قدیم اعصابی مرض ملٹی پل اسکلروسیس کا عالمی دن

علاج نہ ہو تو مریض پانچ سال کے اندر مستقل معذوری کا شکار ہوجاتا ہے نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن کے تحت آغا خان اسپتال میں سیمینار سے ماہرین کا اظہار خیال

ملٹی پل اسکلروسیس دنیا بھر میں سب سے عام اعصابی عوارض میں سے ایک ہے، ایک اندازے کے مطابق 2.8ملین افراد اس سے متاثر ہیں، دنیا بھر میں ہر پانچ منٹ میں ایک شخص میں اس بیماری کی تشخیص ہورہی ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اعصابی مرض ملٹی پل اسکلروسیس کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔

اسی ضمن میں نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن کے تحت آغا خان اسپتال میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد ملٹی پل اسکلروسیس (MS) کے بارے میں بیداری پیدا کرنا تھا، جو ایک دائمی آٹو امیون بیماری ہے جو مرکزی اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ سیمینار میں صحت کی دیکھ بھال، ڈاکٹروں، مریضوں اور متعلقہ موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس اہم موضوع پر سیمینار کو بڑی تعداد میں لوگوں نے زوم پر بھی دیکھا۔ سیمینار کے کلیدی مقررین میں نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع اور جنرل سیکریٹری پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک، سربراہ شعبہ نیورولوجی ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز و معروف نیورولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر نائلہ شہباز، آغا خان اسپتال کی ریسرچ ایسوسی ایٹ آف نیورولوجی ڈاکٹر شفق سلیم، پمز اسپتال کے ڈاکٹر ماجد حارث، آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر ظفر سجاد اور ڈاکٹر میاں ایاز الحق شامل تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے جلد تشخیص اور بروقت علاج کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جس سے بیماری کے بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے اور مریضوں کے لیے نتائج کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اُن کا موضوع سے متعلق گفتگو میں مزید کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ملٹی پل اسکلروسیس کا عالمی دن منانے کا مقصد پاکستانیوں کو اس مرض سے آگہی دینا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی اعصابی (دماغی) نظام میں پیدا ہونے والی ایک بیماری کا نام ملٹی پل اسکلروسیس (ایم ایس) ہے۔ یہ ایک قدیم مرض ہے جو اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے اس مرض کی تشخیص صحت کے حوالے سے بیداری اور ماہرین کی مہارت میں اضافے کی وجہ سے باآسانی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیماری عام طور پر 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں کو ہوتی ہے، بالعموم لڑکیوں میں یہ بیماری زیادہ دیکھی گئی ہے، یہ ایک سوزشی بیماری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیماری میں بینائی چلی جاتی ہے جسے آپٹک نیوریٹک کہتے ہیں، ہاتھ پائوں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں انسان چلنا پھرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اہم بات ڈاکٹر محمد واسع نے یہ بتائی کہ اس بیماری کو بآسانی تشخیص کیا جا سکتا ہے، کوئی بھی نیورولوجسٹ مریض کے طبی معائنے اور ایم آر آئی کے نتیجے میں اس بیماری کی تشخیص کرسکتا ہے۔ اس بیماری کا دنیا بھر میں علاج موجود ہے، اور اگر علاج نہ ہو تو مریض پانچ سال کے اندر مستقل معذوری کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، یا زندگی بھر کے لیے بینائی سے محروم ہوجاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوائوں کے نتیجے میں اس بیماری کا شکار افراد نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن ملٹی پل اسکلروسیس کی دوائیں بہت مہنگی ہیں جنہیں ہر فرد خرید نہیں سکتا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مفت دوائوں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

ڈاکٹر نائلہ شہباز کا کہنا تھا کہ پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ بیماری پاکستان میں عام نہیں ہے، لیکن جوں جوں نیورولوجسٹس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، مریضوں کی تشخیص درست ہورہی ہے مریض بڑھتے جارہے ہیں۔ ملٹی پل اسکلروسیس کے علاج کے لیے آف لیبل ڈرگس زیادہ استعمال ہورہی ہیں۔ آف لیبل دوائیں وہ دوائیں ہیں جن کے بارے میں تحقیق نہیں ہوئی کہ یہ اس بیماری میں کتنی مؤثر ہیں، اور انہیں مجبوری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ سندھ کے ساتھ پروجیکٹ شروع کیا تھا جس کے تحت ملٹی پل اسکلروسیس کے 200 مریضوں کو سال میں دو انجکشن مفت لگائے جانے تھے، اس پروجیکٹ کے تحت 67 مریض رجسٹرڈ ہوئے تھے جنہیں صرف ایک ہی خوراک دی گئی ۔ اب یہ پروجیکٹ رکا ہوا ہے۔ حکومتِ سندھ کو چاہیے کہ اس پروجیکٹ کو دوبارہ شروع کرے، کیونکہ جن مریضوں کا علاج رک جائے ان کی بیماری ری لیپس ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں یہ اہم بات سامنے آئی ہے کہ حکومتِ سندھ کے ساتھ ہونے والا معاہدہ رک گیا ہے، انجکشن کی فراہمی شروع نہیں ہوسکی، ایل سیز نہ کھلنے کے سبب دوائوں کی قلت کا سامنا ہے اور ڈاکٹر حکومت سے مریضوں کو مفت ادویہ فراہم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے اور ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے ملٹی پل اسکلروسیس کی دوائوں کی بھی قلت کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں ملٹی پل اسکلروسیس کی دوائیں مفت فراہم کرتی ہیں، حکومتِ پاکستان اور صوبائی حکومتوں کو بھی اس بیماری میں مبتلا افراد کو مفت دوائیں فراہم کرنی چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کی ترجیحی فہرست میں ملٹی پل اسکلروسیس کی دوائیں شامل ہوں تو دوائوں کی قلت نہ ہو، لیکن حکومت کی ترجیحات میں یہ شامل نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان دوائوں کو پاکستان میں تیار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ملٹی پل اسکلروسیس کی بیماری کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن پڑوسی ملک ایران میں ایک لاکھ میں سے 25 افراد اس بیماری کا شکار ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایک لاکھ کی آبادی میں 10 سے 25 افراد اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن دماغی و اعصابی بیماری کے ماہرین کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹروں کو تربیتی ورکشاپ کے ذریعے تربیت دے رہی ہے تاکہ اس بیماری کی تشخیص ممکن ہو اور بروقت تشخیص کے نتیجے میں اس بیماری کا شکار نوجوانوں کو معذوری سے بچایا جا سکے۔

مجموعی طور پر سیمینار کا مقصد ایم ایس کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور مریضوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کو اپنے تجربات اور خیالات کا تبادلہ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔ نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کو اس طرح کی معلوماتی اور پُراثر تقریب کے انعقاد پر سراہا جانا چاہیے۔ امید ہے کہ ایم ایس اور دیگر اعصابی عوارض کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور تعاون کو جاری رکھنے کے لیے مستقبل میں بھی ایسے ہی اقدامات کیے جائیں گے۔