ارضِ خیرآباد تیری خیر ہو!

پچھلے دنوں ہمارے پیارے وطن کی ایک پیاری پارٹی کے پیارے پیارے پیڑ سے اس کے پُرانے پُرانے پنچھی پرواز کرگئے۔ پُرانے ہی نہیں، مارے ڈر کے اُس کے پَپُّو پرندے بھی بھرّا مار کر اُڑ گئے۔ ہُش ہُش کرکے اُڑاتے وقت جس ’پا، جی‘ نے ان سیاسی پرندوں کو پروانۂ پرواز تھمایا تھا، اُس نے سب اُڑنچھوؤں کو ایک ہی مضمون کا منقول بھی تھما دیا۔ سو، ہر رٹُّو توتا یا توتی، ٹی وی پر آتا یا آتی، اپنی رٹی رٹائی سناتا یا سناتی، پھر آخر میں یہ اعلان بھی فرماتا یا فرماتی کہ ’’میں نے آج سے پارٹی اور سیاست کو ’خیرآباد‘ کہہ دیا ہے‘‘۔

مکھی پر مکھی مارتی ہوئی اِن مکّھنی تقاریر سے معلوم ہوا کہ پنچھیوں کو پتا ہی نہ تھا کہ وہ پارٹی اور سیاست کوکیا کہہ کر اُڑ گئے ہیں۔

’خیرآباد‘ نہ صرف وطنِ عزیز کے صوبہ خیبر پختون خوا میں ضلع نوشہرہ، تحصیل جہانگیرہ کے ایک خوب صورت قصبے کا نام ہے، بلکہ ہمارے صوبہ بلوچستان میں بھی ایک دُور اُفتادہ مقام کا یہی نام ہے۔ ایران میں اس نام کے کئی مقامات ہیں۔ بھارتی صوبے اُتّرپردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے 80کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک تاریخی قصبے کا نام بھی خیرآباد ہے۔ تحریکِ آزادی کے مشہور رہنما اور متعدد کتابوں کے مصنف مولانا فضلِ حق خیرآبادی شہید کا تعلق اسی آبادی سے تھا۔ ہمارے شہر کراچی کی ابراہیم اسمٰعیل چندریگر روڈ کے آخری سرے پر واقع ’خیرآباد کافی ہاؤس‘کو مدتوں ہماری اور ہمارے ہم قلم ساتھیوں کی مستقل بیٹھک بنے رہنے کا فخر حاصل رہا۔ نہ جانے اس کافی ہاؤس کا نام کون سے خیرآباد پر ہے اور پارٹی چھوڑکر بھاگنے والے، بھاگتے وقت ’پارٹی اور سیاست کو‘ ان میں سے کون سا ’خیرآباد‘کہہ گئے ہیں؟

ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی کا پختہ خیال ہے کہ پرندوں نے خود پارٹی نہیں چھوڑی، ہینگ لگاکر اُن سے چھڑائی گئی ہے۔ پپوؤں کی مائیں اپنے پپوؤں کا دودھ اسی طرح چھڑاتی ہیں۔ خیر، اِن پاپی پرندوں کے ساتھ جو ہوا، اس سے بحث نہیں۔آپ جانیں، ہمیں تو اصلاحِ سیاست سے زیادہ اصلاحِ زبان کی فکر کھائے جاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر زبان سلامتی کے ساتھ چلتی رہے تو پورا جسم سلامت رہتا ہے۔ ورنہ ہلتی تو صرف چھٹانک بھر کی زبان ہے، اور اس چھٹنکی کے ہلنے کی پاداش میں من من بھر اور ٹن ٹن بھر وزنی جسم و جان کو ڈھوکر پریس کانفرنس میں لے جانا پڑتا ہے تاکہ پارٹی اور سیاست کو ’خیرآباد‘ کہہ کر ہانپتے کانپتے صحیح سلامت گھر واپس آسکیں۔

صاحبو! پہلے ہوتا یہ تھا کہ تازہ بستیاں آباد کرنے والے جب خیر کی اُمیدوں اور خیر کی تمناؤں سے کوئی بستی آباد کرتے تو اُس کا نام ’خیرآباد‘ رکھ دیتے، خواہ بعد کو وہاں خیر رہے یا نہ رہے۔ ہم نے بھی اپنی آرزوؤں کا دارالحکومت بسایا تو اس کا نام ’اسلام آباد‘ رکھ دیا۔ جانتے تو ’خیرآباد‘ کہنے والے بھی ہوں گے کہ سیاست کے جہانِ شرّیت میں خیریت کہاں؟ ’خیر آباد‘ کہنے کے باوجود پارٹی ہی میں کسی قسم کا خیر، آباد ہو پائے گا نہ سیاست میں۔ بقول سلیمؔ احمد:

پھر وہی زُلف و خال کے قصے
پھر وہی داستانِ دانہ و دام

دام سے پھڑ پھڑا کر باہر نکل آنے والے پرندوں اور شاخ سے بھرّا مار کر اُڑ جانے والے پنچھیوں کا پیچھا کیا کرنا؟ صیادوں (یعنی چڑی ماروں) کو البتہ بتانا ہے کہ پنجرہ کھول کر پرندے اُڑاتے وقت یا رخصتی اور خدا حافظی کے وقت سکھایا جانے والا الوداعی کلمہ ’خیرآباد‘ نہیں، ’خیرباد‘ ہوتا ہے۔ ’خیرباد‘ کا مطلب ہے ’’او تہاڈی خیر ہووے‘‘۔ یہ گویا ایک دعا ہے اور فارسی ترکیب ہے۔ ’خیرباد‘ کا اُردو ترجمہ کرنا چاہو تو ’بھلا ہو‘ کہہ لو۔ رخصتی خواہ بخوشی عمل میں آئے یا بالجبر، بھلے لوگ دعائیں ہی دیتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔ ’میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے‘۔ میرؔصاحب نے یہ دعا نہ جانے کس موقعے پر دی ہوگی، مگرشاہِ اودھ واجد علی شاہ کو جب انگریزوں نے قید کیا اور انھیں لکھنؤ سے مٹیا برج کلکتہ لے جانے لگے تو شاہ جی نے اہلِ لکھنؤ کے لیے ایک الوداعیہ اور دعائیہ شعر کہا، جو آج ضرب المثل بنا ہوا ہے:

در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

سیاسی مسافروں کو ’خیرآباد‘ ہی کہنے کا نہیں، اپنے حق میں ’زندہ باد‘کے نعرے لگوانے کا بھی بڑا چسکا ہے۔ چوں کہ یہ نعرہ پُرانے زمانے سے مسلسل لگتا چلا آرہا ہے، چناں چہ اِسے کسی نے ’زندہ آباد‘کہنے، لکھنے، پڑھنے، رٹنے یا رٹوانے کی کوشش نہیں کی۔ ’زندہ باد‘ کا مطلب ’زندہ رہے‘۔ پہلے زندہ باد کے نعرے اُسی شخص کے حق میں لگائے جاتے تھے جس میں زندگی کے کچھ آثار دکھائی دیتے ہوں۔ ہٹّے کٹّے، تندرست وتوانا اور زندہ قسم کے رہنماؤں ہی کو مزید زندہ رہنے کی دعا دینے کے لیے یہ نعرے لگتے تھے۔ نحیف و نزار رہنماؤں کو بھی حاجت مند جان کر یہ دعا دے دی جاتی تھی۔ مگر جب نعرے بازوں کی فارسی تو کیا اُردو سے بھی آشنائی نہ رہی تو ’زندہ باد‘ کا نعرہ تضحیک اور استہزا بن کر رہ گیا۔ مُردہ رہنمائوں کے حق میں ’زندہ باد‘ کے نعرے لگانا اورجذباتی انداز سے دونوں مُٹھیاں بھینچ کر اور آسمان کی طرف مکے لہرا لہرا کر، مرحوم کو مکار قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کرنا کہ ’’زندہ ہے فلانا زندہ ہے‘‘ [مَکر کیے قبر میں لیٹا ہے] ایک سیاسی فیشن بن گیا۔ آخر الذکر نعرہ مدفون مرحوم سے حد درجہ مذموم مذاق ہے۔ وہ توشکر کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ انسانوں، بالخصوص نعرے بازوں، کے کانوں کو یہ صلاحیت نہیں بخشی کہ قبر سے نکلنے والی گالیوں کی آواز سُن سکیں۔ سُن سکتے توسکتے میں آکر خود بھی درگور ہوجاتے۔ عوام جس سے خفا ہوں اُس کو بھی زندہ درگور کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ اُس کے لیے ’مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ مطلب ’موت آئے، مرجائے‘۔ ہم اپنے قومی ترانے میں پاک سرزمین کو ’شادباد‘کی دعا دیتے ہیں۔ ’شادباد‘ کا مطلب ہے ’خوش رہے، خوش حال رہے، سرسبز رہے، شاداب رہے‘۔ شادباد کی جگہ ’شاد باش‘ کہا جائے تو اس کا مطلب ہوگا ’خوش رہو‘۔ یہی ’شادباش‘ کثرتِ استعمال سے ’شاباش‘ ہوگیا ہے۔ یہ نکتہ یاد رکھیے کہ وطن یا وہ ادارے جن سے ہمیں محبت ہے، مگر اُن کا شمار زندہ انسانوں میں نہیں ہوتا، اُن کے لیے ’زندہ باد‘ کا نعرہ لگانا مضحکہ خیز ہے۔ اُن کے حق میں ’پائندہ باد‘ کا نعرہ لگنا چاہیے۔ پائندہ بادکا مطلب ہے ’قائم رہے، دائم رہے، برقرار رہے، پائدار رہے، مستحکم رہے‘۔ اسی طرح ’تابندہ باد‘ کا مطلب ہے ’چمکتا رہے‘۔ اور ’ہرچہ بادا باد‘ کا مطلب ہے’جو ہونا ہے، ہوجائے‘، ہمیںکوئی پروا نہیں۔

خیر، بات ہورہی تھی خیرباد کی۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ’خیرباد‘ ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کا مطلب ہے ’خیر رہے‘۔ ’خیر‘ کا لفظ ہمارے ہاں شرانگیزی کی دھمکی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’’تمھاری خیر اب اسی میں ہے کہ دفع ہوجاؤ‘‘۔کیا عجب کہ پارٹی کے پرندوں سے یہی کلمہ کہا گیا ہو۔ ’خیر منانا‘ یوں تو بھلائی، عافیت اور سلامتی چاہنے کے معنیٰ دیتا ہے، مگر جب کسی سے کہا جائے کہ ’’تم اپنی خیرمناؤ‘‘ تو اس کا مفہوم بھی یہی نکلتا ہے کہ اب کسی شر کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔تیاری تو صاحب! اس مہینے ’بکرا عید‘ منانے کی بھی، کی جائے گی مگر اب دیکھیے ’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘۔ سنا ہے کچھ [سیاسی] ’ماؤں‘ نے مارے ڈر کے ’خیر منانے‘ کا ارادہ ہی ترک کردیا ہے کہ اب کی ’عیدِ قرباں‘ پر جو’ماں‘ بھی خیرمنائے گی ’بکرے کی ماں‘ بن جائے گی۔

صاحبو!لکھنے کوتو ہم نے لکھ مارا کہ لکھ کر دینے والوں کو ’خیرآباد‘ نہیں، ’خیرباد‘ لکھنا چاہیے تھا۔مگر ہمیں یقین ہے کہ اور باتوں کی طرح ہماری یہ بات بھی سنی ان سنی کر دی جائے گی۔لوگ باگ ’خیرآباد‘ ہی لکھتے، پڑھتے، بولتے، رٹتے اور رٹواتے رہیں گے۔ لہٰذایہیں بس کرتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو ہم بھی کوئی پریس کانفرنس فرمارہے ہوں اور کل ہی سے ’ابونثر خیر آبادی‘کہلا رہے ہوں۔