آج کی صحبت میں ہم چاہتے ہیں کہ چند دوسرے اہم پہلوئوں کا تذکرہ کریں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ یاد دلا دیا جائے تو نامناسب نہ ہوگا کہ دنیا عالمِ اسباب ہے۔ یہاں کوئی کام انجام نہیں پاسکتا جب تک کہ اس کے مناسبِ حال تدابیر اختیار نہ کی جائیں اور اُن تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش نہ کی جائے جو اسباب کی دنیا چاہتی ہے۔ رہی اللہ کی مدد، تو وہ اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب اللہ کے بندے اپنے ترکش کے تمام تیر خالی کرچکے ہوتے ہیں اور اپنے حصے کا پورا پورا فرض ادا کرچکے ہوتے ہیں۔ غفلت، کوتاہیاں اور لغزشیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آخرت میں معاف فرمائیں گے لیکن اسباب و علل کی فطرت بے لاگ ہوتی ہے جو معافی کو کم جانتی ہے۔
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ کچھ لوگوں کا کسی مشترک مقصد کی خاطر ایک نظم کے دائرے میں منسلک ہونا بجائے خود یہ منشا رکھتا ہے کہ جس مقصد کو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ گویا انفرادی کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا، یا پھر یہ کہ مقصد کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ اس میں انفرادیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ اقامتِ دین کی سعی پر… اِن دونوں باتوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ کا دین اپنے ماننے والوں سے صرف یہی مطالبہ نہیں کرتا کہ اس کو قائم کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی جائے، بلکہ خود اس کے اپنے بہت سے تقاضے ایسے ہیں کہ وہ اجتماعیت کے بغیر پورے ہی نہیں ہوسکتے۔ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ انسان دنیا میں اکیلے ہی اکیلے اپنی پوری زندگی گزار سکے اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ کا دین اجتماعی پہلو کو نظرانداز کردے اور پھر بھی اسے دینِ کامل سمجھا جاسکے۔
اجتماعی تنظیم ہمارے لیے کوئی خارجی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ وہ دین کا ایک جز اور اس کا ایک لازمی عنصر ہے۔ پھر تیسری طرف اجتماعیت ایک عظیم طاقت بھی ہے، جو کام ایک آدمی سے انجام نہیں پاسکتا اس کے لیے جب متعدد آدمی زور لگاتے ہیں تو اس کا انجام پانا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے مقاصد کے لیے انفرادی کوششوں پر اکتفا کرنا گویا اپنی توانائیوں کو فضا میں منتشر کرنے کے لیے چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔ جب یہی انفرادی کوششیں ایک نظم میں منسلک ہوجاتی ہیں تو ایک ایک فرد کی کوشش اتنی ہی زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے جتنی کہ نظمِ اجتماعی میں افراد کی تعداد ہو، بلکہ بعض حالات میں اس سے کہیں زیادہ۔ لیکن یہ طاقت اور اجتماعیت کی دیگر منفعتیں چند شرائط کے ساتھ حاصل ہوتی ہیں۔ یہ شرائط اگر پوری نہ کی جائیں تو بڑی سے بڑی تنظیم بھی بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے۔
جس طرح یہ صحیح ہے کہ کوئی ایک فرد خواہ وہ پہلوان ہی کیوں نہ ہو کسی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اسی طرح کوئی معمولی رکاوٹ کسی تنظیم کی راہ روک نہیں سکتی۔ لیکن اگر فوج منظم ہونے کے بجائے ایک منتشر انبوہ ہو جس میں نظم و تنظیم کا کوئی رابطہ نہ ہو تو دنیا جانتی ہے اور تاریخ ایسے بیسیوں مناظر دیکھ چکی ہے کہ فردِ واحد بھی سیکڑوں ہزاروں آدمیوں کو مار بھگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہی حال اجتماعی اداروں کا بھی ہوتا ہے۔ اگر نظم و تنظیم کی شرائط پوری نہ ہورہی ہوں اور کوئی ہیئتِ اجتماعیہ ایک انبوہ کثیر کا نقشہ پیش کررہی ہو تو ایک معمولی سے معمولی حادثہ بھی اس کو منتشر کرکے دکھ دینے کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔
کوئی جماعت بھی اُس وقت تک اپنی اجتماعیت کی طاقت کو پوری طرح بروئے کار نہیں لاسکتی جب تک کہ اس میں ایک فوج کا سا نظم نہ ہو، اور وہ اپنے کمانڈر کے اشارے پر فردِ واحد کی طرح حرکت نہ کرے۔ ہیئت ِ اجتماعیہ ایک پرپیج مشین کی مثل ہوتی ہے جو اُس وقت تک ٹھیک نہیں چل سکتی جب تک کہ اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ پوری طرح کسے ہوئے (Fit) نہ ہوں، اور جب تک وہ ایک دوسرے کے ساتھ اتنے مربوط نہ ہوں کہ کہیں دور بیٹھے ہوئے ڈرائیور کے ایک بٹن دبانے پر سلسلہ بہ سلسلہ سارے کے سارے حرکت میں آجائیں، اور اگر ایک پرزہ بھی اپنی جگہ پر ڈھیلا ہوجائے یا کسی وجہ سے رک جائے تو پوری مشین کی رفتار پر اس کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مقصد فوت ہونے لگے گا جس کے لیے مشین چالو کی گئی تھی۔
(سیدعبدالقادر۔ ماہنامہ زندگی۔ جون، جولائی، اگست، ستمبر 1954ء)
مجلس اقبال
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
علامہ دیکھتے ہیں کہ مغرب سے مرعوب مسلمان جب وہاں کے مفکروں کو ذہنوں پر سوار کرکے اُن کے افکار کی بھیک مانگتے ہیں تو وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی تو ان کے پاس ہے، یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید، جو خالق و مدبر کائنات نے عطا فرمائی ہے اور حضور رحمت اللعالمینؐ جیسی معلم ہستی کی عطا کردہ حکمت و ہدایت ان کے پاس ہے، مگر وہ اپنی حقیقت اور مقامِ بلند سے ہی بے خبر ہیں۔ یعنی اپنی خودی (حقیقت) کا انہیں اندازہ نہیں کہ وہ اصلاً کتنے خوش نصیب ہیں۔