بالٹی مور میں اکنا کے تین روزہ 48 ویں کنونشن کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس میں ہمارے ایک محسن تحریکی خاندان کے سات بھائی، دو بہنوں اور بہنوئی اور ان کے گھرانوں کے تمام افراد نے شرکت کی اور اس کنونشن کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خاندان کے ہر فرد کا اوڑھنا بچھونا ہمیشہ ہی دین سے محبت، اس کے پیغام اور دعوت کو عام کرنے کی جدوجہد رہا ہے۔ اس خاندان کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود قرون اولیٰ کے افراد لگتے ہیں جن کو دین کی سربلندی کے لیے کام کام کام اور کام کے سوا کسی اور بات سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی دلچسپی۔ پاکستان بھر میں ایسے خاندانوں کی کمی نہیں، ان کی تعداد سیکڑوں اور ہزاروں ہوسکتی ہے، لیکن ہمیں کراچی میں رہتے ہوئے 63 اور تحریک اسلامی سے وابستگی کے 59 برسوں کے دوران جن فنا فی التحریک خاندانوں کا علم ہے، اُن میں اس خاندان کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے پہلے اور بانی گورنر زاہد حسین کے بھانجے اور جماعت اسلامی کے اہم رہنما مرحوم خرم جاہ مراد، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، محمود آباد کے شہزاد احمد مرحوم، اکنا کے صدر ڈاکٹر محسن انصاری، جنگ کے 15/20 سال تک اداریہ لکھنے والے معروف صحافی، مصنف اور چار زبانوں اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں مہارت رکھنے والے خالد فاروقی، سینیٹر مشتاق احمد کے سسرالی غلام سرور ملک، شمشاد علی یوسف، ندیم اللہ حسینی گھڑی ساز، پروفیسر یوسف منصوری، پروفیسر محمد اسحاق منصوری اور یحییٰ منصوری، زبیر منصوری اور اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے سابق ناظم اور معتمد جمعیت کراچی آصف صدیقی کے خاندان قابلِ ذکر ہیں۔
حکیم یامین صدیقی کے خاندان سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ اس کی کہانی بڑی طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ لیکن ہم اِس تحریر میں اس کا صرف مختصر خلاصہ ہی بیان کریں گے، اس کا پورا احوال ہم اپنی یادداشتوں میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ اس خاندان کے مرنجاں مرنج اور فلسفی ایک بزرگ زکریا صدیقی گزرے ہیں، جو ہر کسی کے بڑے ہمدرد اورخیر خواہ تھے اور ضرورت مندوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے، جس کے ہم گواہ ہیں، اور انہوں نے ہمیں 1965ء میں اُس وقت سہارا دیا اور حوصلہ افزائی کی جب ہم بی اے کے فائنل میں تھے اور سالانہ امتحان میں صرف تین ماہ باقی تھے۔ ہم نے کے پی ٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا اور مالی طور پر ہم بڑی مشکلات کا شکار ہوگئے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر نہ صرف فوری طور پر ہمارے ساتھ مالی تعاون کیا بلکہ اپنے ساتھ پرنٹنگ کے کام میں شراکت داری کی پیشکش بھی کی اور اس پر عمل بھی کیا۔ اور پھر وقت بڑی تیزی سے گزرتا ہے اور پلک جھپکتے 36 سال کا عرصہ ہوجاتا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگتی ہے اور ہمارا بیٹا ڈاکٹر جواد عارف ایک نئے یردیس امریکہ میں آتا ہے۔ وہ اسلامی سرکل آف نارتھ امریکہ (اکنا) کے دفتر کا پتا پوچھ کر جمیکا ہل سائیڈ آتا ہے اور وہاں اسے اُسی بزرگ کے بھتیجے معوذ اسعد صدیقی ملتے ہیں اور ماضی کے اس تعلق کو جانے بغیر وہ اس کا اسی طرح ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ معوذ نے نئے دیس اور نئے شہر نیویارک میں ہمارے بیٹے ڈاکٹر جواد کا پوری طرح ساتھ دیا اور بڑے بھائی کی طرح اس کا بڑا خیال رکھا۔ معوذ اکنا ریلیف میں اہم عہدے پر فائز ہیں اور اس کی فنڈ ریزنگ کے لیے پورے امریکہ کے دورے کرتے ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور دنیا نیوز چینل کے امریکہ میں بیورو چیف ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ اکنا کے کنونشن میں وہ اردو مشاعرے کے ناظم کے علاوہ کنونشن کی میڈیا کمیٹی کے سربراہ اور کنونشن کی میڈیا کوریج کے ذمہ دار تھے۔ کنونشن میں معوذ کے سب بھائیوں اور بہنوں نے شرکت کی اور اس میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، ان میں یعقوب مسعود صدیقی، احمد سعود صدیقی، احمد سعد صدیقی، معاذالمساعد صدیقی، سعادت ابراہیم صدیقی اور اسمٰعیل سعید صدیقی، اور بہنیں عائشہ سعیدہ صدیقی (مرحومہ)، فاطمہ سعدیہ صدیقی اور رابعہ ساعدہ صدیقی شامل ہیں۔
اس خاندان کا ہر فرد پاکستان اور امریکہ میں تحریکِ اسلامی کے قافلے کے ہراول دستے میں شامل ہونا اپنے لیے باعثِ اعزاز و فخر سمجھتا ہے۔ ان کے والد کراچی کی مشہور سیاسی اور سماجی شخصیت حکیم یامین تھے۔ جماعت اسلامی سے تعلق ان کی پہچان اور شان تھی۔ وہ خدمتِ خلق اور دکھی انسانیت کی وقت بے وقت اور مفت طبی امداد کی فراہمی کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھے۔ انہوں نے اپنی حکمت کو لوگوں کی خدمت کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔ ان کا گھر ہر وقت ہر ضرورت مند کے لیے کھلا رہتا تھا، دن ہو یا آدھی رات وہ مریضوں کے لیے حاضرِ خدمت رہنا عبادت خیال کرتے تھے، اور اگر مریض ان کے پاس آنے کی سکت نہ رکھتا ہو تو دن ہو یا رات، وہ خود چل کر اس کے گھر جاتے اور اس کا علاج کرتے۔ اُن کی اِن خدمات کے اعتراف کے طور اُن کے علاقے کے لوگ انہیں ہمیشہ بلدیاتی انتخاب میں کامیاب کراتے تھے۔ حکیم یامین کے بارے میں ان کے بیٹے اسمٰعیل صدیقی نے یومِ والد کے موقع پر “ابا” کے نام سے ایک تحریر لکھی تھی جس میں ان کی ہردلعزیز شخصیت کا ہر پہلو سامنے آجاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”کل سوشل میڈیا پر ”فادرز ڈے“ پر سیلفیوں، کیکوں اور پھولوں کی بہار دیکھی تو بے اختیار ابا یاد آگئے۔ پہلی یاد جو آئی وہ ابا کی ”ایس ایچ ایل“ موٹرسائیکل کی وہ آواز تھی جو گلی کے کونے سے ہی آجاتی تھی اور اس کو سن کر ہم بھاگ کر گھر سے باہر استقبال کے لیے جایا کرتے تھے۔ ابا کے ساتھ میری کوئی سیلفی یا انفرادی فوٹو نہیں۔ پوری فیملی کے ساتھ بھی شاید ایک آدھ ہی تصویر ہوگی۔ ایک یقینی وجہ تو یہ ہے کہ وہ سیلفی کا زمانہ نہ تھا، اگر ہوتا بھی تو شاید تب بھی نہ ملتی۔ مجھے نہیں یاد کہ ابا نے کبھی ہماری سالگرہ پر کیک یا آئس کریم منگوا کر تصویر کھنچوائی ہو، یا پھر ہمارے کسی ایونٹ میں آکر ”گریٹسٹ ڈیڈ ان دی ورلڈ“ ہونے کا ثبوت دیا ہو، کبھی ہماری پڑھائی کے متعلق تفصیل جاننے کی کوشش کی ہو… میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ ابا کو یہ بھی پتا ہوگا کہ ہم لوگ کون کون سی کلاس میں ہیں۔ تو پھر وہ کیا اچھے باپ نہ تھے؟
ابا نے جو ہمیں دیا وہ آج کل کے فیس بک کی نسل کے والدین (جو اپنی اولاد سے محبت کو بھی تشہیر کا محتاج سمجھتے ہیں.. مجھ سمیت) دینے کا تصور نہیں کرسکتے۔ ابا نے ہمیں معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا۔ اپنے خدمتِ خلق کے کام سے ایک ایسی عزت ہمارے تمام بہن بھائیوں کو فراہم کی جس کا احسان ہم مرتے دم تک نہیں چکا سکتے۔ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک جب آپ کا استاد صرف اس وجہ سے آپ کی عزت کرے کہ حکیم صاحب کے بیٹے ہیں تو کیا گلہ رہ جاتا ہے کہ ابا کو یہ تک پتا نہیں کہ ہم کون سی کلاس میں ہیں! جب کوئی کاریگر کام کرنے کے بعد آپ سے یہ کہے کہ ”ہم حکیم صاحب کے خاندان سے کیسے پیسے لے سکتے ہیں… گناہ گار نہ کریں“ تو پھر کیا شکایت کہ ابا کو ہماری سالگرہیں یاد نہیں… جب پورا محلہ نگران بن کر کہے ”حکیم صاحب کے بیٹے ہوکر ایسی بات…“ تو پھر ذاتی وقت نہ دینے کی کیا شکایت!
ابا نے ہمارے لیے کوئی جائداد نہیں چھوڑی مگر جو چیز چھوڑی ہے وہ اربوں کی جائداد سے بڑھ کر ہے، اور وہ چیز ہے ہم بہن بھائیوں میں محبت… اللہ اس کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ جائداد چھوڑتے بھی کیسے! بچپن سے ابا کے مطب پر آتے جاتے تھے، ہمیشہ دیکھا کہ ابا کسی بھی جاننے والے اور اکثر غریب نہ جاننے والے لوگوں کے نسخے پر ”ف“ لکھتے ہیں۔ بہت بعد میں پتا چلا کہ ”ف“ کا مطلب ہے ”فری“۔ یہ ”ف“ صرف فری وزٹ نہیں تھا، اس کا مطلب تھا فری دوا۔ یعنی اس دوا کا خرچہ بھی ابا کے ذمے ہے۔ آج کل کے دور میں دیکھا جائے تو بزنس کے لحاظ سے یہ نرا پاگل پن ہے۔۔ میرا خیال ہے اسلام کی ایک اصطلاح جس کا ترجمہ کم از کم انگلش میں کرنا ممکن نہیں، وہ ہے ”برکت“۔ ہمیں نہیں یاد کہ اتنا بڑا کنبہ ہونے کے بعد بھی کبھی ہمیں کسی محرومی یا تنگی کی شکایت ہوئی ہو۔“
حکیم یامین خان کا خاندان صدیقی کہلاتا ہے۔ وہ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ حکمت کی تعلیم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی۔ جماعت اسلامی میں شریک ہونے والے وہ خاندان کے پہلے فرد تھے۔ وہ کُل پانچ بھائی تھے۔ بقیہ چاروں کے نام زکریا صدیقی، محمد اسحاق صدیقی، یونس صدیقی اور محمد اسمٰعیل صدیقی ہیں۔ ان سب کا تعلق بھی کسی نہ کسی حیثیت سے جماعت اسلامی سے تھا۔ زکریا صدیقی اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی شوریٰ کے رکن اور ایک پرنٹنگ پریس کے مالک تھے، جب ہم اسلامی جمعیت طلبہ کے سیکریٹری نشرو اشاعت اور ناظم مطبوعات طلبہ بنائے گئے تو ان سے قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ ہم جمعیت کی اسٹیشنری اور کالج میگزین اور کتابیں ان کے توسط سے پرنٹ کراتے تھے۔ وہ ہمارے محسن تھے، اس کا ذکر شروع میں آچکا ہے۔ ایک اور بھائی محمد یونس صدیقی تھے جو پاپوش نگر میں ہمارے پڑوسی تھے لیکن ہمیں خاصے عرصے بعد معلوم ہوا کہ وہ زکریا صدیقی کے بھائی ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ ایک اور بھائی محمد اسحاق صدیقی بھی جماعت اسلامی کراچی کے سرگرم رکن اور ناظمِ نشر و اشاعت تھے۔ ہم نے جب 1967ء میں صحافت شروع کی، وہی اس عہدے پر تھے اور صحافیوں میں بڑے مقبول تھے۔ 1965ء میں زکریا بھائی سے رابطے کے بعد صحافت میں آنے اور جنگ کے ادارے میں شامل ہونے کے بعد ہمارے تعلقات ان ہی سے قائم ہوئے۔ حکیم محمد یامین صدیقی کے سب سے چھوٹے بھائی محمد اسمٰعیل صدیقی خاندان میں ظفر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ جماعت اسلامی کے رکن نہ تھے مگر الیکشن اور چرم قربانی کی مہمات میں پیش پیش رہتے تھے۔ نوجوانوں کی محفل میں نوجوان بن جاتے اور بچوں کی مجلس میں بچے۔ جمعیت اور جماعت کے حلقوں میں یکساں مقبول تھے۔ اسٹیٹ لائف انشورنس میں کام کیا اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔
ان کے سسر اور ماموں ابوالجلال ندوی جو اپنے انتقال تک ان کے ساتھ ہی تھے، ندوہ سے فارغ التحصیل ممتاز عالم اور لسانیات کے ماہر تھے اور موہن جودڑو سے ملنے والی مہروں کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے۔ اسمٰعیل صدیقی کی زندگی کے آخری ایام اپنے سسر کی تحریروں کی اشاعت کی کوششوں میں گزرے۔
حکیم یامین کے سات بیٹوں میں سب سے بڑے یعقوب مسعود صدیقی ہیں جنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے فارمیسی اور روم اٹلی سے میڈیکل ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اب بھی عارضی طور پر فارمیسسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں اور اکنا کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ احمد سعود صدیقی نے بی ایس سی کی ڈگری لی اور پی آئی اے میں سسٹم منیجر کی پوسٹ پر تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد اب سیکرامنٹو میں آئی بی ایم کے ملازم اور ہمارے پڑوسی ہیں۔ وہ اور ان کی اہلیہ اور سارے بچے اکنا کے لیے کام کرتے ہیں۔ احمد سعد صدیقی بی ایس سی گریجویٹ ہیں اور اکنا کے ہیڈ کوارٹر میں 35 برسوں سے آفس منیجر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اکنا کے ہیڈ آفس کے اصل کرتا دھرتا یہی ہیں۔ معاذ المساعد صدیقی نے این ای ڈی یونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ میں گریجویشن اور نیو ہے آتی یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کیا۔ آج کل نیویارک میں سرکاری ملازمت کرتے ہیں اور ان کا بقیہ وقت اکنا کے کاموں کے لیے وقف ہے۔ اکنا کنونشن میں اردو پروگرام کے ناظم تھے۔ حکیم سعادت ابراہیم صدیقی نے ہمدرد طبیہ کالج سے طب میں ڈگری لی۔ کراچی میں بیس سال تک اپنے والد کی حکمت کی گدی نشینی کی۔ اب نیویارک منتقل ہوگئے ہیں اور یہاں ملازمت کے ساتھ ساتھ بڑی حکمت کے ساتھ حکمت میں مصروف رہتے ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے اسمٰعیل سعید صدیقی نے کراچی یونیورسٹی سے اپلائیڈ کیمسٹری میں ماسٹرز اور سٹی یونیورسٹی آف نیویارک سے کیمیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا۔ آج کل نیویارک سٹی ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن میں سافٹ ویئر انجینئر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ وہ بھی اکنا کے متحرک لوگوں میں شامل ہیں۔ اردو ادب اور شاعری سے گہرا شغف ہے۔ حکیم صاحب کی بڑی بیٹی عائشہ سعیدہ صدیقی کا انتقال انسٹھ برس کی عمر میں چھ سال پہلے ہوا ہے۔ ان کے خاوند طارق صدیقی اور صاحبزادگان نجم الثاقب صدیقی اور حارث صدیقی امریکہ میں ہی مقیم ہیں۔ دوسری بیٹی فاطمہ سعدیہ صدیقی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور اب نیویارک میں مقیم ہیں، جب کہ رابعہ ساعدہ صدیقی کراچی یونیورسٹی سے فزیالوجی میں ماسٹرز ہیں اور آج کل میساچوسٹس میں مقیم ہیں۔ اس خاندان کے ہر فرد نے اس کنونشن کو کامیاب بنانے بڑا کردار ادا کیا۔