رسمِ خط اور اِملا کا خلطِ مبحث

رسمِ خط: ’’کسی زبان کو لکھنے کی معیاری صورت‘‘ کا نام ہے۔ اور ’’رسمِ خط کے مطابق، صحت سے لکھنے‘‘ کا نام ’’اِملا‘‘ ہے۔ بہت سی بحثیں ایسی ہوئیں جو دراصل املا کے مسائل سے تعلق رکھتی تھیں، مگر وہ رسمِ خط کے عنوان سے شروع ہوئیں اور اِس کے برعکس بھی ہوا۔ اِس خلط ِ مبحث نے بھی اِملا کے مسائل کی واقعی اہمیت کو نمایاں نہیں ہونے دیا۔کس لفظ کو کن حروف سے مرکب ہونا چاہیے، یا لفظ میں اُن کی ترتیب کیا ہونی چاہیے، یہ مسئلہ رسمِ خط کا نہیں ہے۔ یا یہ کہ کون سے حروف ِ تہجی ختم کردیے جائیں، یا کسی خاص آواز کے لیے کسی نئی علامت کا اضافہ کیا جائے، یہ بھی اِملا کے متعلقات ہیں۔ فرض کرلیجیے کہ آپ نے اُردو کے حروفِ تہجی میں سے آٹھ حروف نکال دیے، یا پانچ نئے حروف، یا چار نئی علامتیں بڑھادیں، مگر اِس سے رسمِ خط کی صورت تو نہیں بدلی! لفظوں کو لکھنے میں یا پڑھنے میں کبھی کوئی مشکل پیش آئی تو یہ کہا گیا کہ اُردو کے رسمِ خط میں اصلاح کی ضرورت ہے، اور اِس بنیادی بات کو فراموش کردیا گیا کہ اصلاح اِملا میں ہوسکتی ہے، رسمِ خط میں نہیں۔ وہ یا تو رہے گا، یا نہیں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسمِ خط میں تغیر ہوسکتا ہے، اِصلاح نہیں ہوتی۔ رسمِ خط میں صورت اور روِش کی بنیادی حیثیت ہے، جب اِن میں کلیتاً تبدیلی ہوجائے گی، تب یہ کہا جائے گا کہ رسم ِ خط بدل گیا۔ اُردو کی عبارت کو، اُس کے معروف رسم ِ خط میں لکھنے کے بجائے، رومن اسکرپٹ (Roman Script) میں لکھیے‘ تو کہا جائے گا کہ اُردو ایک دوسرے رسم ِخط میں لکھی گئی ہے۔ ترکی میں رومن اندازِ تحریر کو اختیار کرلیا گیا ہے، تو اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکی زبان کا رسمِ خط بدل گیا ہے۔ سندھی زبان عربی رسم ِ خط میں لکھی جاتی رہی ہے، اُس کو ناگری لپی میں لکھیے تو کہا جائے گا کہ سندھی کا رسمِ خط بدل گیا۔ اِس کے برخلاف بعض علامتوں یا شکلوں میں کسی طرح کی اصلاح کیجیے، تو وہ اُس زبان کے اِملا میں اصلاح مانی جائے گی، نہ کہ رسمِ خط میں۔ اب سے کچھ پہلے ہندی میں بعض ماتراؤں وغیرہ کا نئے انداز سے تعین کیا گیا تھا، تو یہ ہندی کے اِملا میں اِصلاح و ترمیم کا عمل جاری ہوا تھا، ہندی کا رسم ِ خط نہیں بدلا تھا، کسی نے اِس کا اِرادہ بھی نہیں کیا تھا۔
ایک خلطِ مبحث یہ بھی ہوا کہ اصلاح اور تغیر کے الفاظ کو‘ مرادف لفظوں کے طور پر استعمال کیا گیا، حال آں کہ اِن میں باہم بہت فرق ہے۔ اِملائی تغیرات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی وہ زبان کے عمل ِ ارتقا کے مختلف مرحلوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ تغیر نافذ نہیں کیا جاتا، آہستہ آہستہ خود بہ خود بروئے کار آیا کرتا ہے۔
[ اُردو اِملا : رشید حسن خاں]

مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے

نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔