ہُکّا ہُواں … ہُکّا ہُواں

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم صاحب (رابغ، سعودی عرب) نے ہدیہ فرمایا ہے، شوقؔ بہرائچی کا یہ دلچسپ مطلع:

اگر تاراج یوں ہی بُلبلوں کا آشیاں ہو گا
چمن میں ایک دن ’’ہُکّا ہُواں، ہُکّا ہُواں‘‘ ہو گا

’تاراج کرنے‘ کے معنی تو خیر پچھلے دنوں سبھی جان گئے کہ ’تباہی و بربادی پھیر دینے‘ کے ہیں۔ مگر یہ ’ہُکّا ہُواں‘ کیا ہے؟ یہ لفظ تو کسی لغت میں ملتا ہے نہ ایسی آواز کسی شہر میں سنائی دیتی ہے۔ جدید شہروں کی نئی نسلوں کے لیے نامانوس آواز۔ مگر اب تو صاحب گاؤں بھی شہر ہوتے جارہے ہیں۔ گاؤں جب گاؤں ہوا کرتے تھے… تو… ’اکثر شبِ تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے‘ گیدڑوں کے غول گاؤں کے گرد جمع ہوکر ’آہ و بُکا‘ کیا کرتے تھے۔ اُنھیں کے رونے کی آواز کو، جو منحوس سمجھی جاتی ہے، ’ہُکّا ہُواں‘ کہا جاتا تھا۔ جیسے بلی کی بولی کو ’میاؤں میاؤں‘ کہا جاتا ہے، کتے کے بھونکنے کی صدا کو ’بھؤبھؤ‘، مرغ کے بانگ دینے کی آواز کو’کُکڑوں کُوں‘ اور بکری کے ممیانے کو ’میں میں‘۔

گیدڑ، جس کو سیال اور سیار بھی کہتے ہیں،کتے کے برابر اور تقریباً تقریباً اُسی کا ہم شکل، ایک پستانیہ چوپایہ ہے۔ شہروں میں شاذ ہی پایا جاتا ہوگا۔ مگر ہمارے شہروںکے محاوروں میں خوب، خوب پایا جاتا ہے۔ سنا ہے ’گیدڑ کی شامت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے‘ (شہر پہنچ کر اور بھی شامت آجاتی ہے) کسی کے بُرے دن آتے ہیں تو اُسے بُری بُری ہی سوجھتی ہے۔ لہٰذا ایسے موقعے پر یہی محاورہ بول کر اُس بدقسمت کی بدی بیان کردی جاتی ہے۔ دنیائے سیاست میں لیڈر کو یا تو شیر (بہادر) کہا جاتا ہے یا گیدڑ (بزدل)۔ شیر کہنے کے بعد جب معاملہ بالکل اُلٹ جاتا ہے تو ’اعتذار‘ کے طور پرکہنا پڑتا ہے کہ ’یہ جو ہمارا لیڈر ہے، شیر نہیں ہے گیدڑ ہے‘۔ گویا گیدڑ پست ہمتی اورکم ہمتی کا کنایہ ہے۔ گیدڑ کی بزدلی اور پست ہمتی پر شیرِ میسور فتح علی خان ٹیپو سلطان نے بھی اپنے مشہور قول سے مُہرِ تصدیق ثبت کردی ہے:

’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔

گیدڑ کوکم ہمت شاید اس وجہ سے سمجھا گیا کہ بالعموم رات ہی کے وقت اور بالخصوص جاڑے کی راتوں میں کھیتوں، کھلیانوں میں در آتا اور ماحضر کھاتا ہے۔ چھوٹے موٹے جانور، حشرات الارض، پھل پھلیاں، یہاں تک کہ گھاس بھی کھا جاتا ہے۔ دشمن کو دیکھ کر غراتا ہے اورحملہ کرنے کو لپکتا ہے۔ لیکن جواباً اگر دشمن خود آگے بڑھ کر اُس پر حملہ آور ہوجائے تو دُم دبا کر ایسا سرپٹ بھاگتا ہے کہ مُڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔ بے چارا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ لہٰذا کوئی شخص اگر کسی کو ایسی دھمکی دے جس پر عمل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہوتو اسے گیدڑ بھبکی یا گیدڑ بھپکی کہا جاتا ہے۔ دھمکی کی یہ صنف ہماری سیاست میں عام ہے۔ مثلاً حکومت کا یہ دعویٰ کہ ہم کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے، اور حزبِ اختلاف کا یہ اعلان کہ ہم کسی قیمت پر انتخابات میں دھاندلی نہیں ہونے دیں گے، وغیرہ وغیرہ۔

دیکھیے ناسخؔ بھی اپنے حریفوں کی گیدڑ بھبکیوں پرشیرِ یزداںکو پُکار بیٹھے:

تا کجا اعدا کی گیدڑ بھبکیاں
الغیاث اے شیرِ یزداں الغیاث

’گیدڑ بولنے‘ کا مفہوم وہی ہے جو اُلّو بولنے کا ہے، یعنی ویرانی اور بدشگونی کی علامت۔ کسی مخالف کو گھیر کر اگرسب کے سب اُسے ہر طرف سے ڈنڈے رسید کرنے لگیں تو ایسی اجتماعی مار کُٹائی کو ’گیدڑ کُٹ لگانا‘ کہتے ہیں۔ پٹنے والا بے چارا گیدڑ کی طرح مختلف سمتوں میں بھاگ بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کرتا ہے مگر جدھر جاتا ہے اُدھر ڈنڈے کھاتا ہے۔

گیدڑ کے سینگ تو ہوتے نہیں، اس کے باوجود ’گیدڑ سینگھی‘ بھی مشہور ہے۔ بہت سی طلسماتی صفات اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس یہ سینگ یا سینگھی ہو اُس کو راتوں رات مالامال کردیتی ہے۔ مشکل سے مشکل کام بھی آسان کردیتی ہے۔ پس جوشخص راتوں رات مالامال ہوجائے یا اُس کا کوئی ناممکن کام آسانی سے ہوجائے تو لوگ اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بجائے اُس سے پوچھنے لگتے ہیں کہ ’’میاں! کون سی گیدڑ سینگھی تمھارے ہاتھ لگ گئی؟‘‘ یہاں برسبیلِ تذکرہ بتاتے چلیں کہ سینگ کا اصل تلفظ سینگھ ہے۔ کیا آپ نے سنا نہیں کہ بارہ سینگھوں والے ہرن کو بارہ سنگھا کہتے ہیں۔

مگر یہ گیدڑ سینگھی ہے کیا بلا؟ ارے بھئی یہ گیدڑ کے دونوں کانوں کے درمیان تاج نما ساخت کی ایک مڑی ہوئی ہڈی ہوتی ہے، جس پر بال اُگ آتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ شے عموماً بھورے رنگ کے گیدڑوں کے سر پر اُگتی ہے۔ ابتدا میں یہ تاج نُما سینگ کسی بڑے دانے کی طرح اُبھرتا ہے، پھروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عامل حضرات اور جوگی صاحبان اِس گیدڑ سینگھی کو اس کی جڑ سمیت گیدڑ کے سر سے نکال لیتے ہیں، باقاعدہ حنوط کرتے ہیں اور سیندور میں رکھتے ہیں۔ سیندور میں رکھنے سے یہ کیڑے لگنے اور گلنے سڑنے سے محفوظ ہوجاتاہے، اس کے حجم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس پر اُگے ہوئے بال بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ برصغیر جنوبی ایشیا کے توہم پرستوں، عاملوں، جوگیوں اور سنیاسیوں نے ضعیف العقیدہ لوگوں کو باور کرا رکھا ہے کہ جس کے پاس اصلی گیدڑ سینگھی ہوگی اُس کی دولت میں اضافہ ہوگا، اُس کے پاس ایسی غیبی طاقت آجائے گی کہ اُس کے سب کام سدھرتے چلے جائیں گے اور ہر طرح سے خوش حالی نصیب ہوگی۔ مگر اے صاحبو! اگر یہ شے ایسی ہی حلّالِ مشکلات اور قاضی الحاجات ہوتی تو جس کے سر پر اُگتی ہے وہ بے چارا ہر طرف ہُکّا ہواں، ہُکّا ہواں کرتاکیوں پھرتا؟

’گیدڑی‘ کے رسیا لوگوں کے لیے ہماری پٹاری میں اور بھی ’گیدڑانہ محاورے‘ موجود ہیں، مگر فی الحال بس ایک اور محاورے کا ذکر کرکے بس کرتے ہیں۔ محاورہ ہے: ’گیدڑ کو ہکاس لگنا‘۔ ایک بار ایک گیدڑ نے اپنے دوستوں کی دعوت کی۔ مدعوئین کو لے کر قریبی گاؤں کے کھیتوں میں گھس گیا۔ سب مہمانوں نے پرائے کھیت میں پیٹ بھر کر کھایا۔گیدڑ کا پیٹ بھر گیا تو اُسے ہکاس لگی۔ وہیں کھڑے کھڑے اُس نے آسمان کی طرف منہ اُٹھایا اور ہُکّا ہواں، ہُکّا ہواں شروع کردیا۔ نتیجہ یہ کہ گاؤں کے لوگ چاروں طرف سے ڈنڈے لے لے کر دوڑ پڑے۔ کھیت کو ہر طرف سے گھیر لیا گیا۔ سب شرکائے دعوت کی اچھی طرح گیدڑ کُٹ لگی۔ لہٰذا اگر کبھی کوئی شخص اپنی کرنی سے اپنے دوستوں کو پھنسوا دے یا خود اپنے دوستوں کو دغا دے جائے تو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے کہ ’گیدڑ کو ہکاس لگی‘۔

ہمارے ہاں لیڈر کو بھی ہکاس لگتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لیڈر جب حکمران ہوجاتا ہے تو اپنے دوستوں کو دعوتِ شیراز پر بلاتا ہے۔ مِل جُل کر کھا پی کر جب پیٹ خوب بھر جاتا ہے تو ہمارا لیڈر بھی آسمان کی طرف منہ کرکے ہُکّا ہواں، ہُکّا ہواں کرنے لگتا ہے۔ تب ڈنڈے والے ڈنڈے لے لے کر دوڑ پڑتے ہیں۔ پھر ماشاء اللہ سب لیڈروں کی خوب گیدڑ کُٹ لگتی ہے، یا یوں کہہ لیجے کہ ’لیڈر کُٹ‘ لگتی ہے۔

چمنستانِ وطن میں ایسی صورتِ حال صرف اُسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو شوقؔ بہرائچی نے بتائی ہے۔ اگر محبت کے مَدُھر نغمے سنانے والے بلبلوں کا گلشن میں جینا حرام کردیا جائے، اُن کے گھونسلوں، آشیانوں اور نشیمنوں کو پیہم تباہ و برباد کیا جاتا رہے، اور اگر نفرت، تعصب، گالی گلوچ اور بدکلامی کی کرخت آوازیں نکالنے والے بوم و زاغ و زغن کو چمن میں عروج بخشا جاتا رہے، تو صاحب یہی سب ہوگا جو، اَب ہورہا ہے۔سچ ہے:

اگر تاراج یوں ہی بُلبلوں کا آشیاں ہو گا
چمن میں ایک دن ’’ہُکّا ہُواں، ہُکّا ہُواں‘‘ ہو گا