صرف احتیاط ہی اس مہلک مرض سے بچائو کا طریقہ کار ہے
حالیہ خبروں کے مطابق کراچی میں ”نگلیریا“ نامی ایک مہلک بیماری کی وبا پھیلی ہے۔ کراچی میں ہر سال گرمیوں کے موسم میں تازہ پانی میں پائے جانے والے امیبا کے سبب اموات سامنے آتی ہیں۔ گرمیوں کے آغاز میں ایک ہفتے کے دوران میں ’دماغ کھا جانے والے امیبا‘ نگلیریاکے باعث ایک خاتون سمیت 3 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ڈان کی ایک خبر کے مطابق متاثرہ افراد میں قیوم آباد کورنگی کی رہائشی 32 سالہ خاتون گلشن، پاکستان رینجرز کے ملازم اور سرجانی ٹاؤن کے رہائشی 45 سالہ محمد آصف، اور صدر کا رہائشی ایک 19 سالہ نوجوان ظاہر شاہ شامل ہیں۔ محکمہ صحت کے جاری کردہ بیان کے مطابق متاثرہ خاتون کے شوہر نے بتایا کہ خاتون کی والدہ پٹیل اسپتال میں داخل تھیں جہاں وہ عیادت کے لیے گئی تھیں، اس دوران انہوں نے وضو کرکے نمازِ عصر ادا کی اور مغرب ہوتے ہی گھر روانہ ہوگئیں۔ پھر بعد میں ان کے سر میں درد اٹھا جس پر وہ پیناڈول کھا کر سوگئیں، تاہم رات 4 بجے ہی انہیں الٹی اور اسہال کی شکایت ہوئی، جس پر انہیں صبح 9 بجے اسپتال پہنچایا گیا، اس دوران ان کے سر درد میں کمی نہیں ہوئی۔ بعد ازاں کیے گئے ٹیسٹس میں 24 مئی کو ان کے نگلیریاسے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی اور اسی رات 10 بجے وہ دم توڑ گئیں۔ محکمہ صحت کے مطابق ممکنہ طور پر خاتون اسپتال میں وضو کرنے کے دوران نگلیریاکا شکار بنیں۔ دوسرے متاثرہ مریض محمد آصف تھے جنہیں 23 مئی کو سر درد کی شکایت ہوئی اور پھر الٹیاں لگ گئیں، جس پر انہیں رینجرز اسپتال نارتھ ناظم آباد لے جایا گیا جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد دی گئی۔ تاہم اگلے روز طبیعت مزید بگڑنے پر انہیں پی این ایس شفا اسپتال منتقل کیا گیا، یہاں انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا اور بعد ازاں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا، لیکن 26 مئی کو ان کی حالت مزید تشویش ناک ہوگئی اور علی الصبح ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ لانڈھی جیل کی سیکورٹی پر مامور تھے اور رینجرز ہیڈکوارٹرز منزل پمپ میں رہائش پذیر تھے۔ اس دوران میں وہ صرف ایک مرتبہ تقریباً ایک ہفتہ قبل اپنے گھر سرجانی ٹاؤن گئے لیکن وہاں وضو یا غسل نہیں کیا تھا۔ تیسرے متاثرہ مریض کے بارے میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے حکام نے بتایا کہ 19 سالہ ظاہر شاہ پیشے کے لحاظ سے بیرا اور صدر کا رہائشی تھا۔ نوجوان کو شدید بخار، سر درد اور الٹیوں کی شکایت تھی جسے ہفتہ 27 مئی کو تشویش ناک حالت میں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، تاہم اس کی حالت میں بہتری نہ آسکی اور 28 مئی کو اس کا انتقال ہوگیا۔ اس سنگین صورت حال پر سندھ حکومت نے گزشتہ دنوں آگاہی کا ایک اشتہار بھی دیا تھا، لیکن حکومت کو اس سے بڑھ کر کچھ کرنے، اور خاص طور پر شہر میں داخل ہونے والے پانی کو اس سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔
نگلیریاایک نایاب لیکن مہلک بیماری ہے جو دماغ اور اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک خوردبینی جان دار کی وجہ سے ہوتی ہے جسے Naegleria fowleri کہتے ہیں۔ اس مضمون کا مقصد عام لوگوں کو نگلیریاکے بارے میں آگاہ کرنا اور اس مہلک بیماری سے بچاؤ اور علاج کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔
کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
نگلیریاایک بہت ہی نایاب بیماری ہے، جس کے سال میں پوری دنیا میں صرف چند کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ لیکن اب یہ ہورہے ہیں اور لوگوں میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ اس کی آسٹریلیا میں پہلی بار 1965ء میں شناخت ہوئی تھی جب ایک بچہ آلودہ پانی میں تیرنے سے مر گیا تھا۔ اس کے بعد سے امریکہ، یورپ اور ایشیا سمیت دنیا بھر میں نگلیریاکے کئی مریضوں کی رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اگرچہ اس بیماری کو اب بھی نایاب سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی اور دیگر ماحولیاتی عوامل بھی ہیں۔ نگلیریادماغ کھانے والا امیبا ہے جو عام طور پر میٹھے پانی کے گرم ماحول جیسے جھیلوں، ندیوں اور گرم چشموں میں پایا جاتا ہے۔ یہ پانی کے 30 اور 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان درجہ حرارت میں پروان چڑھتا ہے۔ امیبا عام طور پر جب کھایا جاتا ہے تو بے ضرر ہوتا ہے، کیونکہ یہ پیٹ کے تیزاب سے مارا جاتا ہے۔ اور جب کوئی شخص آلودہ پانی میں تیراکی کررہا، یا غوطہ لگا رہا ہو تو یہ ناک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔ امیبا ایک بار جسم کے اندر دماغ تک پہنچنے کے لیے ولفیکٹری اعصاب کا سفر کرتا ہے، جہاں یہ دماغ کے بافتوں کو کھانا شروع کردیتا ہے۔
نگلیریاکی علامات:
نگلیریاکی علامات عام طور پر آلودہ پانی کے سامنے آنے کے ایک سے 14 دنوں کے اندر ظاہر ہوتی ہیں۔ ابتدائی علامات فلو سے ملتی جلتی ہیں، بشمول بخار، سر درد، متلی اور الٹی۔ جیسے جیسے مرض بڑھتا ہے، علامات زیادہ شدید ہوجاتی ہیں، جن میں الجھن، فریبِ نظر، دورے اور کوما شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ بیماری عام طور پر مہلک ہوتی ہے، جس کی شرح اموات 97 فیصد تک ہوتی ہے۔
نگلیریاسے کیسے بچا جائے؟
جب نگلیریاکی بات آتی ہے تو روک تھام کی کلیدی حیثیت ہوجاتی ہے، اور ایسے کئی اقدامات ہیں جو آپ انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے گرم میٹھے پانی کے ذرائع جیسے جھیلوں، ندیوں، یا گرم چشموں میں تیراکی یا غوطہ خوری سے گریز کریں، خاص طور پر گرمیوں کے مہینوں میں جب پانی کا درجہ حرارت زیادہ ہو۔ اگر آپ کو تیرنا یا غوطہ لگانا ہے تو امیبا کو ناک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ناک کا کیپ ضرور لگائیں۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اپنے سر کو گرم ٹبوں یا سوئمنگ پولز میں پانی کے اندر رکھنے سے گریز کریں، کیونکہ یہ عمل بھی نگلیریاکا باعث بن سکتا ہے۔ اور ہمیشہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا سوئمنگ پول یا گرم پانی کا ٹب مناسب طریقے سے رکھا ہے اور کلورین یا دیگر مناسب کیمیکلز سے جراثیم کُش ہے۔
نگلیریاکا علاج:
بدقسمتی سے نگلیریاکا کوئی خاص علاج نہیں ہے، اور یہ بیماری اکثر مہلک ہوتی ہے۔ تاہم جلد تشخیص اور علاج زندہ رہنے کے امکانات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ علاج میں عام طور پر اینٹی فنگل اور اینٹی بیکٹیریل ادویہ کے ساتھ ساتھ دماغ کی سوجن اور دیگر علامات کو کنٹرول کرنے والی دوائیں شامل ہوتی ہیں۔
کنسلٹنٹ فزیشن جناح اسپتال ڈاکٹر محمد عمر سلطان کے مطابق ”نیگلیریا کوئی بیکٹیریا یا وائرس نہیں ہے بلکہ ایک خلوی جان دار امیبا کی ایک قسم ہے جو دوسروں سے خوراک حاصل کرتا ہے، یہ جان دار صاف پانی میں پایا جاتا ہے اور عام طور پر تالاب، سوئمنگ پول یا گھر میں پانی کی ٹنکیوں میں ملتا ہے۔ متاثر ہونے والے فرد کو پہلے ہلکا سر درد ہوتا ہے جس کے بعد بخار اور غنودگی طاری ہونے لگتی ہے، طبیعت زیادہ خراب ہونے پر جب اسپتال لایا جاتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور تب تک یہ جرثومہ فرد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے“۔ وہ کہتے ہیں کہ ”جرثومے سے متاثر ہونے کے بعد علاج بہت مشکل ہے، اس لیے صرف احتیاط سے ہی اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ نیگلیریا جراثیم پانی میں کلورین یا کپڑے دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بلیچ سے ختم ہوجاتا ہے، اس لیے لوگ اپنے گھروں کی ٹنکیوں میں کلورین کا استعمال کریں۔“
یاد رکھیں، پرہیز ہمیشہ علاج سے بہتر ہوتا ہے، لہٰذا خود کو اور اپنے پیاروں کو نگلیریاسے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کریں، محفوظ رہیں، صحت مند رہیں، اور دماغ کھانے والے امیبا کی پریشانیوں کے بغیر گرمیوں کا لطف اٹھائیں!