امتِ مسلمہ کی کامیابی کا راستہ مسجد اقصیٰ کی آزادی سے ہی وابستہ ہے، فلسطین کو آزاد کرانے کی عظیم ذمہ داری صرف اہلِ فلسطین ہی کی نہیں ہے بلکہ پوری امتِ مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کرنے میں اسرائیل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، آئے روز مختلف طریقوں سے موجودہ نسل کو دینِ اسلام کے طریقے سے پھیرنے کے لیے بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر نواف ہایل تکروری (رئیس علمائے فلسطين)،ڈاکٹر ابراہیم مہنا (رکن ہيئۃ علماء فلسطين) نے راولپنڈی ،اسلام آباد میں فلسطین کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے منعقد ہونے والے سیمینار اورورکشاپس میں کیا ۔ اس ماہ کے ابتدائی عشرے میں ڈاکٹر نواف ہایل تکروری اور ڈاکٹر ابراہیم مہنا پاکستان تشریف لائے۔ دونوں علمائے کرام اصلاً فلسطینی ہیں، لیکن اب ڈاکٹر نواف وہاں سے ہجرت کرکے ترکی میں، اور ڈاکٹر ابراہیم مہنا کویت میں مقیم ہیں۔
مرکز تعلیم وتحقیق کے مدیر مولانا ڈاکٹر حبیب الرحمٰن اور ان کے معاونین نے فلسطینی بھائیوں کی میزبانی کو اپنے لیے اعزاز سمجھا، اور ان کی آمد پر مرکز تعلیم وتحقیق، جامع مسجد الفرقان، جامع مسجد طوبیٰ،جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی اور جماعت اسلامی اسلام آباد کے تعاون سے اساتذہ کرام، علماء، مفتیانِ کرام، طلبہ کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔ مہمانانِ گرامی نے دردِ دل کے ساتھ فلسطین کی حالیہ صورت حال کو بیان کیا، اور صہیونی سازشوں کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے مخاطبین سے اس امر کا مطالبہ کیا کہ یہ درد اہلِ فلسطین کا نہیں ہے بلکہ یہ پوری امت کا مشترکہ درد ہے، اس لیے ہم سب کو فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں وقف کرنا ہوں گی۔ مہمانانِ گرامی نے تمام پروگرامات میں عربی میں تقریر پیش کی، جبکہ مولانا ڈاکٹر حبیب الرحمٰن (مدیر مرکز)، مولانا ڈاکٹر محمد کاشف شیخ (نائب مدیرمرکز)، مولانا عبدالوحید شہزاد (نائب مدیر مرکز)، ڈاکٹر عالم خان (ایسوسی ایٹ پروفیسر شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد) اور عبدالحسیب نے اردو ترجمہ کے فرائض سرانجام دئیے۔
ڈاکٹر نواف ہایل تکروری نے جامع مسجد عبداللہ بن مسعودؓ اسلام آباد میں خطبہ جمعہ کہ فرمایا جس کا خلاصہ ڈاکٹر حبیب الرحمٰن(مدیر مرکز ) نے پیش کیا، جس کے نکات درج ذیل ہیں:
”میرے عزیز بھائیو! مجھے آپ سے ملاقات کرکے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ آج امت ِ مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے اس کا بنیادی سبب تفرقہ اور مسلک پرستی ہے جس کی وجہ سے امت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔صہیونی طاقتوں نے امت کو تقسیم کرنے میں روز اول سے ہی اہم کردار کیا ہے، آج بھی وہ اپنی روش پر چل رہی ہیں۔
آج امت کا سب اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے مقدسات کا تحفظ کریں اور جہاں مسلمانوں کی اراضی پر قبضہ جمایا ہوا ہے ہم ان سے حاصل کرنے کی کوشش کریں،جیسا کہ فلسطین، کشمیر، ترکستان شرقیہ وغیرہ۔
اس حقیقت سے آپ سب واقف ہیں کہ اسرائیل نے فلسطین پر ناجائز تسلط قائم کیا ہوا ہے۔ جبکہ فلسطین ہمارا قبلہ اول اور مسلمانوں کی ملکیت ہے، اس کو آزاد کرانا ہم سب کا فرض ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت 13 یا 14 ملین یہودی فلسطین پر قبضے کے لیے پوری دنیا میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں، ہمیں بھی مجاہدین چاہئیں جو فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی تمام تر کاوشوں کو صرف کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مسجد اقصیٰ کی بقا کے لیے ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی، یہ صرف اہلِ فلسطین کی ذمہ داری نہیں ہے۔
کویت سے تشریف لانے والے مہمان ڈاکٹر ابراہیم مہنا(رئیس علمائے فلسطين) نے جامع مسجد الفرقان اسلام آباد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئےکہاکہسامعین کرام! اللہ رب العزت نے بیت المقدس کی خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ زمینِ مقدس ہے یعنی یہ مطہر زمین ہے، اللہ نے اس کو کفر وشرک سے پاک کردیا ہے۔ اس وقت اسرائیل نے اپنے ناپاک وجود سے اس سرزمین کو ناپاک کیا ہوا ہے، لہٰذا پوری امت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس مقدس زمین کو اسرائیل کے وجود سے پاک کرنے کے لیے اپنے تن من دھن کی قربانی پیش کرے۔
اللہ رب العزت نے اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب تم اس کے دیے گئے احکامات پر عمل کرکے اس کی مدد و نصرت کروگے تو اللہ رب العزت بھی تمہاری مدد فرمائے گا۔ اس لیے بحیثیت مسلم ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اللہ کی مدد و نصرت کریں تو اللہ رب العزت ہماری نصرت فرمائیں گے۔ دریں اثناجماعت اسلامی اسلام آباد اور مرکز کے اشتراک سے الفلاح ہال میں بھی فلسطین کی موجودہ صورت حال کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر عالم خان (ایسوسی ایٹ پروفیسر شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد) نے ڈاکٹر ابراہیم مہنا کی گفتگو کا ترجمہ اردو میں پیش کیا۔
مہمان گرامی فلسطین، اہلِ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو درپیش خطرات سے شرکاء کو آگاہ کررہے تھے کہ اسرائیلی صہیونی حکومت نے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے تقسیم زمانی اور مکانی کرکے سورج کے طلوع سے ظہر تک کا وقت یہودیوں کے لیے مختص کررکھا ہے، اس میں کسی اور کو مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت نہیں۔ مسجد اقصیٰ کا احاطہ بہت بڑا ہے، اس لیے ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے الگ الگ جگہ ہونی چاہیےـ یہود خود مشرقی حصے پرقابض ہیں جہاں غیر یہودی کے داخلے پر پابندی ہے۔
مسجد اقصیٰ کی سرپرستی ایک اہم مسئلہ ہے، اس لیے ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ یہ مقدس مکان ہے اور اس کی سرپرستی صرف اُن کا حق ہے۔ اس لیے اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے انھوں نے کئی پابندیاں لگائی ہیں، کبھی عمر کی قید تو کبھی کسی سرگرمی کے نام پر… مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کا داخلہ روکا جائے۔ اسی طرح ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا راستہ ہموار کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ کے نچلے حصے کی کھدائی وقتاً فوقتاً کرکے میوزیم اور تفریحی مقامات بنائے جارہے ہیں۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ ہماری لڑائی فاسدین اور مفسدین سے ہے، اس لیے ہمیں صالحین اور مصلحین کی ضرورت ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اسلام کے دفاع اور ترجمانی کا حق ادا کریں۔
مولانا ڈاکٹر محمد کاشف شیخ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ فلسطین سے ہمارے بھائی تشریف لائے ہیں اور اس ملاقات کا واحد مقصد یہ ہے کہ فلسطین کی موجودہ صورت حال بیان کی جائے اور اسرائیل کے ظلم سے نجات کے لیے امتِ مسلمہ کن طریقوں سے اپنی خدمات پیش کرسکتی ہے۔ ہم اپنے مہمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اہلِ فلسطین کے ساتھ ہیں اور فلسطین کو اسرائیل کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر میاں محمد اسلم نے خطاب کرتے ہوئے کہا: فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور اس کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔ اسرائیل کا قیام عالمی استعماری طاقتوں کی ایک سازش کا شاخسانہ ہے۔ اسرائیل کو قائم کرکے مسلمانوں کے سینوں، دلوں اور کمر میں خنجر گھونپا گیا ہے جس کی پشت پر برطانیہ، امریکہ اور رشیا ہیں۔ لیکن اُس وقت سے لے کر آج تک پوری امت اور اہلِ فلسطین اس کی آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔
شعبہ امور خارجہ کے ڈائریکٹر آصف لقمان قاضی نے مہمان گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: ازراہ تذکیر میں یہ بات دہرائوں گا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف اہلِ فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔ ہم اس کی یقینی دہانی کرواتے ہیں کہ جماعت اسلامی اور پاکستانی عوام فلسطین کے ساتھ ہیں، اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں رچی ہوئی ہے۔ شروع ہی سے ہم فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں اور اب بھی ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کو یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ہم فلسطین کو آزاد کرائیں گے اور ایک ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کریں گے۔