کہانی پلٹ گئی؟

پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جب بھی کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا گیا، اسے ختم نہیں کیا جاسکا۔

ملک کا سیاسی منظرنامہ تقریباً بدل چکا ہے، اور عام انتخابات بھی اب سر پر ہیں، رواں سال اکتوبر میں انتخابات ہوجائیں گے۔ اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ تحریک انصاف کا حالیہ بحران، اور دوسری وجہ قانون سازی ہے، جس کی منظوری صدرِ مملکت نے بھی دے دی ہے۔ اس قانون نے نوازشریف، جہانگیر ترین سمیت اُن تمام لوگوں کو اپیل کا حق دے دیا ہے جو عدلیہ کے کسی بھی فیصلے کے نتیجے میں عوامی نمائندگی کے کسی بھی عہدے کے لیے نااہل قرار پائے تھے۔ سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کا کیس بھی اسی وجہ سے غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کیا گیا ہے۔ نئے قانون سے نوازشریف اور جہانگیر ترین کو فائدہ ملنے کی راہ میں شاید ایک رکاوٹ ہے کہ یہ دونوں ثاقب نثار دور میں سپریم کورٹ کے ہی ازخود نوٹس کے جواب میں نظرثانی کی اپیل کا حق استعمال کرچکے ہیں، سپریم کورٹ نظرثانی کی اپیل مسترد کرچکی ہے۔ تاہم یہ ایک قانونی بحث ہے۔ سپریم کورٹ ضرور اس معاملے کی تشریح کرے گی جس سے ان دونوں کے لیے بند یا کھلا ہوا راستہ واضح ہوجائے گا۔ فی الحال تو اس رائے سے اتفاق کیا جارہا ہے کہ نوازشریف اور جہانگیر ترین آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت اپنی نااہلی کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ آرٹیکل 62 (1) (f) کے تحت سپریم کورٹ نے نااہلی کا جو فیصلہ سنایا تھا اس کے خلاف نظرثانی اپیل دائر نہیں کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023ء نامی اس قانون کی منظوری کا نوٹیفکیشن 29 مئی بروز پیر جاری کیا گیا۔ اس قانون کے تحت وہ افراد سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں جو آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس سے متاثر ہوئے تھے۔ ایسے کیسز میں نظرثانی پٹیشن کی سماعت اصل فیصلہ یا آرڈر جاری کرنے والے بینچ کے مقابلے میں لارجر بینچ کرے گا۔ ایکٹ کے مطابق اصل آرڈر جاری ہونے کے 60 روز بعد ریویو پٹیشن دائر کی جا سکے گی۔ نوازشریف اور جہانگیر ترین کے ماضی کے مقدمات کا احاطہ کرنے کے لیے قانون ان متاثرہ افراد کو نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا حق دیتا ہے جن کے مقدمات کا فیصلہ آرٹیکل 184(3) کے تحت اس ایکٹ کی منظوری سے قبل کیا گیا تھا۔

اس قانون پر صدر عارف علوی دستخط کے لیے رضامند کیسے ہوگئے، یہ ایک ہزار بلین کا سوال ہے، اور اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ 9 مئی کے بعد صدر مملکت کی خاموشی نے انہیں تنہا کردیا ہے، اور وہ صدر مملکت کے منصب کے باعث مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں لیکن تحریک انصاف کے حالیہ بحران میں انہیں اپنی پارٹی کی جانب جھکائو کے باعث کڑے سیاسی امتحان سے گزرنا پڑرہا ہے۔ 9 مئی سے قبل بھی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ 2023ء پارلیمنٹ نے منظور کیا اور بعد میں نافذ ہوا، اس پر صدرِ مملکت نے دستخط نہیں کیے تھے، جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس کے باضابطہ نفاذ سے قبل حکم امتناع جاری کردیا تھا اور اسے صدر کے پاس دستخط کے لیے بھیجا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس قانون کے نفاذ کو روک دیا تھا۔ لیکن اب کہانی پلٹ گئی ہے، ان دنوں تحریک انصاف کا ستارہ گردش میں ہے، پارٹی کے درجنوں سینئر راہنما، ٹکٹ ہولڈرز اور کارکن 9 مئی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ گئے ہیں۔ 9 مئی کے واقعے نے ملک کی سیاست میں ایسی ہلچل مچائی کہ تحریک انصاف کی چولیں ہل گئی ہیں۔ جس طرح ہانک کر سیاسی کارکن اور الیکٹ ایبل اس میں شامل کیے گئے تھے اسی رفتار سے یہ لوگ اس طرح باہر نکل رہے ہیں جس طرح زلزلے یا کسی عمارت میں آگ لگنے کی صورت میں لوگ جان بچانے کے لیے ان عمارتوں سے باہر نکلتے ہیں۔ 9 مئی کے ہنگاموںکے خوفناک مضمرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ مناظر کا ایسا سلسلہ نمودار ہوتا جارہا ہے کہ نجانے کون کون سے چراغ بجھیں گے۔ بنی گالہ سے زمان پارک تک ہُو کا عالم ہے۔ تحریک انصاف کی اٹھان کے لیے جس طرح جبری شمولیت کی تحریک چلی تھی اسی طرح جبری اخراج کی تحریک چل پڑی ہےعمران خان کے پاس کوئی نظریہ تھا نہ حکمت، ٹیم تھی نہ تنظیم، اور تحریک انصاف ایک ہی جھٹکے میں تنکوں کا ڈھیر ثابت ہوئی۔

ایک اور پہلو یہ ہےکہ انسانی و شہری حقوق کی پامالی کا داغ پی ڈی ایم کی حکومت اپنے ماتھے پر سجا رہی ہے جو فوجی عدالتوں کی حمایت بھی کررہی ہے۔ لیکن پی ڈی ایم عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے انتخابات کو ملتوی کرنے کا جو غیر جمہوری منصوبہ بنارہی ہے، اُس سے ووٹ کی عزت تو لٹے گی ہی، جمہوریت بھی خوار ہوجائے گی، سیاسی جماعتوں کے مقدر میں ایک بار پھر نئی شکل میں ہائبرڈ نظام آئے گا یا پھر مکمل یا نیم مارشل لا۔

عمران خان کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی جبری علیحدگیوں اور پارٹی ختم کرنے کی کوششوں کو غیر آئینی قرار دینے کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 245 کے نفاذ اور پی ٹی آئی رہنماؤں یا کارکنان کے آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کو چیلنج کیا گیا ہے۔ آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرتے ہوئے وفاقی حکومت، نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان، پنجاب اور خیبرپختون خوا کے نگران وزرائے اعلیٰ سمیت دیگر کو بھی فریق بنایا گیا ہے، اور سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آرٹیکل 245 کے نفاذ کو غیر آئینی، جبکہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سویلینز کا کورٹ مارشل غیر قانونی قرار دیا جائے، اِس کے ساتھ ساتھ عدالت تحریک انصاف کے کارکنوں کی رہائی کا حکم بھی دے۔ انہوں نے عدالتِ عظمیٰ سے 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے علاوہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جبری علیحدگیوں اور اُن کی پارٹی کی تحلیل کی کوشش کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا بھی کی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ خوف اور گرفتاریوں کے ذریعے تحریک انصاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کورکمانڈر ہاؤس لاہوردراصل جناح ہاؤس اور قانونی طور پر سویلین عمارت ہے، اِس حملے کے مبینہ ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل خلافِ قانون ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 9 مئی کے بہانے ریاست ان کی پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے، سب سے بڑی اور واحد وفاقی جماعت کو بغیر کسی احتساب کے ریاستی جبر کا سامنا ہے، 10 ہزار سے زیادہ پی ٹی آئی کارکنان اور حامی جیل میں ہیں اور تشدد برداشت کررہے ہیں۔

عمران خان کی معلومات کا منبع سوشل میڈیا ہی ہے۔ 9 مئی کی بات تو سبھی کررہے ہیں لیکن کوئی اُن کی بات نہیں کررہا جنہوں نے ایک بے مقصد ہائبرڈ نظام ملک میں لانے کی منصوبہ بندی کی اور اسے بے لگام چھوڑ دیا، ان سے حساب کون لے گا؟ ناکام سیاسی انجینئرنگ کے منصوبہ سازوں کو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے کیونکہ ان کا جرم تو ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں سے زیادہ سنگین ہے جو اپنے جذبات کی وجہ سے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کے خطرے سے دوچار ہوئے۔ ’’ایک صفحے‘‘ کی بنیاد پر کھڑے سیاسی نظام کی عمارت جو ہم آہنگی کی نمائندگی کرتی تھی اس کے تضادات ہی اس کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنے ہیں۔ آج جو کچھ نظر آرہا ہے وہ اس جن کو بوتل سے باہر لانے کی حماقت کے سفاکانہ اور دردناک نتائج ہیں۔

اِس وقت کہ جب سیاست ہی ہمارے تخیلات اور ہمارے مباحث پر حاوی ہے، ہماری معیشت ڈوب رہی ہے، ہمارے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بھی جدوجہد کررہے ہیں، یقینی طور پر چوتھائی ارب کے قریب پہنچتی آبادی میں ایک تہائی سے زائد افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ہماری ترجیحات ہی غلط ہیں۔ ہم معاشی محاذ پر وقتی اقدامات کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ کیا کسی نے روزگار کے مواقع اور آمدن میں اضافہ نہ ہونے کے اس خطے کی بڑھتی آبادی پر اثرات کی جانب توجہ دی ہے؟ ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ اس کا جواب شاید سبھی کو معلوم ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے سب نے چپ رہنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ہم اُس وقت تک بہتری کی جانب نہیں جائیں گے جب تک کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کرلیں۔ جس مشکل میں ہم ہیں اس کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا۔

آج ملک کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو لوگ الوداع کہہ رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے پارٹی چھوڑنے والے ان تمام لوگوں نے ایک ہی اسکرپٹ یاد کیا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جب بھی کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا گیا، اسے ختم نہیں کیا جاسکا۔ پیپلزپارٹی ضیاالحق دور میں دبائو کا شکار ہوئی، لیکن ختم نہیں ہوئی۔ پرویزمشرف دور میں مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگایا گیا، لاہور جیسے شہر میں مسلم لیگ (ن) کا جھنڈا اٹھانے پر پابندی تھی۔ مگر اس ملک کا سیاسی نظام گواہ ہے کہ جس نوازشریف کو آرمی چیف طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی،2013ء میں اسی نوازشریف نے نئے آرمی چیف کا تقرر کیا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سیاست دان کی سیاست کبھی نہیں مرتی جب تک سیاست دان خود اپنی سیاست کو دفن کرنے کا فیصلہ نہ کرلے۔ سیاست دان کی واپسی کا سفر لمبا ضرور ہوسکتا ہے مگر اس کی واپسی فطری عمل ہے۔

ابھی حال ہی میں پی ڈی ایم کی حکومت نے ایک ایسا قانون پارلیمنٹ سے پاس کرایا ہے اور صدرِ مملکت نے بھی اس پر دستخط کردیے ہیں جس کے تحت نوازشریف اور جہانگیر ترین جیسے سیاسی کارکن اپنی نااہلی کے خلاف اپیل کرسکیں گے، تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو بھی واپسی کا راستہ مل سکتا ہے لیکن اس کی ایک شرط یہ ہوگی کہ وہ پارلیمانی نظام کو تسلیم کرے، اور اپنا سیاسی بیانیہ درست کرے، ورنہ عمران خان الطاف حسین کی طرح ملکی سیاست سے لاتعلق ہوجائیں گے یا کردیے جائیں گے۔ ان کی سیاست کا حتمی تجزیہ یہ ہے کہ اُن کے پاکستان کی سیاست میں مستقبل کا فیصلہ ان کی’’حقیقی‘‘ گرفتاری کے بعد ہوگا، کیونکہ جیل سے ان کی واپسی ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کرے گی۔ سانحہ 9 مئی کے بعد سے تحریک انصاف کے اندر دراڑیں واضح طور پر دکھائی دے رہی ہیں۔ اِس کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ معاملات کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا گیا۔ پارٹی میں یہ ردعمل درست تھا جبکہ عمران خان شکوہ کناں ہیں کہ اُن کے پاس وہ کارکنان اور پارٹی رہنما نہیں ہیں کہ جن سے وہ مشاورت کر کے معاملات کو آگے بڑھا سکیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے فوری طور پر پارٹی چھوڑ جانے والوں کی بنیادی رکنیت ختم کر کے اْنہیں واٹس ایپ گروپوں سے بھی نکال دیا ہے۔پارٹی عہدوں پر نئی تقرریوں کے لیے ایک اجلاس بھی کرچکے ہیں۔ دہائیوں کی جدو جہد کے بعد بننے والی ایک بڑی سیاسی جماعت کی موجودہ ٹوٹ پھوٹ افسوناک ہے۔ عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ ہیں، انہیں ہی پارٹی کو سنبھالنا ہے، پارٹی کے معاملات چلانے کے لیے اُنہیں خود کو مخمصے سے باہر نکالتے ہوئے صاف ذہن کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔