خط کے ذریعے مکتوب نگار و مکتوب الیہ کی ملاقات تو نہیں ہوپاتی،لیکن خط نصف ملاقات کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کے خیالات و حالات سے آگاہی ہوجاتی ہے۔ اردو دنیا کی نام ور شخصیات (مرزا غالب، اقبال، قائداعظم، مولانا مودودی وغیرہ) نے بکثرت خطوط لکھے، کیوں کہ عوام و خواص نے انھیں خطوط لکھے اور خط کا جواب دینا وہ اخلاقی فرض سمجھتے تھے، چنانچہ ان کے خطوں کے شائع شدہ مجموعے درجنوں کی تعداد میں ملتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی استاذالاساتذہ اور معروف اقبال شناس، ادیب اور محقق ہیں۔ تدریسی زندگی کے آغاز میں مختلف کالجوں میں درس و تدریس کے بعد اپنی مادرِ علمی پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج میں استاد مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر زیب النساء (حال پروفیسر شعبہ اردو گورنمنٹ اپوا گریجویٹ کالج برائے خواتین،جیل روڈ لاہور) 1989ء میں اورینٹل کالج میں ایم اے اردو میں زیر تعلیم تھیں اور یوں ہاشمی صاحب کی شاگرد ہوئیں۔ استاد کا ذہین اور پڑھنے والے طلبہ و طالبات کی طرف جھکائو فطری ہوتا ہے اور استاد گاہے بگاہے ایسے شاگردوں کو راہ نمائی سے نوازتے ہیں۔ زیرنظر خطوط پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ہاشمی صاحب شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پڑھائی کا معاملہ ہو، بیماری کا ہو، کتابوں کے انتخاب اور خریداری کا ہو، مطالعے کے لیے کتابیں تجویز کرنے کا ہو یا شاگرد کو لکھنے پر ابھارنے کا، ہر ہر معاملے میں ہاشمی صاحب ایک مربی اور راہ نما کے روپ میں نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر عنبرین منیر (پرنسپل گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین بند روڈ لاہور) لکھتی ہیں:
’’معروف ماہرِ اقبالیات اور سابق صدر ِشعبہ اردو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے خطوط کی تدوین اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ ڈاکٹر صاحب ادبی محفلوں میں کم کم نظر آتے ہیں، چنانچہ ان کی شخصیت کے اُن گوشوں سے بھی پردہ اٹھاتے ہیں جو محفلوں کی زینت کم بننے کے باعث پوشیدہ رہ گئے۔‘‘
زیرِ نظر مجموعے میں دورِ حاضر کے اساتذہ کے لیے بھی راہ نمانی کا بہت کچھ سامان موجود ہے کہ وہ کس طرح اپنے شاگردوں میں علم کی جوت جگا سکتے ہیںاور کس طرح زندگی کے معاملات میں اپنے شاگردوں کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر زیب النساء نے اپنے شفیق اور مہربان استادِ گرامی کے خطوط اور رقعات و متعلقات کو مرتب کرکے ایک بہت اہم کام کیا ہے۔ ان خطوط کے آئینے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے انداز ِ تعلیم وتربیت اور اسلوبِ تدریس کے مختلف رنگ واضح طور پر نظر آتے ہیںجو آج کل کے اساتذہ کے لیے بالخصوص روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر زیب النساء ان خطوط کے سلسلے میں لکھتی ہیں:
’’زیرِ نظر خطوط میں راقمہ کی ذہنی، جذباتی، اخلاقی اور مطالعاتی تربیت کے کئی روشن پہلو نظر آئیں گے۔ یہ مبتدیوں کے لیے راہ نمائی کا بہترین نمونہ ہیں۔ راقمہ نے استادِ محترم کے لکھے گئے تمام خطوط کو حرزِ جاں بنائے رکھااور ان کا ایک ایک خط، اس طرح لائبریری سے اجرائے کتب کے لیے لکھی گئی چٹیں (Folios)بھی محفوظ ہیں۔ عملی زندگی کے خارزار میں جہاں دیگر چیزیں اپنی اپنی جگہ پر نہ رہیں اور اِدھر اُدھر بکھر گئیں ، وہاں استادِ محترم کے خطوط قیمتی خزانے کے طور پر عملی تجوری میں محفوظ رہے۔‘‘
ناشر نے کتاب کا خوبصورت اور عمدہ سرورق بنایا ہے لیکن اندرونی صفحات میں عبارت کا مدھم ہونا کھٹکتا ہے، یعنی طباعت معیار سے کچھ کم رہ گئی ، اسی طرح محض88صفحات کی قیمت 500 روپے رکھنا بھی کسی طور مناسب نہیں۔ ناشر کو اس طرف بہرحال توجہ کرنی چاہیے۔