اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے فرمایا ہے کہ اسلامی بینکاری اور مالیاتی نظام ملک سے غربت کے خاتمہ اور معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، حکومت اسلامی مالیاتی صنعت کو فروغ دینے میں سنجیدہ اور پر عزم ہے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام ’’سرمایا کی اسلامی منڈی‘‘ کے موضو ع پر اسلام آباد میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب وزیر خزانہ نے یقین ظاہر کیا کہ اسلامی بینکاری اور مالیات کے تحت چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کاروبار، زراعت اور کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے مصنوعات پیش کی جائیں گی، جناب اسحق ڈار کا مزید فرمانا تھا کہ قرآن کریم اور اسوۂ حسنہ میں دنیا کے معاشی مسائل کا حل موجود ہے، پاکستان میں اسلامی معیشت کا حجم اس وقت 42 ارب ڈالر ہے۔ 2022ء میں ملک میں اس شعبہ میں ترقی کی شرح 29 فیصد ریکارڈ کی گئی پاکستان میں چھ اسلامی بنک کام کر رہے ہیں اور سولہ بنکوں کی اسلامی بنکاری کی شاخیں موجود ہیں۔ آئی ایف ڈی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اسلامی بنکاری اور مالیات کے 1679 ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے 560 اسلامی بنک ہیں، اسلامی مالیاتی منڈی کا حجم اس وقت چار کھرب ڈالر ہے جس میں سترہ فیصد سالانہ کی شرح سے نمو ہو رہی ہے، یوں 2026ء تک اسلامی مالیاتی منڈی کا حجم چھ کھرب ڈالر کے قریب پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اسلامی بنکاری اور مالیات کے حوالے سے ملائیشیا، سعودی عرب، سنگا پور اور اردن اس وقت دنیا میں سرفہرست ہیں جب کہ اسلامی تعلیم و تحقیق کے حوالے سے انڈونیشیا اور ملائشیا نمایاں ہیں۔ پاکستان میں اسٹیٹ بنک اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ریگولیٹری اداروں کے طور پر اسلامی مالیات اور بنکاری کے فروغ میں کردار ادا کر رہے ہیں، ایس ای۔ سی، پی کے تحت مضاربہ، مشارکہ، تکافل اور جدید شریعہ مصنوعات کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ ایس، ای، سی، پی نے ایک رپورٹ بھی مرتب کی ہے جس میں اس شعبہ کو در پیش مسائل، رکاوٹوں، ان کے حل کی تجاویز اور سفارشات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے گزشتہ برس 27 رمضان المبارک کو اپنے فیصلے میں ملک کا مالیاتی اور بنکاری نظام سود سے پاک کر کے اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے پانچ برس کی مہلت دی تھی تاہم اس سے قبل یکم جون اور 31 دسمبر 2022 ء کی تاریخیں متبادل قوانین کی تیاری کے لیے مقرر کی تھیں۔ وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ حکومت اسلامی مالیات و بنکاری کے فروغ اور سود کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے تاہم انہوں نے اس ضمن میں کوئی تفصیل بتانے سے گریز کیا…!
سود یا ربا سے متعلق قرآن و حدیث میں سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اس سے زیادہ اور وعید کیا ہو گی کہ سود خوروں کے خلاف قرآن حکیم میں واضح الفاظ میںمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اس سے توبہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں زکوۃ وصدقات دینے والوں کو دنیا اور آخرت میں فلاح اور مال کی نشوونما کی نوید خود خالق کائنات کی طرف سے سنائی گئی ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو پاکستان کو جو معاشی و معاشرتی مسائل طویل عرصہ سے درپیش ہیں، ان کی وجوہ کسی صاحب فہم و فراست سے پوشیدہ نہیں، ان مسائل اور بحرانوں سے نجات کا راستہ بھی واضح ہے۔ ضرورت صرف اس راستے پر گامزن ہونے کی ہے، پاکستان کی اساس، قرآن و سنت کے نظام پر استوار کرنے کے خواہاں محبان دین و وطن طویل عرصہ سے اس مقصد کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں، سود سے نجات کی کوششوں کی داستان بھی خاصی طویل ہے، انہی کوششوں کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں سود کے خاتمہ کے لیے نہایت جامع اور تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کوئی خلا موجود نہیں تھا، مگر بدقسمتی سے حکومت نے اس پر عمل درآمد کی بجائے اس کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا، جس پر جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے اسلامی جمہوری اتحاد سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا اور آئینی و قانونی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا چنانچہ 1999ء میں شریعت اپیلٹ بنچ نے 1991ء کا فیصلہ بحال رکھا اور اس پر عمل درآمد کی حتمی تاریخ مقرر کر دی مگر حکومت نے اس کے خلاف بھی عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی جس نے 2002ء میں یہ درخواست واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دی جہاں یہ گیارہ برس تک سرد خانے میں پڑی رہی۔ 2013ء میں اس کی سماعت کی درخواست پر دوبارہ معاملہ زیر بحث آیا طویل بحث اور دلائل کے بعد گزشتہ برس 27 رمضان المبارک کو وفاقی شرعی عدالت میں 32 برس کی طویل جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ مگر خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ حکومت نے دو سرکاری اور چار نجی بنکوں کے ذریعے اپیل کروا کر ایک بار پھر فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کر دیا تاہم شدید عوامی رد عمل کے سبب حکومت نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی بارہ اور نیشنل بنک کی تیرہ درخواستیں واپس لے لیں مگر نجی بنکوں کی 14 درخواستیں تاحال عدالت میں موجود ہیں اور حکم امتناعی کے لیے تو ایک درخواست بھی کافی ہے، حکومت نے نجی بنکوں کی یہ درخواستیں واپس کروانے کے لیے قطعی کوئی اقدام نہیں کیا البتہ وزیر خزانہ نے بلا سود بنکاری کے نفاذ کے لیے ایک کمیشن کے قیام کا اعلان ضرور کیا… ایک سال گزرنے کے باوجود قوم اس کمیشن کی کارکردگی اور بلا سود بنکاری کی جانب حکومت کی پیش رفت سے آگاہی کی منتظر ہے۔ بین الاقوامی کانفرنس میں وزیر خزانہ نے اپنے خطاب میں اسلامی نظام مالیات و بنکاری کی برکات اور عالمی سطح پر مقبولیت کا اعتراف تو کیا ہے مگر اس ضمن میں اپنی حکومت کی کارکردگی اور اس ضمن میں عملی اقدامات سے متعلق کوئی تفصیل پیش نہیں کی۔ بدقسمتی سے ماضی میں جب بھی عدالت سے سود کے خاتمہ کا حکم جاری ہوا تو حکومت نواز لیگ ہی کی تھی، اب بھی حالات و معاملات اس سے مختلف نہیں بلکہ زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ نواز لیگ کی موجودہ حکومت میں ملک میں شریعت کے نفاذ کی دعویدار کئی اہم دینی جماعتیں، مثلاً ’’جمعیت علماء اسلام‘‘ جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت اہل حدیث بھی شامل ہیں مگر افسوس کہ عدالت کے فیصلہ کو ایک برس سے زائد گزر جانے کے باوجود یہ دینی جماعتیں اس اہم شرعی فیصلے کے نفاذ میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے میں قطعی ناکام اور غیر موثر رہی ہیں… حکمران نواز لیگ اور اس کی اتحادی دینی و سیاسی جماعتوں کو اللہ تعالیٰ کی یہ وعید بہرحال پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ وہ بات کہو جو کرتے نہیں…‘‘ (سورۂ الصف آیات 3-2) (حامد ریاض ڈوگر)