مغربی فلسفے کے تصورات کی تشکیل میں یونانی تہذیب کا کردار کلیدی اور بنیادی ہے۔ اناجیلی روایت اور وحی کے ساتھ ساتھ یونانی فکر کا اثر گہرا اور پائیدار ہے، ہر سطح پر اس فکر نے یورپی تہذیب کی تشکیل میں حصہ لیا ہے۔ یہ اثر بے شک تاریخِ ’’تصور‘‘ تک پھیلا ہے۔ درحقیقت اس بات پر بحث باقی ہے کہ آیا ’تصور‘ پر فلسفیانہ مباحث کی پہلی مناسب درجہ بندی افلاطون اور ارسطو کی تحریروں میں ہی پائی جاتی ہے؟ اس باب کا بیشتر حصہ ایک ایسے تجزیے کے لیے وقف ہوگا جو ان بانی مفکرین کے ’’تصور‘‘ کے بارے میں خیالات سامنے لائے گا، کہ آیا ’تصور‘، ’تصویر‘، اور ’تصور کرنا‘، ان کی فطرت اور کردار کیا ہے؟
تاہم اس سے قبل کہ ہم افلاطونی اور ارسطوئی فلسفوں کی جانب بڑھیں، اور ’تصور‘ کے بارے میں اُن کے فیصلہ کن خیالات کا جائزہ لیں، ہم ایک نظر پرومیتھیس کے قدیم یونانی دیومالا پر کریں گے: یہ فلسفیانہ بیانیے سے پہلے کا قصہ ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ آدمی نے دنیا کی تشکیل میں سب سے پہلے قوت کہاں سے حاصل کی، کس طرح تخلیقی شاہکار بنائے، تصویریں منقش کیں، کہ جنہوں نے فطرت کے مظاہر تہذیب میں ڈھال دیے۔
پرومیتھین دیومالا: تخلیق کاری
’تصور‘ کا یونانی فلسفہ جاننے کے لیے ہمیں قدیم یونانی دیومالا میں جانا ہوگا، شاید وہاں سے کوئی سرا ہاتھ آئے۔ یونانی روایت کا قصہ پرومیتھیس اناجیلی قصہ آدم سے بہت ملتا جلتا ہے۔ جب ہم ایک تہذیب سے دوسری تہذیب میں داخل ہوتے ہیں تو یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ’تصور‘ کی جہت کا جھکاؤ اخلاقیات سے علمیات کی جانب ہوگیا ہے۔ pro-m-etheus(پرومیتھیس) کا معنی fore-sight (دوراندیشی) ہے، جس سے مراد مستقبل کی پیش بینی کی قوت ہے، کہ آیا آدمی تصور کے اُفق پر کیا امکانات دیکھ رہا ہے یا دیکھ سکتا ہے۔ قدیم یونانی شاعر ہیسیوڈ نظم تھیوجونی (Theogony) میں ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح پرومیتھیس نے دیوتاؤں کی مقدس آگ چرائی اور آدمی کو بخش دی۔ پرومیتھیس کے اس گناہ پر دیوتا آگ بگولہ ہوئے، زیوس نے اُسے ایک چٹان سے زنجیروں کے ذریعے باندھ دیا، اور ایک چیل کو بھیجا کہ پرومیتھیس کا جگر نگل جائے۔ چرائی گئی مقدس آگ سے آدمی اس قابل ہوا کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرسکے، بہت سے ہنر اور فن تخلیق کرسکے، کہ جنہوں نے نظام فطرت کی ماہیئت بدل دی، اُس نے (زیوس کی اندھی قوت کی کائنات کو) نظام تہذیب میں ڈھال دیا (ایک نسبتاً آزاد دنیا جہاں آدمی اپنی موجودگی منصوبہ بند کرسکے، مرضی چلا سکے)۔ چوری کا یہ داغ یونانی فلسفہ ’تصور‘ سے منسلک ہوگیا، اور اسے وسیع معنی میں پرومیتھین دوراندیشی سمجھا گیا کہ جس نے آدم کو اس قابل بنایا کہ خداؤں کی نقل کرسکے۔
یہ ایک ذریعہ بن گیا، جیسا کہ ایس کلس (Aeschylus) نے ڈرامہ Prometheus Bound میں لکھا، ’ہروہ ہنر جو آدمی کی دسترس میں ہے‘۔ پرومیتھین ’’تصور‘‘ بہت سے آثار میں قصہ آدم سے مماثل ہے۔ دونوں مثالوں میں، آدمی کا ’تصور‘ کرنا ’اشیا کے نظام الوہیت‘ سے بغاوت قرار دیا گیا، اس نے دیوتاؤں کے قائم کردہ نظام فطرت کا آہنگ تہہ وبالا کردیا۔ اس طرح یہ بظاہر دھند میں لپٹا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ آدمی کو وہ قوت مہیاکرتا ہے کہ خدا کی نقل کرسکے، اور وہ ایسا غیرقانونی طور پر کرتا ہے۔ آئرش ادبی نقاد ڈینس ڈونوہیو اپنی تحقیق In Thieves of Fire (آگ کے چور) میں قصہ پرومیتھیس کے بارے میں کہتا ہے کہ اس کا اثرمغربی ادب پر گہرا ہے، اور اس میں آدمی کی قوتِ تخیل کا سرچشمہ متضاد حالت میں ہے: سب سے بڑھ کر، پرومیتھیس نے آدمی کے تجربے میں تصوراتی قوت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، ایک ماورا الطبیعاتی امتیاز جو ہم آدمی حقیقتِ واقعہ اور زیب داستاں کے درمیان روا رکھتے ہیں۔ یعنی اگر کہا جائے پرومیتھیس نے آدمی کے تجربے کو زبان میں ڈھال کر شعوری بنادیا ہے۔ کچھ تعجب نہیں کہ آدمی لامحدود علم اور آرزو کے امکان سے ہمیشگی کا احساس رکھتا ہے۔ ’’تخلیقی تصور‘‘ کی قوت سے آدمی کو فطرت سے رشتہ قائم کرنے میں مدد ملی ہے، مگر اس سے آدمی اور خداؤں کے درمیان امن خطرے میں پڑچکا ہے۔ تصور آدمی کے لیے طمانیت بخش قوت رہا ہے، مگر جہاں تک آدمی اور خداؤں میں تعلقات کا سوال ہے، آدمی کا خدائی وصف کہ جسے غلط طریقے سے حاصل کیا گیا، چرایا گیا، قائم رہتا ہے۔
اس طرح پرومیتھیس، کہ جو آدم سے کچھ کم نہیں، یہاں آدمی کے محسن اور ایک ایسے محرک کے طور پر نظر آتا ہے جو آدمی کو من مانی تخلیقات کی ناجائز خواہشات پوری کرنے پر مائل کرتا ہے، کہ جو ’تخلیق امر‘ کے متبادل ہوں۔ یہاں سے آدمی نے خود کو ارفع ترین تخلیق کار سمجھنا شروع کیا، بلکہ اس خدائی وصف پر ملکیت کا دعویٰ بھی کیا، اور یونانی دیو مالا کے مطابق بے ہیئت دنیا کی صورت گری کی۔ پرومیتھیس کی اس دیومالا بخشش (تخلیق کاری) کے حدود و وظائف افلاطون نے آشکار کیے، ’مکالمات افلاطون‘(320c–322d) کے باب پروٹاگورس میں مفصل بحث موجود ہے۔ اب جب کہ آدمی اس گمان میں مبتلا ہوچکا ہے کہ خدا جیسی خلّاقیت کے قابل ہوسکتا ہے، اُسے مسلسل یاد دلایا جاتا ہے کہ ’مقدس آگ‘ کی بخشش کہ جو اس کے پیکرِ خاکی کوآسمانی رفعت پرپہنچاسکتی ہے، اپنی ساخت اوراصل میں ناقص یا نامکمل ہے۔ مختصراً یہ کہ پرومیتھین کے ’تصور‘ کی اصل وہ نقص نمایاں کرتی ہے کہ جسے وجود کی کامل صورت بننے کے لیے ’مقدس آگ‘ کی ضرورت ہے۔ آدمی کے لیے رفعت پذیری کی آرزو پرومیتھیس ’آدمی کے دہرے پن‘ میں نمایاں کرتا ہے: آدمی کی بنیادی ناقص حالت میں ہمیشگی کا عکس۔ جیسا کہ جنت میں سانپ نے آدم اور حوا سے دودھاری وعدہ کیا کہ خیروشرکا علم انہیں خداؤں جیسا بنادے گا، بالکل اسی طرح پرومیتھیس کا تحفہ ’خلاّقیت‘ بہ یک وقت پروانہ آزادی واختیارہے اورآفت بھی ہے۔ ایک ایسی دنیا کا امکان جہاں ’آدمی خداؤں کی جگہ لے سکیں، اپنے تصورات اور تخلیقات کوآسمانی سمجھیں‘۔ پرومیتھیس کی شرح یہی ہے، جیسا کہ بعد میں مغربی ادب سامنے لایا، ’یونانی شیطان‘ ‘Greek Lucifer’ کہ جس نے خدا اور آدمی کے درمیان دراڑڈال دی، انہیں الگ کردیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں اناجیل اور یونانی دیومالا سمجھتے ہیں کہ ’قوتِ تخیل یا تصور‘ کا حصول خداؤں کوناراض کرتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ دونوں متون انتہائی مبہم ہیں، یہ ایسے ’خدائی غضب‘ کو’شرطِ لازم‘ یا ’پیشگی شرط‘ کےطورپردیکھتے ہیں کہ جیسے یہ آدمی کی ثقافت کا لازمہ ہو۔ ایک جانب آدمی کی قوتِ تخیل رفعت مندی عطاکرتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس ’ازلی گناہ‘ کا داغ نسل درنسل سفرکرتا ہے۔ مختصراً یہ کہ تصورکی طاقت آدمی کوجہاں ’خطا کا پتلا‘ ہونے کے تجربے سے گزارتی ہے وہیں ایک اصل تخلیق کارہونے کاشعورعطا کرتی ہے۔ مگر کیونکہ ’تصور‘ زیادہ آرٹ کے میدان میں نظرآتا ہے، اس کے لیے اس احساس سے کامل گریزممکن نہیں کہ نقل میں اصل کے دائرے سے ماروا ہوجائے، ’خلقِ امر‘ واحد ’قانونِ امر‘ ہے۔ آدمی کا تصوریہ فراموش نہیں کرسکتا کہ اُس کا آرٹ فقط ایک ’صنعت‘ ہے، اور اس کا اختیارمن مانا ہے، اور محض تکرار، بناوٹ، اورنقل ہے۔
پرومیتھین ’تصور‘ یونانی ’فارماکوس‘ (pharmakos) کے متضاد نمونے سے مماثل ہے: ایک بھینٹ کا بکرا جو نہ مکمل معصوم ہے اور نہ خطاکار۔ پرومیتھیس اور آدم دونوں قربان گاہ کے بکرے کا کردار نظر آتے ہیں، جس کے بارے میں Northrop Frye کا خیال ہے کہ ”ایک ایسا معصوم اس اعتبار سے کہ جو کچھ اُس کے ساتھ ہوتا ہے اُس عمل سے عظیم تر ہے کہ جو کچھ وہ کرچکا ہے۔۔۔ اور خطاکار اس اعتبار سے کہ وہ ایک ایسے جہاں میں زندہ ہے کہ جہاں ناانصافیاں وجود کا ناقابلِ گریزحصہ ہیں۔۔۔ یہ دونوں اجزائے وجود ضم نہیں ہوتے، بلکہ ضدین رہتے ہیں۔‘‘ اگرچہ کئی پہلوؤں میں یہ مختلف ہیں، آدمی کا قصہ اورپرومیتھین کی دیومالا قربانیوں اور آرزوؤں سے عبارت ہیں: دونوں سلیم الفطرت اور شرانگیز صفات کا امتزاج ہیں، مکرم اورمجرم دونوں ہیں۔ وجود کی قربان گاہ میں بھینٹ چڑھنے والے یہ ہیروآدمیت اورالوہیت کے بیچ کہیں موجود ہیں۔ یہ زمین آسمان کے درمیان معلق ہیں، جنت کی آزاد فضا اوردنیا کی گھٹن کے بیچ پھنس چکے ہیں۔ یوں نتیجہ یہ نظرآتا ہے کہ اناجیلی اور یونانی ذرائع آدمی کی فطرت کا دہرا پن محقق کرتے ہیں۔ یہ دیومالائی برگزیدہ انسان نسبتاً بہت عظیم ہیں، مگر یہاں کچھ اوربھی ہے کہ جوانہیں چھوٹا بنادیتا ہے۔ یہ کچھ اورخدا، دیوتا، تقدیر، ضرورتیں، اورحالات ہیں۔ جوبھی ہو، یہ ہمارا حضرتِ انسان ہی ہے، جواس صورت حال کا ’مصالحت کار‘ اورنجات دہندہ ہے۔ ’مصالحت کار‘ کا سوال یہاں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یونانی اور اناجیلی فلسفہ تصور میں مصالحت کی راہ حتمی طور پر روایات کی نقالی پر متعین ہوتی ہے۔ یہاں سے مغربی کلاسیکیت اور ازمنہ وسطیٰ تہذیب کی اکثر بنیادیں ان دو روایات پر استوار ہیں۔ ہم نہیں دیکھتے کہ اس سیاق میں ‘تصور‘ کی اصطلاح کبھی بھی داخلی یا تنہا آدمی کی موضوعیت میں سمجھی گئی ہو۔ اسے ہمیشہ آدمی کی آفاقیت اور ماوراالطبیعات میں سمجھا گیا ہے۔ یا اسے زیادہ تکنیکی انداز میں دیکھا جائے، ماقبل جدید ’تصور‘ ناقابل موازنہ حیثیت میں زیادہ نظر آتا ہے۔
(جاری ہے)