انتخابات ہی سیاسی بحران کے خاتمے کا نقطۂ آغاز ہو سکتا ہے
پاکستان میں سیاسی تجربوں کا کھیل بہت پرانا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے فیصلہ سازوں یا طاقت کے مراکز نے اپنی جانب سے اختیار کیے جانے والےسیاسی مہم جوئی کے تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بطور ریاست جمہوریت کی مضبوطی کے مقابلے میں کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں۔ 9مئی کے پُرتشدد واقعات نے پی ٹی آئی اور عمران خان کی سیاست کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے۔ ان واقعات کو بنیاد بناکر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے پی ٹی آئی پر جس طرح چڑھائی کی ہے اس کی توقع شاید خود پی ٹی آئی کو بھی نہیں تھی۔ 9مئی کے واقعات سے قبل پی ٹی آئی ایک اور پوزیشن پر کھڑی تھی مگر 9 مئی کے واقعات نے اس کی سیاسی پوزیشن کو خاصا کمزور کردیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں نے مل کر عمران خان کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیا ہے اور ان کے بقول 9مئی کے جو بھی واقعات ہوئے ہیں اس میں عمران خان کی رضامندی شامل تھی۔ 9مئی کے واقعات کی بنیاد پر ہمیں سیاسی مہم جوئی اور نئے سیاسی جوڑ توڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے سابق ارکان اسمبلی کی تحریک انصاف سے سیاسی بنیاد پر علیحدگی اور سیاست چھوڑنے کا عمل ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض بڑے نام بھی اس لہر میں بہہ گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ بھی پی ٹی آئی چھوڑ رہے ہیں وہ بجھے دل کے ساتھ یا آنسوئوں سے ایسا کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ جو لوگ بڑی تعداد میں اس وقت پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں وہ نہ صرف 9مئی کے واقعات کی مذمت کررہے ہیں بلکہ خود کو ان معاملات سے الگ تھلگ اور سیاست چھوڑنے کا عملی طور پر اعلان کررہے ہیں۔ جو لوگ بھی پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ خود سے سیاست چھوڑنے کا اعلان کررہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ہر صورت میں عمران خان کا راستہ روک رہے ہیں، اور کیا وہ عمران خان کو نااہل کرسکیں گے یا ان کی جماعت کو سیاست سے بے دخل کردیا جائے گا؟ عمران خان پر چار طرح کے دبائو ہیں:
اول: سیاسی نااہلی، دوئم: سیاسی جماعت پر پابندی، سوئم: مختلف نوعیت بشمول دہشت گردی کے مقدمات، چہارم: عمران خان کی قیادت سے دست برداری اور نئی قیادت کا انتخاب
یہ چاروں نکات مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی بہت عرصے سے ایک بیانیے کے طور پر پیش کررہی تھیں، لیکن 9مئی کے واقعات کے بعد ان مطالبات میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جس انداز سے پی ٹی آئی کی قیادت یا دیگر ارکانِ اسمبلی پارٹی چھوڑ رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر پارٹی چھوڑنے یا سیاست چھوڑنے کے لیے سخت دبائو ہے۔ پارٹی یا سیاست چھوڑنے کا جو انداز اختیار کیا جارہا ہے وہ خود اپنے اندر کئی طرح کے سوالات رکھتا ہے اور معاملات کو بہت حد تک مشکوک بناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے 9مئی کے واقعات پی ٹی آئی کے لیے 9/11 ثابت ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی پوری قیادت کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے بقول اس وقت ان کے آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ جیلوں میں ہیں اور ان پر فوجی عدالتی کارروائی بھی کی جارہی ہے جو انسانی حقوق کے منافی ہے۔ پی ٹی آئی نے ان تمام اقدامات کو عدالت میں چیلنج کررکھا ہے اور ان کے بقول ان کے خلاف انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔
پچھلے دنوں راقم کو دیگر صحافیوں کے ہمراہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے ایک تفصیلی ملاقات کا موقع ملا اور 9مئی کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر اُن کا نقطہ نظر بھی سنا اور کافی تنقیدی سوالات بھی ہوئے۔ اس ملاقات میں عمران خان کا مؤقف تھا کہ جو کچھ اس وقت ان کے خلاف یا ان کی جماعت کے خلاف ہورہا ہے وہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے جسے وہ اپنے خلاف لندن پلان کا حصہ ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول 9مئی کے واقعات کو بنیاد بناکر پارٹی کو دیوار سے لگانا اور لوگوں کو دبا کر یا ڈرا کر ان کی وفاداریاں تبدیل کرانا ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اسٹیبلشمنٹ سمیت حکومت کو کھلا چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مزید دو تین ہفتے لے لیں اور میری پارٹی کو مزید جتنا توڑنا چاہتے ہیں یا ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرانا چاہتے ہیں، کرلیں، جب وہ یہ محسوس کریں کہ میں کمزور ہوگیا ہوں اور پارٹی کے لوگ مجھے چھوڑ گئے ہیں تو نئے انتخابات کا اعلان کردیں تاکہ میں ان سب کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرسکوں۔ عمران خان کے بقول اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے بعض حلقے ایک خاص سیاسی ایجنڈے کے تحت ان کو ہی انتخابی عمل سے باہر نکالنا چاہتے ہیں جس میں ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ عمران خان نے ہم سے اعتراف کیا کہ انہوں نے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، پنجاب سے اپنے سابق صوبائی وزیر (جو اب پارٹی چھوڑ چکے ہیں) کرنل ہاشم ڈوگر کی مدد سے کئی پیغام بھیجے، اس کے باوجود کچھ بھی مثبت طور پر سامنے نہیں آسکا۔ عمران خان بدستور بضد ہیں کہ سیاسی لوگوں یا حکومت کے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ ہی ہے جو ان سے مفاہمت یا مذاکرات کرنے کے بجائے انہیں دیوار سے لگانا چاہتی ہے کیونکہ وہ انہیں ہی مستقبل کی سیاست میں اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے، جبکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ فوج ایک حقیقت ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے مخالفین فوج اور ان کے درمیان اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسی میں ان کی سیاسی بقا بھی ہے۔
9مئی کے واقعات کی بنیاد پر حکمران طبقے کا کہنا ہے کہ ان معاملات میں جو لوگ بھی ملوث ہیں ان سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں اگر وہ معافی مانگنے پر تیار ہورہے ہیں یا پارٹی چھوڑنے کا اعلان کررہے ہیں تو ان کے ساتھ حکومتی ہمدردی نظر آتی ہے اور ان کو رہا کردیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 9مئی کے واقعات کو سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ جو لوگ بھی پارٹی چھوڑ رہے ہیں یا جیسے ان سے چھڑوائی جارہی ہے وہ ہماری سیاست اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں، اور اس کا بڑا بوجھ خود اسٹیبلشمنٹ پر پڑرہا ہے۔ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ جو بھی موجودہ سیاسی حالات ہیں ان میں ہماری سیاست، جمہوریت، عدالتی یا انصاف کا نظام، آئین و قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی پاسداری اور میڈیا کی آزادی کے معاملات میں بڑی تیزی سے گراوٹ آئی ہے اور ہم جمہوریت میں مزید پیچھے کی جانب جارہے ہیں جو سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں۔ اس وقت جو کچھ عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے اس میں خود پی ٹی آئی کا بھی اپنا خاصا قصور ہے، مگر جو لوگ پی ٹی آئی کی موجودہ صورت حال پر خوشی کے شادیانے بجاتے یا خوش نظر آتے ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ جو کچھ آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے کل وہ ان کے ساتھ بھی ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ خود متحد نہیں ہوتیں، بلکہ اپنی سیاسی تقسیم سے جمہوریت کو کمزورکرنے کا سبب بنتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا، توڑنا، ان کی وفاداریوں کو تبدیل کرنا، متبادل سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی مدد سے پاپولر سطح کی سیاسی جماعتوں کو کمزور یا ختم کرنا، قیادت کی نااہلی، سیاسی جماعتوں پر پابندی جیسے امور مسائل کا حل نہیں۔ ماضی میں ہم اس طرح کے کئی تجربات دیکھ چکے ہیں جو سیاست اور جمہوریت کو مزید خراب کرتے ہیں۔ عمران خان کی نااہلی یا ان کی جماعت پر پابندی مسائل کا حل نہیں، بلکہ یہ مسائل کو اور زیادہ گمبھیر بنادے گی۔ ماضی میں ہم یہ تجربات پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے خلاف بھی کرچکے ہیں مگر ان اقدامات سے کچھ بھی مثبت برآمد نہ ہوسکا اور نہ ہی اب ہوگا۔ عمران خان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی حکمت عملی، یا انہیں سیاسی منظر سے ہٹانا اور ان کے مقابلے میں ان کے سیاسی مخالفین کو مضبوط بنانا، یا نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل جیسے اقدامات بحران کو مزید بڑھا دیں گے۔ پنجاب میں ایک طرف جہانگیر ترین کو پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر سامنے لایا جارہا ہے، دوسری طرف مسلم لیگ (ق) میں بھی سیاسی ہوا بھری جارہی ہے۔ پنجاب میں جہانگیر ترین اور مسلم لیگ (ق) کو طاقت دینے کی جو کوشش فیصلہ ساز کررہے ہیں اس پر خود مسلم لیگ (ن) میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہے کہ ہمارے مقابلے میں پنجاب میں پیپلزپارٹی، جہانگیر ترین اور مسلم لیگ (ق) کے لیے پسِ پردہ قوتوں کی جانب سے حمایت کا مقصد ہماری سیاسی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ ایسا کرنے والے کون ہیں اور کیوں وہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ اس کھیل میں پسِ پردہ قوتیں ہی شامل ہیں جو ایک ہی وقت میں مختلف سیاسی حکمت عملیوں اور نئے سیاسی جوڑ توڑ یا نئی جماعتوں کی تشکیل کی مدد سے عمران خان کو دیوار سے لگانا چاہتی ہیں۔ ہمیں تو بتایا جارہا تھا کہ اب اسٹیبلشمنٹ سیاسی مداخلت سے گریز کرے گی، مگر ایسا لگتا ہے کہ جہانگیر ترین اُن کے نئے کھلاڑی ہیں، اور یہ کھیل ظاہر کرتا ہے کہ نشانہ ایک نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں کئی جماعتیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اب پیپلزپارٹی کے لیے حمایت میں نیا سیاسی دربار سجایا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی اوراسٹیبلشمنٹ کا نیا سیاسی رومانس بھی سب کے سامنے ہے، اور سے مسلم لیگ (ن) اپنے لیے خطرہ سمجھ رہی ہے، ان کے درمیان اس بارے میں گفتگو بھی ہورہی ہے کہ ہمیں سیاسی طور پر اسٹیبلشمنٹ نے استعمال کیا ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ جہانگیر ترین ہوں یا مسلم لیگ (ق)، کیا یہ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ کرسکیں گے؟ جواب نفی میں ہوگا، کیونکہ ان کی اپنی کوئی سیاسی حیثیت نہیں۔ ماضی میں بھی جہانگیر ترین نے عمران خان کی حمایت میں جو کچھ کیا وہ ان کی صلاحیت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے تھا۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی مخالفت میں جہانگیر ترین، مسلم لیگ (ق) یا پیپلزپارٹی کو سیاسی طاقت فراہم کرتی ہے تو اس کو سیاسی انجینئرنگ ہی سمجھا جائے گا۔ جو لوگ پنجاب میں پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں ان پر اب یہ بھی دبائو ہے جو ہمیں آنے والے دنوں میں نظر آئے گا کہ وہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں کس جماعت میں جاتے ہیں۔ کیونکہ جب طاقت ور کسی نئی جماعت کو نئی طاقت کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ہمارے سیاسی پنچھیوں کا رخ اسی کی طرف ہوتا ہے۔ اس لیے اگر لوگ زیادہ تعداد میں جہانگیر ترین یا مسلم لیگ (ق) میں جاتے ہیں تو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کون کیا چاہتا ہے، اور کس کی ہم سیاسی محاذ پر سرپرستی کررہے ہیں اور کس کو سیاسی طور پر تنہا کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اپنے قومی مسائل کسی مخلوط یا عملی طور پر کمزور حکومت کی مدد سے حل کرسکتے ہیں تو یہ غلط فہمی جلد دور ہوجانی چاہیے۔ ہمیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام کو مضبوط بنانا ہے، اور ان کو جو بھی کمزور کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے اس کی نفی کرنا ہوگی۔ جہانگیر ترین یا مسلم لیگ (ق) چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ پنجاب کی عملی سیاست میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ایک حقیقت ہیں، جنہیں تسلیم کرکے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن ان کو کمزور کرکے مصنوعی سطح کی قیادت کو سامنے لانا یا نئی جماعتوں کو کسی کی حمایت یا مخالفت میں تشکیل دینا مسئلے کا حل نہیں ہے، اس سے سب کو ہی گریز کرنا چاہیے تاکہ ہم سیاسی اورجمہوری نظام کو مضبوط بناسکیں۔ نوازشریف کی واپسی کے بارے میں بھی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ وہی کھیل ہے جو پرانی طرز پر چلایا جارہا ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ ہم سب کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ لانا چاہتے ہیں مگر دوسری طرف عمران خان کے ساتھ جو ہورہا ہے کیا وہ بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کے زمرے میں آتا ہے؟ تو جواب نفی میں ملتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اب حالات ماضی سے بہت مختلف ہیں، اورسب ہی یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی سیاست میںفرنٹ فٹ یا بیک فٹ پر کون کون سے فریق اپنا اپنا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اب ردعمل کی سیاست کاغلبہ نظر آتا ہے اور لوگ براہ‘ راست ریاستی اداروں پر تنقید کررہے ہیں کہ مجموعی طور پر ہم سب اپنی اپنی ریڈلائن کراس کررہے ہیں۔ہمیں کسی بھی طور پر مائنس ون فارمولے کی ضرورت نہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مل کر انتخابات کی طرف پیش رفت کریں، یہی حکمت عملی بحران سے بچانے میں نقطہ آغاز ثابت ہوگی، کیونکہ انتخابات سے فرار کی پالیسی او رکسی کی جیت سے ڈر کر انتخابی عمل سے گریز ہمیں مزید پیچھے کی طرف دھکیل دے گا۔