پنجاب میں ایک طرف پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون دیکھنے کو ملتا ہے تو دوسری طرف پنجاب میں جو سیاسی کھچڑی پکائی جارہی ہے مسلم لیگ (ن) میں اس پر تشویش بڑھ رہی ہے
کیا واقعی اکتوبر میں عام انتخابات ممکن ہوسکیں گے؟ اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کے پاس انتخابات کو اکتوبر سے آگے لے جانے کا کوئی آپشن موجود نہیں۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے سیاسی تجزیہ نگار یہ پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں کہ انتخابات اِس برس2023ء میں ممکن نہیں ہوں گے۔ جو لوگ انتخابات کے خلاف دلیل دیتے ہیں اُن کے پاس اِس حکومت کی مدت کے خاتمے کے بعد لمبے عرصے تک نگران حکومت کا قیام ہوگا یا اس کے مقابلے میں قومی حکومت یا ٹیکنوکریٹ حکومت۔ اس طبقے کے بقول اِس وقت ریاستی یا حکومتی سطح پر انتخابات کا انعقاد ان کے حق میں نہیں ہوگا۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد جو بحران پی ٹی آئی اور عمران خان کے سامنے آیا وہ ماضی کے مقابلے میں ایک بڑا بحران ہے جس نے پی ٹی آئی کو داخلی طور پر نہ صرف کمزور بلکہ بری طرح تقسیم بھی کردیا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی 9 مئی کے واقعات کی تمام تر ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور ان کے بقول پُرتشدد سیاست ان کی جماعت کے خلاف ایک سازش تھی جس کا مقصد ان واقعات کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی کے خلاف ایک بڑا کریک ڈائون کرنا تھا۔ پی ٹی آئی تسلسل کے ساتھ 9 مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کررہی ہے، لیکن اس وقت جو ریاستی یا حکومتی بیانیہ ہے وہ پی ٹی آئی مخالف ہے، اور پی ٹی آئی تمام تر کوششوں کے باوجود خود کو 9مئی کے واقعات سے باہر نہیں نکال سکی ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف چار طرح کا کریک ڈائون کیا جارہا ہے:
(1) بڑے پیمانے پر اس کی مرکزی قیادت سمیت ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اور ان پر دہشت گردی سمیت سنگین نوعیت کے مقدمات بنا دیے گئے ہیں۔
(2) عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاسی بنیاد پر چلنے والی سرگرمیاں عملی طور پر معطل ہوگئی ہیں، اورفی الحال بغیر کسی مفاہمت کے ان سرگرمیوں کی بحالی ممکن نظر نہیں آتی۔
(3) عمران خان کے اپنی جماعت کے لوگوں اورکارکنوں سے رابطے ختم کردیے گئے ہیں اور عمران خان کو فی الحال عدالتوں یا گھر تک محدود کردیا گیا ہے، اور وہ کسی بھی سطح پر کوئی سیاسی یا تنظیمی اجلاس کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
(4) پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں جو زیادہ خطرناک ہوگا، اسی لیے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے لے کر نیچے اہم کارکنوں تک سبھی عملی طور پر روپوش ہوگئے ہیں اور پولیس ان کی تلاش میں ان کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے اور ان کے گھر والوں کو بھی سخت خوف زدہ اور ہراساں کیا جارہا ہے، یا ان کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے لے کر ٹکٹ ہولڈرزکی ایک بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کررہی ہے اور خود کو فی الحال سیاست سے علیحدہ کررہی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابات سے قبل ایک بڑے سیاسی کریک ڈائون کا سامنا ہے، اور عمران خان کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان کی جماعت یا ان کے ٹکٹ ہولڈرز کو اگلے عام انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے گا یا ان کو بھی انتخابی مہم چلانے کی اجازت مل سکے گی؟ اِس وقت تو یہی تاثر سیاسی حلقوں بالخصوص پی ٹی آئی کو دیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی قبول نہیں اور اس جماعت میں شامل لوگ نئے سیاسی راستے تلاش کریں۔ کیونکہ ایک بڑی لڑائی پنجاب میں ہے جہاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں گھمسان کی جنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی بنیاد پر سیاسی محاذ پر نیا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین بہت سرگرم ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر درجنوں سیاسی لوگوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنارہے ہیں جس کا نا م ’’پاکستان انصاف پارٹی‘‘ یا ’’عوام دوست پارٹی‘‘ ہوسکتا ہے۔ جہانگیر ترین کی کوشش ہے کہ وہ ایک بڑے سیاسی گروپ کے ساتھ میدان میں آئیں اور مستقبل کی سیاست میں اپنے لیے راستہ تلاش کریں۔ اسی طرح پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ق) میں بھی خاصی تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے اور کئی لوگ اس جماعت کا بھی رخ کررہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی ایک بڑی تعداد اگلے انتخابات میں اپنے ایک علیحدہ ’’ڈیموکریٹک گروپ‘‘ کے نام سے سامنے آرہی ہے، اور ان کے بقول وہ کسی بھی دوسری جماعت کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ اپنی علیحدہ شناخت کی بنیاد پر انتخاب لڑا جائے گا۔ دوسری طرف آصف علی زرداری نے بھی اپنا سیاسی لنگوٹ کس کر لاہور میں ڈیرے جما لیے ہیں اور جنوبی پنجاب میں بہت سے سیاسی لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ آصف علی زرداری، جہانگیر ترین اور مسلم لیگ (ق) کی مدد سے اگلے انتخابات میں مشترکہ طور پر جانا چاہتے ہیں، اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اس اتحاد کی مدد سے پنجاب میں 30کے قریب قومی اسمبلی کی نشستیں جیت لیں تو مرکز میں حکومت سازی کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔
پنجاب میں ایک طرف پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈائون دیکھنے کو ملتا ہے تو دوسری طرف پنجاب میں جو سیاسی کھچڑی پکائی جارہی ہے مسلم لیگ (ن) میں اس پر تشویش بڑھ رہی ہے کہ یہ کھیل کیا ہے اورکون سی قوتیں ہیں جو اس کھیل میں مسلم لیگ (ن) مخالف بیانیہ بنارہی ہیں! مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کے بعد وہی سیاسی طاقت ہے، مگر اس کو لگتا ہے کہ بڑی قوتوں نے صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف بھی ایک کھیل بنالیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) میں یہ بات واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے کہ وہ سابق صدر زرداری کے کھیل کو اپنے خلاف ایک بڑی سازش کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں، اور انہیں لگتا ہے کہ ہمارے خلاف جو کھیل سجایا گیا ہے اس میں پیپلز پارٹی بھی ایک فریق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں ہمیں یہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں فاصلے بڑھیں یا بدگمانی ہو جو مزید محاذ آرائی پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہر صورت میں اگلے عام انتخابات کے نتیجے میں پنجاب میں اپنی حکمرانی کو بحال کرنا چاہتی ہے، مگر ایسے لگ رہا ہے کہ جو بھی سیاسی دربار سجایا جارہا ہے اس میں مسلم لیگ (ن) کہیں نظر نہیں آرہی۔
ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ حکومت یا ریاست اکتوبر میں عام انتخابات اسی صورت میں کروائے گی جب اسے لگے گا کہ نتائج پی ٹی آئی کے مقابلے میں اس کے حق میں ہوں گے۔ لیکن اگر اس کو لگے کہ پی ٹی آئی بدستور مضبوط ہے تو انتخابات کو آگے بھی کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ایسا ہی لگتا ہے کہ اب اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کے لیے سیاسی راستے بند کیے جارہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی پنجاب اور کے پی کے میں موجود سیاسی حرکیات کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کم نہیں ہوا بلکہ بڑھا ہے۔ اگرچہ درجنوں کے حساب سے لوگ پی ٹی آئی کو چھوڑ چکے ہیں مگر بدستور اس کا ووٹ بینک اور کئی ٹکٹ ہولڈرز بھی پارٹی کے ساتھ ہی کھڑے ہیں۔ اس وجہ سے یہ کہنا کہ انتخابات اکتوبر میں ہر صورت ہوں گے، ممکن نہیں۔ انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ حالات و واقعات اور سیاسی نتائج کو دیکھتے ہوئے ہی کیا جائے گا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر واقعی انتخابات ہونے ہیں تو کیا پی ٹی آئی اور عمران خان کو آزادانہ بنیادوں پر انتخابی مہم کی عملی طور پر اجازت ہوگی؟ کیونکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یا تو انتخابات سے قبل عمران خان کو نااہل کیا جاسکتا ہے، یا پھر انہیں کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرکے گھر میں ہی نظربند کیا جاسکتا ہے۔ اس نظربندی میں ان کو کسی بھی قسم کی عوامی سطح پر بولنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کے انتخابی امیدواروں کو کھل کر انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہوگی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے انتخابی عمل پوری طرح متنازع بن جائے گا اور ان انتخابات کی کوئی ساکھ نہیں ہوگی۔ کیونکہ اگر انتخابات میں حکومت یا کسی اور کو وسیع پیمانے پر سیاسی انجینئرنگ کرنی ہے اور اس کھیل کے تحت کسی کو نکالنا اورکسی کو لانا مقصود ہے تو پھر انتخابات کا عمل نہ صرف متنازع بن جائے گا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام اور ٹکرائو پیدا ہوگا۔
اس وقت ایک بڑا مسئلہ عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو ہے۔ یہ ٹکرائو جہاں دونوں طرف کی غلطیوں سے پیدا ہوا ہے وہیں حکمران اتحاد کی حکمت عملی بھی یہی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو کو اور زیادہ گہرا کیا جائے۔ اس وقت تو عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ کئی بار کہہ بھی چکے ہیں، مگر اب اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومت، دونوں کو لگتا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب عمران خان پہلی بار ایک بڑے سیاسی دبائو کا شکار ہوئے ہیں اور ان کی پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ کا عملاً شکار ہوگئی ہے تو ہمیں مذاکرات کے بجائے اسے اور زیادہ دیوار سے لگانا چاہیے۔ لیکن یہ لڑائی اگر آگے بڑھتی ہے اور مفاہمت کا کوئی راستہ نہیں نکلتا تو اس کے نتیجے میں خود اداروں پر بھی اس لڑائی کا بوجھ بڑے گا۔ اصولی طور پر تو حالات میں جتنا بھی بگاڑ ہو ہمیں مفاہمت ہی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ حکومت تو عمومی طور پر زیادہ سیاسی لچک کا مظاہرہ کرتی ہے اور وہ سیاسی راستے ہی تلاش کرتی ہے، لیکن اب ایسے لگ رہا ہے کہ یہاں حکومت ہو یا حزب اختلاف، دونوں نے نہ صرف اپنی اپنی سیاسی پوزیشن کو کمزور کرلیا ہے بلکہ سیاست اور جمہوریت کی پوزیشن میں بھی ایک بڑا خلا پیدا کردیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ سیاست دانوں نے اپنے ہاتھ پیر یا تو خود باندھ لیے ہیں یا ان کو باندھ دیا گیا ہے۔ میڈیا پر پابندیاں، عدلیہ پر دبائو اور پولیس سمیت دیگر اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا، یا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ہم نے خود کو جمہوری سیاست سے بہت دور کرلیا ہے اور سیاست کا ریموٹ کنٹرول پر سیاست دانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ کچھ پنڈتوں کا خیال ہے کہ عمران خان کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے، وگرنہ دوسری صورت میں ان کو سنگین مقدمات اور نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن عمران خان کے بقول وہ ڈٹ کر کھڑے ہیں اورکسی بھی طور پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ مگر کیا عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کریں گے اور ان کی شرائط پر کوئی سمجھوتہ کرکے کوئی محفوظ راستہ اپنے حق میں نکالیں گے، یا وہ مزاحمت کی بنیاد پر اسی طرح چلیں گے؟ حکومت مسلسل عمران خان پر نہ صرف دبائو ڈال رہی ہے بلکہ ان پر سنگین نوعیت کے مقدمات درج کرنے اور انہیں سبق سکھانے کی بھی باتیں ہورہی ہیں جس سے مزید مسائل جنم لیں گے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس جاری لڑائی کو ایک اور بڑے تناظر امریکہ اور چین کے درمیان سیاسی طاقت کی جو جنگ چل رہی ہے اس کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے۔مگر جو کچھ بھی اس وقت ملک میں ہورہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے اوراس کے نتائج بھی ملک کی سیاست، معیشت اور ریاست کے حق میں بہتر نہیں ہوں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ ہم سب ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ممکن ہے کہ کوئی فریق دوسرے فریق پر عملاً بالادستی حاصل کرلے، لیکن مستقبل کی سیاست کے تناظر میں ہمیں زیادہ سیاسی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے ہماری اپنی سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں یا اُن کا تعلق ریاستی اداروں سے ہو، سب کو آگے بڑھنے کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹناہوگا۔ کیونکہ محاذ آرائی اور ٹکرائو کی سیاست کا نتیجہ کسی کے حق میںنہیں ہوگا۔ اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی طورپر ایسی حکمت عملیاں درکار ہیں جو ہمیں مستحکم پاکستان کی طرف لے جانے میں مدد دے سکیں۔