وفاقی میزانیہ کی آمد کا شور بپا ہے، عوام پر پہلے ہی سے خوف مسلط ہے اور لرزہ طاری ہے کہ روح اور جسم کا رشتہ کس طرح قائم رہ پائے گا۔ ملک کا ہر شعبہ بحران سے دو چار ہے، عدالت عظمیٰ سے قوم کی توقعات وابستہ تھیں مگر اس نے بھی ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے سے متعلق معاملہ کی پانچ مئی کی سماعت کے پانچ جون کو جاری کردہ تحریری فیصلے میں اپنی بے بسی کا واضح اظہار کر دیا ہے۔ فیصلے میں مذاکرات کی سیاسی جماعتوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے رائے دی گئی ہے کہ سیاسی معاملات مذاکرات ہی سے حل ہو سکتے ہیں، ساتھ ہی یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک بھر میں ایک تاریخ پر انتخابات کرانے پر متفق ہو جائیں گی۔ معاملہ کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے گویا اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے ملک کو درپیش معاشی صورت حال سے متعلق ملک کے منصف اعلیٰ نے ’’کے الیکٹرک‘‘ کی نجکاری کے مقدمہ میں یہ رائے دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے کہ معاشی معاملات میں ہماری مہارت نہیں ہے اس لیے ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ ملک میں انتخابات سے متعلق تحریری فیصلہ پڑھ کر محسوس یوں ہو رہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت عوام کو اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کا مشورہ دے رہی ہے جس کے سبب قوم کو یہ جان لیوا مرض لاحق ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے سیاسی اور معاشی ماہرین ان معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوتے تو معاملات عدالت عظمیٰ میں لانے کی ضرورت ہی کیا ہے، پھر سوال یہ بھی ہے کہ خالصتاً آئینی و قانونی معاملات پر واضح فیصلہ دینے کی بجائے اعلیٰ ترین سطح پر عدلیہ یوں دامن بچانے اور جان چھڑانے کا طرز عمل اختیار کرے گی تو یہ سارا عدالتی نظام آخر کس مرض کی دوا ہے…؟؟؟
آئندہ مالی سال کے بجٹ کے ضمن میں بھی اہم حقیقت جس سے چشم پوشی ممکن نہیں یہ ہے کہ وفاق کی دو بڑی اکائیوں صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر میں اس وقت منتخب صوبائی اسمبلیاں موجود ہیں نہ ہی منتخب حکومتیں۔ مستقبل قریب میں ان دونوں صوبوں میں ان کے قیام کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ اس وقت جن نگران حکومتوں کے ذریعے ان دونوں صوبوں میں کام چلایا جا رہا ہے وہ اپنی نوے دن کی آئینی مدت عرصہ ہوا مکمل کر چکی ہیں سوال یہ ہے کہ ان دو بڑے صوبوں کا بجٹ کون بنائے گا، منظوری کون دے گا اور اس کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہو گی؟ جہاں تک وفاقی بجٹ کا تعلق ہے، یہاں بھی تاحال بے یقینی کی کیفیت طاری ہے، سال گزر گیا ہے ابھی تک عالمی مالیاتی ادارے ہماری حکومت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں، وزیر اعظم نے اپنے تازہ بیان میں فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں، امید ہے معاہدہ ہو جائے گا ورنہ کمر کس لیں گے۔ وزیر اعظم کمر کس لیں گے تو معلوم نہیں کیا ہو گا فی الحال تو مہنگائی اور بے روز گاری نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ٹوٹی ہوئی کمر کو کسنے کا کوئی نسخہ اگر وزیر اعظم کے پاس ہو تو اپنے وطن کے غریب عوام کو بھی اس سے استفادہ کا موقع ضرور دیں کیونکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے سے قبل جس مہنگائی کا رونا جناب وزیر اعظم اور ان کے اتحادی صبح شام روتے سنائی دیتے تھے اور اس وقت کی حکومت کے خلاف آئے روز ’’مہنگائی مکائومارچ‘‘ کرتے سڑکوں پر نظر آتے تھے، آج اس مہنگائی میں اضافہ کی شرح صرف مئی 2023ء کے ایک ماہ میں 38 فیصد تک جا پہنچی ہے جو ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح ہے جب کہ جنوبی ایشیا میں بھی یہ سب سے بلند سطح ہے اور یہ اعداد و شمار حزب اختلاف کے کسی رہنما کی سیاسی الزام تراشی نہیں بلکہ خود حکومت کے وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ ہیں۔ رپورٹ میں سرکاری طور پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ایک سال قبل جب موجودہ تیرہ جماعتی اتحاد نے اقتدار سنبھالا تھا، تب سے اب تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تین گنااضافہ ہو چکا ہے جب کہ اس عرصہ میں سرکاری اور نجی شعبہ کے ملازمین کی تنخواہوں اور معاوضوں میں اضافہ برائے نام ہوا ہے، یوں اس مہنگائی کا تمام تر بوجھ عام آدمی کو اپنی گردن پر برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب مہنگائی سے عوام کی کمر توڑ دینے کے باوجود حکومت نے ایک سال میں قرضوں کے حصول کے ماضی کے تمام ریکارڈ بھی توڑ دیئے ہیں، یہاں بھی کسی غیر مستند ادارے نہیں خود حکومت کے مرکزی ریاستی بنک کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ایک سال میں وفاقی حکومت نے 14 ہزار نو سو ارب روپے کا ریکارڈقرضہ لیا۔ اپریل2022ء میں ملک پر 43 ہزار 705 ارب کا مجموعی قرضہ تھا، اپریل 2023ء میں ملک پر مجموعی قرضوں کا حجم 58 ہزار 599 ارب روپے ہو گیا، وفاقی حکومت نے ایک سال میں ہر روز اوسطاً 41 ارب روپے کا قرضہ لیا، وفاقی حکومت نے ایک سال میں مجموعی ملکی قرض کا 34 فیصد قرض لیا، اپریل 2023ء ، ایک ماہ میں وفاقی حکومت نے 14 سو 76 ارب روپے کے ریکارڈ قرضے لیے، اپریل میں بیرونی قرضے نا ملنے کے باعث 99 فیصد قرضے مقامی ذرائع سے لیے گئے، ایک سال میں بیرونی قرض 49 فیصد 7259 ارب روپے بڑھ کر 22 ہزار 50 ارب ہو گیا، ایک سال میں اندرونی قرض 34 فیصد 7 ہزار 635 ارب روپے بڑھ کر 36 ہزار 549 ارب ہو گیا۔
مہنگائی اور قرض کے سرکاری اعداد و شمار قومی معیشت کی زبوں حالی کی تصویر کشی کرنے کے لیے کافی ہیں، ظلم یہ ہے کہ غربت، مہنگائی اور بے کاری و بے روز گاری کے یہ سارے زخم حکمرانوں نہیں عوام کو، پہلے سے زخموں سے چور جسم پر برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، اتنا بھاری بھر کم قرض عوام کی فلاح و بہبود پر نہیں بلکہ حکمرانوں کی عیش و عشرت اور اللے تللوں پر خرچ کیا جا رہا ہے، افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ نادہندگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی معاشی تباہ حالی کے باوجود حکمران شاہانہ طرز زندگی ترک کرنے کو تیار ہیں اور نہ سادگی اختیار کر کے بچت کی کوئی صورت نکالنے پر آمادہ ہیں۔ ان حالات میں عوام کو سوچنا ہو گا کہ وہ بار بار ان آزمائے ہوئے لوگوں کو ہی آزماتے رہیں گے یا اپنے اندر سے درد دل رکھنے والے، شریف و سادہ، امانت و دیانت کے علم بردار اور خدمت کے پیکر لوگوں کو بھی قوم کی تقدیر سنوارنے کا موقع دیں گے…؟؟؟
(حامد ریاض ڈوگر)