اتنا مت جھکاؤ کہ دستار گر پڑے

کوئی چیز یا کوئی شخص کسی کام میں رُکاوٹ پیدا کردے، خلل ڈال دے اور کام کرنے یا کام ہونے میں تنگی آجائے تو کہا جاتا ہے کہ وہ کام میں ’حارِج‘ ہوگیا، لیکن اگرکسی کام میں کوئی رُکاوٹ یا کوئی قباحت نظر نہ آتی ہو تو خوش ہولیجے کہ یہ کام کرگزرنے میں کوئی حرج نہیں۔

عربی میں ’ہرج‘ کا مطلب فتنہ، فساد، دنگا، شورش، گڑبڑ، ہنگامہ، آفت اور حملہ کرنا ہے۔ اُردو میں یہ لفظ آیا تو خلل، نقصان اور خسارہ بھی ساتھ لایا۔ اس ’ہرج‘ کا تلفظ بھی ’ر‘ پر زبر اور ’ر‘ ساکن دونوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ واجد علی شاہ اخترؔ (شاہِ اودھ) کا ایک شعر ہے، جس میں یہ لفظ ’ر‘ پر زبر کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ [اس لفظ کے استعمال میں] کسی اور کا نہیں، خود آپ ہی کا نقصان ہے:

کچھ ہرج نہ ہو جائے گا کسی کا
اس میں نقصان ہے آپ ہی کا

جب کہ شوقؔ قدوائی نے اِسے ’ر‘ ساکن کے ساتھ برتا ہے۔شاید شوقؔ صاحب حسن کی خاطر ہر نقصان جھیلنے کو تیار تھے:

جو حسن اُس میں ہے، بے وفائی سے بڑھ کر
تو پھر ہرج کیا ہے، اگر بے وفا ہے

ہماری سمجھ میں تو یہ آیا کہ ’حرج‘ رُکاوٹ اور تنگی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ’ہرج‘ نقصان یا خسارے کے معنوں میں۔مثلاً: ’’لاہور جانے میں تمھارے حارج ہوجانے سے میرا بڑا ہرج ہوا‘‘۔ مگر اکثر لوگ دونوں املا سے ایک ہی مفہوم لیتے ہیں اور اس بات پر دنگا فساد کرتے ہیں کہ درست املا کون سا ہے۔ حالاں کہ رُکاوٹ کے لیے حرج لکھا جائے تو اس میں کسی کا کیا ہرج ہے؟ اسی طرح نقصان کے لیے ہرج لکھنے میں بھی کسی کو حارج نہیں ہونا چاہیے۔ طرزِ جمہوری پر عمل پیرا سیاسی جماعتیں جو ہڑتالیں کراتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں،جلاؤ گھیراؤ کرتی ہیں،گاڑیوں اور عمارتوں کو آگ لگا دیتی ہیں، یا شہر میں بیچ چوراہے پر دھرنا مار کر بیٹھ جاتی ہیںتو اس سے معمولاتِ زندگی میں حرج پڑتا ہے، جس سے قوم اور قومی معیشت کا بہت ہرج ہوجاتا ہے۔ کوئی شخص کسی پر جھوٹا مقدمہ دائر کر دے تو مدعا علیہ کابڑاہرج ہوتا ہے۔بے چارہ کام کاج چھوڑ کر پیشیاں بھگتنے میں لگ جاتا ہے۔بعدکو ثابت ہو جائے کہ مقدمہ جھوٹا تھا تو عدالت مدعی کو حکم دیتی ہے کہ وہ مدعا علیہ کو ’ہرجہ خرچہ‘ ادا کرے۔ جرم کے مرتکب کوجرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دیدہ و دانستہ یا غلطی سے بھی کسی کا کوئی ہرج یعنی نقصان کر بیٹھے تو اُسے ’ہرجانہ‘ ادا کرنا پڑے گا۔ ہرجانہ زرِ نقصان، زرِ تلافی یا زرِ تاوان کو کہتے ہیں۔تاوان بھی کسی نقصان ہی کا معاوضہ ہوتا ہے۔ مگر اِغوا برائے تاوان والوں نے تاوان کو مُغویٰ کے مزید نقصان کا ذریعہ بنالیا ہے۔کوئی قوم کسی قوم سے لڑنے آئے، مگر شکست نہ دے پائے، خود پھنس جائے اور بھاگنا چاہے توجارح سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مجروح کے امن میں حارج ہوکر اس کا ہرج کرنے پر تاوانِ جنگ دیا جائے۔پر یہ مانتا کون ہے؟ افغانیوں کو روس نے تاوانِ جنگ ادا کیا نہ امریکا نے۔بہرکیف، تاوانِ جنگ بھی ’ہرجانہ‘ ہی ہے۔

ہرجانے پر یاد آیا کہ اُردو میں ایک ترکیب ’ہرجانا‘ بھی استعمال ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے ہار جانا۔مولانا الطاف حسین حالیؔ کھیلنے کو تو عشق کی بازی کھیل گئے، مگر جب انجام فاتحانہ نظر نہ آیا،ہر ُسو ہرج ہی ہرج دکھائی دیا، تب اُنھوں نے ناقدانہ نظر ڈالی اورفرمایا:

اِدھر ایک ہم اور زمانہ اُدھر
یہ بازی تو سَو بِسوے ہَر جائے گی

’سَو بِسوے‘ کا مطلب ہے کہ سَو( 100) میں جتنے بِیس (20) ہوتے ہیں وہ سب کے سب۔ سَو میں پانچ ہی بیس تو ہوتے ہیں۔ اس ترکیب کو ’سَو فی صد‘ کا متبادل جان لیجے۔ مولانا مرحوم کے زمانے میں لوگ بیس بیس کر کے سو کی گنتی تک پہنچا کرتے تھے۔مجازاً اس ترکیب کے معنی ہیں: ’غالباً، یقیناً، بے شک، بہر صورت‘۔