سابق وزیراعلیٰ محمود خان کا پارٹی نہ چھوڑنے کا اعلان
لکی مروت سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان، خیبر پختون خوا حکومت کے سابق ترجمان اجمل وزیر، اور ضلع صوابی سے سابق ایم این اے انجینئر عثمان خان ترکئی بھی تحریک انصاف چھوڑ گئے ہیں۔ اس سے قبل سابق صوبائی وزیر اقبال خان وزیر اور ایم این اے جواد حسین نے پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ ہفتے کے روز پشاور پر یس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر ہشام انعام اللہ نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہشام انعام اللہ 2018ء میں حلقہ پی کے 92 سے 38 ہزارسے زیادہ ووٹ لے کر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، حکومت بننے کے بعد انہیں پہلے صحت کی وزارت دی گئی تھی، البتہ بعد میں سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کا قلمدان دیا گیا۔ وہ 4 جنوری 2021ء تک صوبائی وزیر رہے، لیکن کابینہ عہدیداروں کے ساتھ اختلافات کے بعد ان سے یہ قلمدان بھی واپس لے لیا گیا تھا۔ وہ 18 جنوری 2023ء تک خیبر پختون خو اسمبلی کی تحلیل تک ایم پی اے تھے۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ 9 مئی سیاہ ترین دن تھا، اس روز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ہمارے فوجی شہدا کی تو ہین کی اور ہمارے قومی ورثے کو جلا کر دشمن کو خوش کیا، اس وجہ سے پارٹی چھوڑ رہا ہوں، میرا فیصلہ میرے ضمیر کا فیصلہ ہے۔ ڈاکٹر ہشام انعام اللہ نے کہا کہ 9 مئی کے سیاہ دن ہمارے شہدا کی توہین کی گئی، ان کی تصاویر جلائی گئیں، مجسمے گرائے گئے، شرپسند عناصر نے پاکستان کے وقار کو مجروح کیا جو میری نظر میں قابلِ مذمت اور ناقابلِ معافی ہے۔
دوسری طرف صوابی سے سابق ایم این اے انجینئر عثمان خان ترکئی نے پاکستان تحریک انصاف سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ آنے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑیں گے۔ مزار کرنل شیر خان پر حاضری اور فاتحہ خوانی کے موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے موقع پر جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا کہ اگر عدالت نے ہمیں بحال بھی کیا تو ہم پی ٹی آئی کی سیٹوں پر نہیں بیٹھیں گے، 9 مئی کو پی ٹی آئی کی بدترین دہشت گردی کے بعد اس کے ساتھ مزید چلنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے ساتھیوں کے ہمراہ پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور اس کے کارکنوں نے 9 مئی کو دہشت گردی کی ہے، ہم محب وطن لوگ ہیں اور ملک کے خلاف بات کرنے والوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی میں مشکلات کے باوجود عمران خان کے ساتھ کھڑا تھا، اب میں مزید پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں چل سکتا، بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ عثمان ترکئی نے دعویٰ کیا کہ شہرام ترکئی، سینیٹر لیاقت ترکئی اور محمد علی ترکئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے لیے بھاگ دوڑ کررہے ہیں، تاہم اب تک انہیں گرین سگنل نہیں ملا ہے، وہ اپنے فیصلے میں آزاد ہیں۔ واضح رہے کہ عثمان ترکئی 2008ء میں عوامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، دوسری مرتبہ اسی پلیٹ فارم سے 2013ء میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے، جبکہ 2018ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر تیسری مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و خیبر پختون خوا حکومت کے سابق ترجمان اجمل وزیر نے بھی پارٹی کو خدا حافظ کہہ دیاہے۔ اسلام آباد میں پریس کا نفرنس کرتے ہوئے اجمل وزیر نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ساڑھے تین سال تک وزیر رہنے والے سابق رکن اسمبلی اقبال وزیر اور قبائلی ضلع اور کزئی سے 2018ء میں منتخب پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے ملک جواد حسین نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیاہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر برائے بحالی و آبادکاری اور شمالی وزیرستان کے ضلعی صدراقبال وزیر نے سینئر نائب صدر نارتھ وزیرستان کے ہمراہ پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ ساتھیوں کے ہمراہ پشاور پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران اقبال وزیر نے کہا کہ میں 9 مئی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، میرا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایسی جماعت کا مزید حصہ رہوں۔ پی ٹی آئی سے رفاقت کے دوران مکمل وفاداری کا ثبوت دیا اور ہر مشکل وقت میں خان صاحب کے ساتھ کھڑا رہا ہوں۔ 9 مئی کے دلخراش واقعات کے بعد پارٹی سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھ پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے۔9 مئی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں اور اپنے عہدہ صدارت شمالی وزیرستان سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ دوسری طرف سابق ایم این اے ضلع اور کز ئی ملک جواد حسین نے ہنگو میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 5 سال سے میں اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھارہا ہوں۔ عمران خان کے کہنے پر میں نے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا تھا۔ ہر محاذ پر پارٹی کا ساتھ دیا لیکن 9 مئی کو جو واقعات ہوئے اس پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا۔ اپنی سیاست کے لیے فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کو جلانا انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ میں کور کمانڈر لاہور ہاؤس، پشاور ریڈیواسٹیشن اور جی ایچ کیو پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، اس لیے آج میں بغیر کسی دبائو کے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جواد حسین نے کہا کہ یہ میراپاکستان ہے اور اس کے ادارے ہمارے ہیں،پاکستان اسی وقت مضبوط ہوگا جب یہ ادارے مضبوط ہوں گے۔
دوسری جانب خیبرپختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف میں جاری ٹوٹ پھوٹ کے تناظر میں پارٹی کے مرکزی رہنما وسابق وزیراعلیٰ محمود خان نے کہا ہے کہ وہ پارٹی ہرگز نہیں چھوڑ رہے، چیئرمین عمران خان پر بھرپور اعتماد ہے، عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف جو بھی سازش کرے گا اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔ محمود خان نے کہا کہ پی ڈی ایم کا ٹولہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف جو کچھ کررہا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پر میرے پارٹی چھوڑنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، میڈیا والے بے پر کی اڑا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تحریک انصاف اور عمران خان نے جو عزت دی، میں وزیراعلیٰ بنا، یہ صرف اور صرف عمران خان کی مرہون منت ہے۔ مجھے دوسری پارٹی کیا عزت دے گی؟ عوام کی دو تہائی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے، چوں چوں کا مربہ کیا تبدیلی لائے گا؟ ان سے حکومت نہیں چل رہی، آئے تھے معیشت بہتر بنانے مگر معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا، قرضوں میں اضافہ کردیا، روپے کی قدر کم کردی، مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر پہنچا دی، غریب عوام کہاں جائیں؟ محمود خان نے کہا کہ کارکن پارٹی کا سرمایہ ہیں، آنے والے انتخابات میں سب کو پتا لگ جائے گا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں انتخابات سے اس لیے راہِ فرار اختیار کررہی ہیں کہ انہیں روزِ روشن کی طرح معلوم ہے کہ عمران خان دو تہائی اکثریت حاصل کرکے پھر حکومت بنالے گا، اس لیے سابق وزیراعظم عمران خان پر دو سو سے زائد مقدمات بنائے گئے، اور معلوم نہیں کہ مزید کتنے مقدمات قائم کیے جائیں گے! انہوں نے کہا کہ ہمارا اپنے قائد عمران خان پر بھرپور اعتماد ہے، وہی ہمارے لیڈر ہیں اور ان کی قیادت میں پارٹی متحد ہے۔