مغربی دنیا اور تشدد کی تاریخ

اہلِ مغرب ایک دوسرے کا سر کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے

قوموں کی تاریخ میں امن بھی ہوتا ہے اور جنگ بھی، محبت بھی ہوتی ہے اور تشدد بھی۔ لیکن مغربی دنیا نے تشدد کو جس طرح تاریخ اور نظریہ بنایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

آج سے ہزار سال پہلے کی عیسائی دنیا جنگوں کی دنیا نہیں تھی۔ عیسائی دنیا پر عیسائیت کی تعلیمات کا گہرا اثر تھا، اور عیسائیت کی تاریخ میں نہ حکومت تھی نہ جہاد تھا۔ مولانا رومؒ نے اسی لیے اسلام اور عیسائیت کا فرق واضح کرتے ہوئے کہا ہے:

مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دینِ عیسیٰؑ غار و کوہ

یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مصلحت جہاد اور شوکت ہے۔اس کے برعکس حضرت عیسیٰؑ کے دین کی مصلحت ترکِ دنیا ہے، غار و کوہ ہے۔ چنانچہ اس تصور کے تحت عیسائی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ کی سلطنت آسمانوں میں ہے۔ اس منظرنامے میں اسلام بھی موجود تھا جو حضرت عیسیٰؑ کو جلیل القدر پیغمبر اور انجیل کو آسمانی کتاب تسلیم کرتا تھا۔ اسلام میں حضرت مریمؑ کی یہ اہمیت تھی کہ قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا مگر قرآن میں نہ کوئی سورہ آمنہ تھی، نہ سورۂ خدیجہؓ تھی، نہ سورۂ عائشہؓ تھی۔ البتہ قرآن میں سورۂ مریمؑ موجود تھی۔

عیسائیت حضرت عیسیٰؑ کی سولی کی قائل تھی مگر اسلام کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ عیسائیت دنیا میں دوبارہ حضرت عیسیٰؑ کی آمد کا اعلان کرتی تھی اور اسلام بھی یہی کہتا تھا، لیکن اسلام اور عیسائیت میں اتنی مماثلتوں کے باوجود گیارہویں صدی کے پوپ اربن دوئم نے اسلام کو ’’شیطانی مذہب‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو فنا کرنا ہر عیسائی کی ذمے داری ہے۔ چنانچہ اس نے یورپ کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی ہدایت کی اور 1099ء میں یورپ عملاً ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے ابتدائی مرحلے میں عیسائیوں کو فتح حاصل ہوئی اور بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ صلیبی فوجوں نے بیت المقدس کو خون میں نہلا دیا۔ خود مغربی مؤرخین نے لکھا ہے کہ بیت المقدس کی گلیوں میں اتنا خون تھا کہ گھوڑے چلانا دشوار ہوگیا تھا۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود تھا کہ اُس وقت کے مسلمانوں نے عیسائیوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا۔ عیسائیوں نے نفسیاتی تشدد کے دائرے میں بھی بہت کام کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ’’بے دین‘‘ کہا، یہودیوں اور عیسائیوں کا ’’نقّال‘‘ کہا، حضرت ہاجرہؓ کے نام کی نسبت سے مسلمانوں کو Hagarian کہا، انہوں نے مسلمانوں کو مسلمانوں کے بجائے ’’محمڈن‘‘ کہہ کر پکارا، انہوں نے کہا کہ قرآن آسمانی کتاب نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ محمدؐ کی تصنیف ہے۔ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کیا اور کہا کہ آپؐ عبقری یا Genius تو ہیں مگر رسول نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عیسائیوں کی یہ تمام کارروائیاں یک طرفہ تھیں۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ مسلمان بھی عیسائیوں پر عسکری اور نفسیاتی حملے کررہے تھے تو عیسائیت نے بھی ان کا جواب دے ڈالا۔ اس صورتِ حال نے اہلِ مغرب کے یہاں تشدد کو تاریخ اور ایک نظریۂ حیات بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کروسٹوفر کولمبس نے امریکہ کیا دریافت کیا کہ امریکہ یا “Americas” پر قیامت نازل ہوگئی۔ امریکہ ریڈ انڈینز کا ملک تھا اور ان کی تہذیب ہزاروں سال پرانی تھی، مگر سفید فام امریکہ پہنچے تو انہوں نے امریکہ کو تشدد اور حقارت سے بھر دیا۔ مغرب کے ممتاز دانش ور مائیکل مان نے اپنی کتاب Dark side of the Democracy میں لکھا ہے کہ سفید فاموں نے Americas میں 8 سے 10 کروڑ لوگوںکو ہلاک کر ڈالا۔ انہوں نے ریڈانڈینز کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور ان کی ہر چیز کو کمتر خیال کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ سفید فاموں نے کبھی امریکہ میں اپنے ظلم و تشدد کا اعتراف کیا نہ اس پر معافی مانگی، بلکہ انہوں نے ریڈانڈینز پر ایسی فلمیں بنائیں جن میں ریڈانڈینز کے قتل کا جواز پیش کیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ سفید فاموں نے امریکہ میں جو کچھ کیا، ٹھیک کیا۔ یہی کہانی آسٹریلیا میں دہرائی گئی۔ آسٹریلیا ایب اوریجنز کا ملک تھا، لیکن یہاں بھی سفید فاموں نے 45 لاکھ سے زیادہ مقامی باشندوں کو مار ڈالا۔ جو ایب اوریجنز باقی بچے انہیں غلام بنا لیا گیا۔ سفید فاموں کو اپنے ظلم اور تشدد کا احساس چند سال پہلے ہوا، چنانچہ انہوں نے آسٹریلیا کے ایک صوبے تسمانیہ کو ایب اوریجنز کا علاقہ قرار دے کر انہیں اس بات کی اجازت دی کہ وہ تسمانیہ میں اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کو فروغ دیں۔

برصغیر میں انگریز تاجر بن کر آئے تھے اور انہیں خود کو تجارت تک ہی محدود رکھنا چاہیے تھا، لیکن انگریزوں نے محسوس کیا کہ برصغیر کی مرکزی حکومت کمزور ہوچکی ہے اور مختلف علاقائی طاقتوں کے درمیان رسّا کشی موجود ہے اور انہیں باہم متصادم کرنا دشوار نہیں۔ چناچہ انہوں نے کبھی ایک علاقائی طاقت کا ساتھ دیا، کبھی دوسری کا۔ یہاں تک کہ انگریز بھارت کے حکمران بن کر کھڑے ہوگئے۔ انگریزوں کی یہ کامیابی دو چیزوں کی رہینِ منت تھی، ایک برتر عسکری طاقت اور دوسرے سازش کرنے کی صلاحیت۔ یعنی ان کے ایک ہاتھ میں جسمانی تشدد تھا تو دوسرے ہاتھ میں نفسیاتی تشدد۔ برصغیر کے باشندوں نے انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی شروع کی تو انگریزوں نے اسے ’’بغاوت‘‘ اور ’’غدر‘‘ کا نام دیا۔ حالانکہ باغی انگریز تھے اور برصغیر میں غدر بھی انہوں نے ہی مچایا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے برصغیر کے لوگوںکی جنگِ آزادی ناکام ہوگئی، چنانچہ انگریزوں نے دلّی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دلّی کا کوئی محلہ ایسا نہ تھا جہاں لاشوں کے انبار نہ ہوں۔ تاریخی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں نے چند دنوں میں دلی کے اندر 25 ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ جنگِ آزادی لڑنے والوںکو قتل کردینا یا گولی سے اڑا دینا کافی تھا، مگر انگریزوں نے تشدد کی نئی صورتیں ایجاد کیں۔ انہوں نے مجاہدین کو توپوں سے اُڑا دیا۔ علما انگریزوں کا خاص نشانہ تھے اس لیے کہ جہاد کے فتوے علما ہی نے دیے تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان بہادر شاہ ظفر سے چھینا تھا اور کہا جاتا تھا کہ بادشاہ‘ بادشاہ کے ساتھ بادشاہوں والا سلوک کرتے ہیں۔ مگر انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے ہندوستان چھین کر اسی پر بغاوت کا مقدمہ چلا دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان میں مرنے اور دفن ہونے کی اجازت بھی نہ دی۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر نے اس بات کا ماتم کیا اور شعر کی زبان میں کہا:

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

لیکن مسئلہ بہادر شاہ ظفر کی بدنصیبی سے زیادہ انگریزوں کی اذیت پسندی اور تشدد کا تھا۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو تکلیف دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہاں تک کہ بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے کٹے ہوئے سر اُسے ’’تحفے‘‘ کے طور پر پیش کیے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر جوان نہیں تھا، اس کی عمر 80 سال سے زائد تھی، اور اس عمر میں انسان معمولی سے معمولی بات کا بھی گہرا اثر قبول کرتا ہے۔ انگریزوں کو یہ بات معلوم تھی، اسی لیے انہوں نے بہادر شاہ ظفر پر صدموں کی بارش کی ہوئی تھی۔

انگریزوں نے برصغیر میں صرف لاکھوں انسانوں کو قتل نہیں کیا، بلکہ انہوں نے برصغیر میں معاشی تباہی اور لوٹ مار کی داستان بھی رقم کی۔ بھارت کی ممتاز محقق اُتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق انگریز برصغیر سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ مغرب کے ممتاز دانش ور ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر عالمی پیداوار کا 24 فیصد پیدا کررہا تھا، اور جب انگریز برصغیر سے جا رہے تھے تو برصغیر عالمی پیداوار کا صرف 4 فیصد پیدا کررہا تھا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ صلیبی جنگیں یورپ کے ’’عہدِ ظلمات‘‘ یا Dark Ages کا شاخسانہ تھیں، یہ مذہبی اندھے پن کا دور تھا۔ لیکن دو عالمی جنگیں تو بیسویں صدی میں لڑی گئیں، اور بیسویں صدی مغرب کے دعوے کے مطابق علم کی صدی تھی، شعور کی صدی تھی، تہذیب کی صدی تھی، عقل پرستی کی صدی تھی، سائنس کی صدی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اہلِ مغرب ایک دوسرے کا سر کاٹنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے اور انہوں نے دو عالمی جنگوں میں دس کروڑ سے زیادہ انسانوں کو مار ڈالا اور 30 کروڑ کو زخمی کیا۔ عالمی جنگوںکا یہ پہلو اہم ہے کہ یہ جنگیں اہلِ مغرب کے خلاف کسی کی سازش نہیں تھیں، اہلِ مغرب خود ان کے ذمے دار تھے اور ان جنگوں میں اہلِ مغرب کی جان لیوا جبلت یا Killing Instinct کو پورے طور پر متحرک دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اہلِ مغرب مسلمانوں کو ’’دوسرا‘‘ یا “Other” کہہ رہے تھے۔ دو عالمی جنگوں نے اہلِ مغرب کے اپنوں کو بھی ’’دوسرا‘‘ بناکر کھڑا کردیا تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اہلِ مغرب نے ایک دوسرے سے انسانی زبان میں بات نہیں کی۔ انہوں نے تشدد، گولی اور گولے کی زبان میں بات کی، یہاں تک کہ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اُس سے ایٹمی زبان میں بات کی۔

یہ بیسویں صدی کے اواخر کا واقعہ ہے، امریکہ اور یورپ نے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں، اور ان پابندیوں کے باعث عراق میں غذا اور دوائوں کی قلت ہوگئی اور اس سے دس لاکھ عام افراد ہلاک ہوگئے جن میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ بی بی سی کے ایک صحافی نے امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈیلین البرائیٹ سے اس صورتِ حال پر تبصرے کے لیے کہا تو انہوں نے فرمایا: صورتِ حال ہمارے لیے نہ صرف یہ کہ قابلِ قبول ہے بلکہ قدر و قیمت کی بھی حامل ہے۔ ان کا اصل فقرہ یہ تھا:

It is acceptable and worth it

لیکن سوال یہ ہے کہ دس لاکھ بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کسی انسان کے لیے کیسے قابلِ قبول اور قدر و قیمت کی حامل ہوسکتی ہے؟ یا انسانی شعور اس کے لیے کیسے جواز مہیا کرسکتا ہے؟ لیکن مغربی دنیا صرف اس مثال پر اکتفا کرکے نہیں رہ گئی، اس نے اعلان کیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ مغربی دنیا نے اس الزام کے بعد عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ وہاں پانچ سال میں 6 لاکھ لوگوںکو مار ڈالا، اور جب سب کچھ ہوچکا تو معلوم ہوا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے ہی نہیں۔ لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس صورتِ حال پر معافی مانگنے کے بجائے اس کا جواز پیش کرنا شروع کردیا۔

برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا کہ تاریخ عراق کے خلاف ہماری جنگ کو درست قرار دے گی۔ لیکن کیا جنگیں تاریخ کی گواہی پر ایجاد کی جاتی ہیں؟ اور کیا ٹونی بلیئر نے عراق کی جنگ ایجاد کرتے ہوئے تاریخ کا سہارا لیا تھا؟

امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں دو لاکھ سے زیادہ معصوم لوگوںکو مار ڈالا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل مغربی ادارہ ہے، اور اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2009ء سے 2013ء کے درمیان کم از کم 1,800 افراد کو بلا کسی جواز کے قتل کیا لیکن اس عرصے میں مغربی ممالک کے فوجیوں کے خلاف صرف چھے مقدمات درج ہوئے۔

اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر رچرڈ بینٹ نے کہا کہ امریکہ کا نظامِ انصاف ہمیشہ ہی اپنے فوجیوں کو ان کے جرائم کا ذمے دار قرار دینے میں ناکام رہتا ہے۔ اسرائیل مغرب کا حصہ اور اس کا اتحادی ہے اور اس کی نفسیات پر مغرب کی نفسیات کا گہرا اثر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ 2014ء میں اسرائیلی سفیر روت ڈامر نے کہا تھا کہ اسرائیل کی فوج نے غزہ میں ناقابلِ تصور ’’تحمل‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے اور ایسا کرکے وہ امن کے نوبیل انعام کا مستحق ہوگئی ہے۔ یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسرائیل کے سفیر نے یہ بات غزہ کی مکمل تباہی کے بعد کہی۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے اپنے اعتراف کے مطابق اسرائیل نے 2014ء کے 29 دن میں 1,800 عام فلسطینیوں کو شہید کیا۔ ان میں ساڑھے تین سو بچے بھی شامل تھے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ میں ہونے والی مادی تباہی کا تخمینہ 6 ارب ڈالر ہے۔ اسرائیل نے 29 دن میں 65 ہزار گھر تباہ کیے جن میں درجنوں مساجد اور اسپتال بھی شامل ہیں، اس کے باوجود اسرائیل کا سفیر کہہ رہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ لیکن یہ صرف اسرائیل کا معاملہ نہیں۔ اسرائیل غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا تھا تو امریکہ اور یورپ دنیا سے کہہ رہے تھے کہ اسرائیل کو اپنے ’’دفاع‘‘ کا حق حاصل ہے۔ لیکن غزہ کے منظرنامے میں اسرائیل کا دفاع کہیں تھا ہی نہیں۔ وہاں جو کچھ تھا اسرائیل کی جارحیت تھی، اس کی وحشت تھی، سفاکی تھی، شیطنت تھی، لیکن اس صورتِ حال میں مغربی شعور اس طرح کلام کررہا تھا کہ جیسے اسرائیل مظلوم ہو اور فلسطینی ظالم ہوں۔ یہ نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی انتہا ہے۔