ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے، انہوں نےعرض کیا:
”یا رسول اللہ ﷺہم جانتے ہیں کہ جہاد سب نیک عملوں سے بڑھ کر ہے۔ تو ہم جہاد کریں۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، عمدہ جہاد حج ہے جو مبرور ہو (مقبول ہو)“۔
(بخاری ، جلد اول کتاب المناسک ، حدیث نمبر 1430 )
٭ایک شخص نے رسول اکرمؐ سے سوال کیا کہ محرم (حج کی نیت سے احرام باندھنے والا) کس قسم کا لباس پہنے؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’قمیص نہ پہنو، پگڑی نہ باندھو، ٹوپی نہ اوڑھو اور نہ موزہ پہنو، اِلاّیہ کہ کسی شخص کو جوتی میسر نہ ہو تو وہ موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن لے، اور ایسا لباس بالکل نہ پہنو جس میں ورس (ایک قسم کی خوشبودار گھاس) یا زعفران کا رنگ یا خوشبو ہو۔‘‘ (عن عبداللہ بن عمرؓ)
٭ہم رسول کریمؐ کے ساتھ حجتہ الوداع کے سال نکلے تو ہم میں سے کچھ نے عمرہ کا احرام باندھا اور کچھ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور کچھ نے صرف حج کا احرام باندھا ہوا تھا، اور رسول اکرمؐ حج کا احرام باندھے ہوئے تھے۔ تو جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا تھا وہ تو حلال ہوگئے (احرام کھول دیا) اور جنہوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا تھا تو وہ یوم النحر (قربانی والے دن) سے پہلے حلال نہیں ہوئے (احرام نہیں کھولے)۔ (عن عائشہؓ)۔
٭رسول کریمؐ نے 4 عمرے کیے ہیں اور یہ سب ذوالقعدہ میں کیے ہیں سوائے اس ایک عمرہ کے جو آپؐ نے اپنے حج کے ساتھ کیا۔ ایک عمرہ حدیبیہ کے سال یعنی صلح حدیبیہ کے زمانے میں ذوالقعدہ میں کیا۔ دوسرا اس کے بعد والے سال ذوالقعدہ میں کیا۔ تیسرا عمرہ جعرانہ سے جب آپؐ نے غزوہ حنین کا مالِ غنیمت تقسیم کیا، یہ بھی ذوالقعدہ میں کیا۔ چوتھا عمرہ آپؐ نے حج کے ساتھ کیا۔ (عن انسؓ)
٭رسول کریمؐ نے ہمیں خطبہ دیا پھر فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر حج فرض ہوگیا ہے، پس تم حج کیا کرو‘‘۔ ایک شخص نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ کیا حج ہر سال فرض ہے؟‘‘ آپؐ خاموش رہے حتیٰ کہ اس نے 3 بار یہی عرض کیا، پھر رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور تم اس کی ادائیگی کی طاقت نہ رکھتے۔ جن چیزوں کا بیان میں چھوڑ دیا کروں تم ان کا سوال مت کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوگئے کہ وہ انبیا ؑ سے بکثرت سوال کیا کرتے تھے اور انبیا ؑ سے اختلاف کرتے تھے۔ لہٰذا جب میں تم کو کسی چیز کا حکم دوں تو اس پر استطاعت کے مطابق عمل کیا کرو اور جب میں کسی چیز سے روک دوں تو اس کو چھوڑ دیا کرو‘‘۔ (عن ابی ہریرہؓ)
٭رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کسی بھی دن یومِ عرفہ سے زیادہ اپنے بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں فرماتے، اللہ تعالیٰ یومِ عرفہ میں (اپنے بندوں سے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ بندے کس (اچھے) ارادوں سے آئے ہیں‘‘۔ (عن عائشہؓ)
٭رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’یہ پہاڑ (احد) ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ پھر جب آپؐ مدینہ آگئے تو فرمایا: ’’اے اللہ، میں ان دونوں پہاڑوں کے درمیانی حصے کو حرم قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا (اور آپؐ نے دعا فرمائی) ’’اے اللہ مدینہ والوں کے لیے ان کے ناپ تول میں برکت عطا فرمایئے‘‘۔ (عن انسؓ)
٭رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتا۔ (عن ابی ہریرہؓ)
(1000 منتخب احادیث، ماخوذاز مسلم شریف)