شہیدِ وفا، ڈاکٹر نذیراحمد

تمام جھوٹی خدائیوں کے
صنم کدوں کو گرانے والو!
تمھاری یادیں بسی ہیں دل میں
افق کے اس پار جانے والو!

ڈیرہ غازی خان سرداری نظام کا علاقہ ہے۔ لغاری، مزاری، کھوسے، دریشک، لُنڈ، بزدار اور دیگر قبائل کے سردار عوام پر مسلط ہیں۔ کسی عام آدمی کا ان کے مدمقابل کھڑے ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ اللہ کے شیر ڈاکٹر نذیراحمد نے جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے اس علاقے میں مقیم ہوئے تھے، بتوں کو توڑ دیا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں ڈاکٹر صاحب جماعت اسلامی کے امیدوار تھے۔ آپ نے سرداروں اور تمن داروں کو شکست دے کر سیٹ جیت لی۔ آپ نے قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس ہی میں اپنے خطاب میں مقتدر قوتوں کی رعونت کو مردانہ وار للکارا۔ اسی کے نتیجے میں آپ کو ماہِ جون 1972ء میں شہادت کی وادی میں اتار دیا گیا۔

میں8 جون کو بعد دوپہر رحیم یار خان پہنچا تھا۔رات کو خاصی دیر تک قاری صغیر حسین اور عبدالرزاق صاحبان کے ساتھ تحریکِ اسلامی کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ گفتگو میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کا ذکر بار بارآیا۔ آپ چند روز قبل صادق آباد کی ایک تربیت گاہ میں تشریف لائے تھے۔

رحیم یار خان کے ساتھیوں نے بھی ڈاکٹر صاحب سے 18جون کی تاریخ لے رکھی تھی، تمام کارکن اس دن کے منتظر تھے۔ ہم میں سے کسی کو علم نہ تھا کہ جس وقت ہم اپنے اس عظیم لیڈر کے بارے میں رات کو ستاروں کی چھائوں میں کھلے صحن اور گرم موسم میں بیٹھے یہ باتیں کررہے تھے وہ ہم سے رخصت ہوکر دور کسی وادیِ امن و سکون میں گہری نیند سو رہے تھے۔

ڈاکٹر صاحب سے باقاعدہ تعارف1968ء میں ہوا۔ میں اُن دنوں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کا ناظم تھا۔ مرکز جماعت اچھرہ میں مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہورہا تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب کو اسلامی جمعیت طلبہ کی شب بیداری کے ایک پروگرام میں شمولیت کی دعوت کے لیے ان کی خدمت میں اچھرہ حاضر ہوا تو وہ بیمار تھے۔اُس وقت ان کے پاس مولانا معین الدین (خٹک) صاحب اور کچھ دوسرے احباب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے تمام دوستوں نے ان کی بیماری کا حوالہ دیا۔ ناتجربہ کاری اور کم علمی کی وجہ سے میں نے اصرار کیا اور پھر فیصلے کے لیے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے، انھوں نے میرے شانے پر اپنا ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوئے آنے کا وعدہ کرلیا۔ وہ آئے، اور ان کی آمد سے ہماری وہ تربیتی نشست یادگار بن گئی۔ ان کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا، اخلاص سے دھلا ہوا اور عمل پر ابھارنے کے لیے تیر بہدف بنا ہوا تھا۔

اسی تربیتی نشست میں مولانا معین الدین صاحب کا درسِ حدیث تھا۔ طے پایا کہ ڈاکٹر صاحب مولانا معین الدین صاحب کے درسِ حدیث کے بعد خطاب فرمائیں گے۔ پروگرام کے مطابق مولانا معین الدین صاحب کا درسِ حدیث رات 11 بجے ختم ہوا۔ ڈاکٹر صاحب اس سے پانچ منٹ پہلے پروگرام کے مطابق معتمد لاہور جمعیت عبدالوحید سلیمانی کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا موضوع تھا ’’فریضۂ اقامتِ دین اور ہم‘‘۔ مولانا معین الدین صاحب ان کی تقریر سننے کے لیے وہیں رک گئے۔ تقریر رات بارہ بج کر دس منٹ تک جاری رہی۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے سوالات کے جوابات دیے۔ یہ سلسلہ ایک بجے تک چلا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے کارکنوں نے فرمائش کی کہ وہ اپنا تعارف کرائیں۔ انھوں نے محض اپنا نام، رہائش اور جماعت میں ذمہ داری تک اپنا تعارف محدود رکھا۔ پھر جب وہ مولانا معین الدین صاحب کے ہمراہ رخصت ہونے لگے تو ہم نے ایک کارکن کو ان کے ساتھ بھیجنا چاہا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: بھئی کسی کو تکلیف نہ دیجیے، ہم چلے جائیں گے۔ اور ڈاکٹر صاحب چلے گئے۔ مرحوم شہادت کے ساتھ بہت دور چلے گئے، مگر جاتے ہوئے انھوں نے کسی دوسرے کو کوئی زحمت نہیں اٹھانے دی۔ ان کے پاس چند کارکن موجود تھے، لیکن انہوں نے ہر گولی اپنے سینے پر روکی اور خاموشی سے چلے گئے۔

1970ء کے آخر میں، میں ساہیوال جیل سے ایک سال کی قید کاٹ کر رہا ہوا۔ ملتان میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب سے ایک پروگرام میں ملاقات ہوئی تو اجتماع کے بعد وہ مجھے اپنے دوستوں سے ملانے کے لیے لے گئے۔ میں اس شام ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملتان میں ان کے کئی دوستوں سے ملنے گیا۔ ہم جہاں بھی گئے وہاں میں نے دیکھا کہ ان کی آمد کی خبر سن کر گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی دوڑتے ہوئے آتے اور آکر ان سے لپٹ جاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اس شہید رہنما نے ہر جگہ پیار اور خلوص کے دیپ جلائے ہیں۔ اس نے ضلع ڈیرہ غازی خان کے جاگیردارانہ نظام میں جکڑے ہوئے لوگوں کے اندر عزت اور خودداری کی زندگی کا احساس پیدا کیا، پروانوں کو دوردراز کے ریگ زاروں سے اپنے گرد جمع کیا۔ وہ شمع محفل تھا اور پروانے اس کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔

ڈاکٹر شہید نے تحریکِ اسلامی کا پیغام اس بنجر زمین میں اس محنت سے پہنچایا کہ یہی سنگلاخ ضلع پنجاب کا سب سے زرخیز خطہ بن گیا۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں رہنے والوں نے اس مومن صادق کو اپنے دکھ درد میں شریک پایا۔ شہر کے باسیوں نے اسے ہر حال میں اپنا غم گسار قائد پایا۔ بچوں نے اسے دیکھا تو خوشی سے ان کے چہرے دمک اٹھے، کیوں کہ اس کا دستِ شفقت ایک باپ کی طرح ان کے سروں پر رہتا۔ بوڑھوں سے وہ ملا تو اس طرح جیسے ایک سعادت مند نوجوان اپنے بزرگوں سے ملتا ہے۔ نوجوانوں نے اسے دیکھا تو مصائب اور مشکلات میں جینے کا حوصلہ پایا۔ یہ انسان زندگی بھر روشنی کا پیغام بن کر جیا اور جب رخصت ہوا تو اس کی موت بھی قابل ِ رشک بن گئی۔

میں مارچ1970ء میں کیمپ جیل لاہور سے سنٹرل جیل ساہیوال منتقل کیا گیا۔ یہ ایک بڑی جیل ہے۔ یہاں بلوچ قیدیوں کی بہت بڑی تعداد مقید تھی۔ یہ تمام قیدی نماز روزے کے پابند اور متشرع تھے۔ ان کا قائد ایک ستّر سالہ بوڑھا بلوچ منگن خان تھا جس کی قید 48 برس تھی۔ منگن خان کو اس بڑھاپے میں بھی خطرناک قیدی سمجھ کر ’’چھ چکی‘‘ میں بند کیا گیا تھا (اس جگہ خطرناک قیدیوں کی خصوصی نگرانی کا اہتمام ہوتا ہے)۔ میں بھی دو مرتبہ معافی نامے کے ذریعے رہائی کی پیش کش ٹھکرانے کی وجہ سے ’’خطرناک‘‘ قیدیوں کے زمرے میں لکھ دیا گیا اور اس وارڈ کی ایک کوٹھڑی میں مجھے بند کردیا گیا۔ منگن خان سے نماز کے وقت ملاقات ہوجاتی تھی۔ ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں ہم سب قیدیوں نے احاطے کے اندر باجماعت ادا کرنی شروع کردی تھیں۔

ایک روز میں اخبار میں ڈاکٹر صاحب کا بیان پڑھ کر قیدیوں کو سنا رہا تھا کہ منگن خان وہاں آیا۔ وہ ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر خوشی سے اچھل پڑا اور کہنے لگا ’’میں نے زندگی میں اس سے زیادہ دلیر اور جرات مند شخص کوئی نہیں دیکھا۔ ماں نے شیر جنا ہے۔‘‘ منگن خان نے بتایا ’’میں نے ڈاکٹر کی جیل کی زندگی دیکھی ہے۔ کئی مرتبہ مختلف جیلوں میں وہ ہمارے ساتھ مقید رہا۔ وہ راتوں کو تہجد اور نوافل اور قرآن خوانی میں جیل کی کال کوٹھڑیوں کو آباد کیا کرتا تھا، اور دن کے وقت وہ قیدیوںکے حقوق کے لیے افسرانِِ بالا کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا تھا۔ وہ اکثر ہمارے ساتھ سی کلاس میں رکھا جاتا۔کبھی کبھار ڈاکٹر کو بی کلاس بھی مل جاتی تو عملاً ہمارے ساتھ سی کلاس میں ہی رہتا۔ وہ اپنا کھانا لے کر عام قیدیوں کے درمیان آجاتا اور سب کے ساتھ مل کر کھاتا۔‘‘

رحیم یار خان سے صبح سویرے ہم تین ساتھی عازمِ ڈیرہ غازی خان ہوئے۔ کبھی باہمی گفتگو، کبھی خاموشی اور غم، سوچوں کا سفر اور ماضی کے جھروکے! عجیب سفر تھا۔ اب ہم بس میں بیٹھے رحیم یار خان سے ظاہر پیر اور چاچڑاںکے راستے ڈیرہ غازی

خان جارہے تھے۔ ہم وہاں وقت پر نہیں پہنچ سکے، اگرچہ ڈرائیور نے یہ معلوم ہوتے ہی بس چلا دی تھی کہ ہم ڈیرہ غازی خان جا رہے ہیں۔ اسے بس چلاتے ہوئے دیکھ کر کنڈکٹر لپک کر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’بس کیوں چلا دی، ابھی بس خالی ہے۔‘‘ ڈرائیور کا جواب تھا ’’پیسے تو روز کماتے ہیں،آج پیسے کمانے کا دن نہیں۔ ان لوگوں کو ڈاکٹر صاحب کے جنازے میں شریک ہونا ہے۔‘‘ لیکن ہم پیچھے رہ گئے اور ڈاکٹر صاحب آگے نکل گئے۔ وہ ہمیشہ ہم سے بہت آگے رہتے تھے۔

ظاہر پیر سے ہم مظفر گڑھ پہنچے اور وہاں سے ڈیرہ غازی خان کی بس میں سوار ہوئے۔ رحیم یار خان سے ڈیرہ غازی خان تک ہمارے پورے سفر کے دوران ہر بس اور راستے کے ہر اسٹاپ پر شہید کے تذکرے تھے۔ لوگ اسی موضوع پر گفتگو کررہے تھے۔ اداس چہروں پر ایک ہی کہانی لکھی ہوئی تھی۔ ہم ساڑھے آٹھ بجے شب ڈیرہ غازی خان پہنچے۔ ایک تانگے میں سوار ہوکر منزل پر آئے۔ تانگہ بان لڑکے سے کرایہ پوچھا تو اس نے کہا: آج کوئی کرایہ نہیں۔ ہم نے اصرار کیا تو روتے ہوئے کہنے لگا: آپ میرے باپ کی تعزیت کے لیے آئے ہیں، میں آپ سے کرایہ لوں؟ اس تانگہ بان نے ہم سب کو رُلا دیا۔

اب ہم شہید کی قبر کے گرد کھڑے تھے۔ رات کا وقت تھا مگر لوگوں کا ایک ہجوم امڈا چلا آرہا تھا۔ آنکھوں میں آنسو، چہروں پر عقیدت، زبانوں پر تلاوتِ قرآن مجید، کلمہ طیبہ اور درود شریف۔ ہزاروں دل دھڑک رہے تھے۔ لاکھوں دل دھڑک رہے ہیں۔ میں نے بے ساختہ کہا: ڈاکٹر صاحب!کون کہتا ہے کہ آپ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں؟

جس سمت قدم اٹھ جاتے ہیں،خود منزل آگے آتی ہے
یہ راز کچھ ایسا راز نہیں،آسودۂ منزل کیا جانیں

 

ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ…حقیقی جمہوری رہنما

اظہر منظور المانی

ڈاکٹر نذیر احمد کو شہید ہوئے 51 برس بیت گئے، اس کے باوجود وہ اہلِ پاکستان کے دلوں میں زندہ ہیں۔ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بات ہوگی تو ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ کا ذکر ضرور ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب سے پاکستان بھر کے اسلام پسند عوام بالعموم اور ڈیرہ غازی خان کے عوام بالخصوص والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ثابت کیا کہ وسائل کی قلت کے باوجود رائے عامہ کی بیداری سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ جماعت اسلامی کے رہنما اور ڈیرہ غازی خان کے عوامی قائد تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور پیروں کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ حق گو، بے باک اور جری انسان تھے۔ 1971ء میں سانحۂ سقوطِ ڈھاکا کے بعد جبکہ مغربی پاکستان کے عوام مضطرب اور رنجیدہ تھے، ایوان میں ڈاکٹر صاحب نے محب وطن اہلِ پاکستان کی صحیح ترجمانی کی، وقت کے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہا۔ ان کی حق گوئی ان کی شہادت کا سبب بنی۔ 8 جون 1972ء کو ان کو ڈیرہ غازی خان میں شہید کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے لیے کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جمہوریت کے دعویدار حزبِ مخالف کے ایک رہنما کی تنقید برداشت نہ کرسکتے تھے، بلکہ ان کی تقریروں اور تنقید سے لرزاں تھے، اور ان کو راستے سے ہٹانے کے لیے انتہائی منفی ہتھکنڈا استعمال کیا۔

ہر وہ شخص جو جمہوریت پر یقین رکھتا ہے اُسے ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ کی سوانح کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ جماعتی، گروہی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر ہر جمہوری جدوجہد کرنے والے ہر سیاسی کارکن کو ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے متعلق ضرور آگہی ہونی چاہیے کہ کس طرح ایک عام فرد، کھدر پوش، سائیکل سوار اور وسائل سے تہی دامن شخص رائے عامہ کی بیداری، جہدِ مسلسل، خدمتِ خلق اور جمہوری قدروں کے ذریعے تبدیلی لایا کہ نیم قبائلی طرز کے معاشرے میں عوام نے سرداروں اور جاگیرداروں کو مسترد کیا اور اس شخص کو اپنا حقِ نمائندگی دیا۔ بعض سیاسی و سماجی ماہرین جمہوریت کو سرمائے اور دولت کا کھیل کہتے ہیں، مگر ڈاکٹر صاحب نے اُن کے اس فلسفے کی تردید کرکے دکھائی اور باور کروایا کہ خدمتِ خلق، رابطۂ عوام، اخلاص اور محبت کے ذریعے عوام کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے۔

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرے وہی فاتح زمانہ

فاضل پور (موجودہ ضلع راجن پور) کے نوجوان نذیر احمد نے گورنمنٹ ہائی اسکول راجن پور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو والدین نے انٹرمیڈیٹ کے لیے ایمرسن کالج ملتان میں داخل کروادیا۔ ایمرسن کالج میں ہی ان تک سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت پہنچی تو دل و دماغ کی دنیا بدل گئی اور تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ سید بادشاہ کی انقلابی دعوت پر اعلائے کلمۃ اللہ اور اقامتِ دین کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ روزگار کے لیے طب کا پیشہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے لاہور میں سینٹرل ہومیوپیتھک میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ تعلیم کی تکمیل پر قائدِ تحریکِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت پر فاضل پور سے ڈیرہ غازی خان منتقل ہوئے اور اس شہر کو مسکن اور مرکز بناکر دعوتِ دین کا کام شروع کیا۔ حالات انتہائی نامساعد اور حوصلہ شکن تھے۔ وسائل بالکل نہ تھے۔ ہمنوا ساتھی بھی نہ تھے۔ بے سرو سامانی، کٹھن اور مایوس کن حالت میں ناامید ہونے کے بجائے اللہ پر توکل رکھتے ہوئے دعوت اور تنظیم سازی کے کام کا آغاز کیا۔

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش حق نے جس کو دیے ہوں اندازِ خسروانہ

آپ کو جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع مظفر گڑھ (موجودہ چار اضلاع ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ اور راجن پور) کا امیر بنادیا گیا۔، آپ نے اللہ کی تائید و نصرت کے ساتھ دعوتِ دین کے کام کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں اضلاع میں نظمِ جماعت قائم ہوگیا اور اسلامی انقلاب کے دستے تشکیل پانے لگے۔ قدرت نے آپ کو بہترین داعی کے ساتھ ساتھ اچھے منتظم کی خصوصیات سے بھی نوازا تھا۔ جہدِ مسلسل، عرق ریزی اور سخت محنت سے دونوں اضلاع کے ہر بڑے قصبے میں جماعت کے کام کا آغاز ہوگیا۔ ضلع مظفر گڑھ میں نظمِ جماعت کے قیام کے بعد آپ نے ضلع ڈیرہ غازی خان کے دور دراز کے گائوں اور قصبات میں بھی تحریکِ اسلامی کی بنیادیں ڈالیں۔ آپ دعوت، تنظیم اور تربیت تینوں کاموں پر توجہ رکھتے۔ صالح اور اسلام کی سربلندی کے لیے تڑپ رکھنے والے مسلمانوں کو منظم کرتے، اور انہیں اقامتِ دین کے کام پر لگا دیتے۔ آپ نے ڈیرہ غازی خان کی سخت اور سنگلاخ سرزمین میں اسلامی انقلاب کا بیج بویا، پھر اپنے خون سے اس کھیت کی آبیاری کی اور تحریکِ اسلامی کی ایک لہلہاتی ہوئی فصل تیار کردی۔

ڈیرہ غازی خان بلوچ اکثریتی اور نیم قبائلی طرز کا ضلع ہے۔ لغاری، کھوسہ، بزدار، دریشک، مزاری، قیصرانی، لُنڈ، گورچانی اور لاشاری سرداروں کو انگریز حکومت نے تمّن قائم کرکے یہاں ان کی حکومتیں قائم کردی تھیں۔ یہ تمن دار سردار یہاں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ یہاں دعوت اور تنظیم کا کام کرنا معمولی بات نہ تھی، مگر آپ نے حکمت، تدبر، جرأت اور صبر و تحمل کے ساتھ کام کیا اور تحریکِ اسلامی کے کارکنان کی بڑی جماعت تیار کردی۔

پاکستان کی تخلیق دو قومی نظریے پر ہوئی، ریاست پاکستان واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آئی۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں ’’پاکستان کا مطلب کیا… لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ برصغیر کے طول و عرض میں گونجتا رہا۔ اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر اسلامیانِ برصغیر نے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ اپنی جائدادیں، کاروبار، گھر بار، حتیٰ کہ اپنی عزت و ناموس کی قربانیاں دیں، لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت کی وجہ لاالٰہ الااللہ کا نعرہ بنا۔ اسی نعرے کی بنیاد پر مسلم لیگ مسلمانانِ برصغیر کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کا بٹوارا ہوا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم کی رحلت سے ایک مخصوص ذہنیت کے حامل طبقے نے جس کی ذہنی پرورش مغرب کے ملحدانہ نظریات برطانوی غلامی کے ماحول میں ہوئی تھی، خاص مقاصد کے تحت ایک زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیا کہ پاکستان کو سیکولر اور لبرل ہونا چاہیے۔

قائداعظم کے بعد برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے نظریہ پاکستان کو پسِ پشت ڈالا اور لاکھوں شہدا کے خون سے غداری کرتے ہوئے نفاذِ اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیںبلکہ پاکستان کے اساسی نظریے سے انحراف کیا۔

اسلامی نظام کے نفاذ اور نظام مصطفیؐ کی خاطر جماعت اسلامی پاکستان کی مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ رائے عامہ کی بیداری سے اسلامی انقلاب پربا کیا جائے۔ اسی کام کی خاطر جماعت نے 1970ء کے پہلے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد کو مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی نشست NW-88 سے انتخابات میں حصہ لینے کا حکم ملا۔ آپ کے مقابلے میں پنجاب کے سب سے بڑے جاگیردار سردار محمد خان لغاری (سابق صدر فاروق لغاری کے والد)، پیپلزپارٹی کے سردار منظور خان لُنڈ، ملک بھر میں مشہور و معروف تونسہ کی روحانی درگاہ کے سجادہ نشین پیر خواجہ قطب الدینؒ اور جمعیت علمائے اسلام کے معروف رہنما مولانا عبدالستار تونسوی تھے۔ اس بوریا نشیں کے مقابلے میںتمام امیدوار وسائل اور اسباب سے مالا مال تھے، لیکن انتخابات کے نتائج نے دنیا کو حیران کردیا۔ جاگیرداروں، سرداروں اور پیروں کو عوام نے مسترد کرتے ہوئے کھدر پوش، سائیکل سوار درویش صفت انسان کو اپنا نمائندہ چن لیا۔

1970ء کے انتخابات میں علاقائی جماعتوں کو کامیابی ملی، نتیجتاً ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کا مکروہ نعرہ بلند ہوا۔ علاقائی اور لسانی عصبیت کی بنا پر ملک دو لخت ہوگیا۔ 20 دسمبر 1971ء کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کردیا۔ اسمبلی میںڈاکٹر صاحب کی بے باک تقاریر، تجزیوں، تنقید اور جرأت مندانہ مؤقف نے ذوالفقار علی بھٹو جیسے جمہوری آمر کو ہراساں اور خوف زدہ کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے برملا ملک توڑنے کا ذمہ دار مسٹر بھٹو کو قرار دیا۔ اپریل 1972ء میں گورنر ہائوس پنجاب میں کھر بھٹو ملاقات میں ڈاکٹر صاحب کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا۔ کرائے کے قاتلوں کے ذریعے 8 جون 1972ء کو ڈاکٹر صاحب کو ان کے کلینک میں شام کے وقت شہید کردیا گیا۔

ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے جبکہ آپ کے قاتل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا ٹھیرے۔ مولانا مودودیؒ نے کہاکہ ہم ڈاکٹر صاحب کے قتل کا مقدمہ دنیا کی عدالت میں نہیں بلکہ رب کی عدالت درج کرواتے ہیں۔ دنیا قاتلوں کا انجام دیکھ چکی۔
نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا لیکن آپ اہلِ پاکستان کے دلوں میں زندۂ جاوید ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ڈاکٹر نذیر احمد شہیدؒ کے خونِ ناحق کے بدلے ظلم، جبر، استحصال پر مبنی نظام لپٹ جائے گا اور اسلامی انقلاب کا شاندار سورج طلوع ہوگا۔

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے!