جی 20- اجلاس… شر میں سے خیر

یہ دو چار دن ہفتے یا مہینے بلکہ برس کی بھی بات نہیں، پون صدی قبل کا قصہ ہے جب قیام پاکستان کے فوری بعد بانیٔ پاکستان، بابائے قوم محمد علی جناح کی ہدایت پر مجاہدین جموں و کشمیر میں تیزی سے فتوحات حاصل کرتے ہوئے سری نگر کے قریب پہنچ چکے تھے، تو بھارت کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948ء میں قرار داد منظور کی تھی جس کے تحت کشمیر میں فائر بندی کرائی گئی اور کشمیری عوام سے وعدہ کیا گیا کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی استصواب رائے کرایا جائے گا اور وہاں کے عوام سے ان کی مرضی معلوم کی جائے گی کہ وہ اپنی ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں یا بھارت سے … مگر اس وعدے کو، اس قرار داد کو آج پچھتر برس بیت چکے ہیں، کشمیری عوام سے کئے گئے عالمی برادری کے اس وعدے کی تکمیل کی نوبت نہیں آ سکی، کشمیر کے لوگوں کو اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق رائے شماری کا حق تاحال نہیں مل سکا، بھارت طاقت کے بل بوتے اور بندوق کی نوک پر کشمیر پر قابض ہے حیلوں بہانوں سے اس وعدے کو ٹالتا چلا آیا اور پھر رات گئی بات گئی، وہ اپنے وعدے سے بالکل ہی مکر گیا اور اب کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ، قرار دے کر رائے شماری سے مکمل انکاری ہے، اپنے اسی موقف کی تقویت اور کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی خاطر پانچ اگست 2019ء کو انتہا پسند، تنگ نظر اور مذہبی جنونی بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت نے بھارتی آئین کی دفعات 370 اور -35 الف حذف کر دیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں جموں و کشمیر کا آئینی امتیاز اور خود مختاری بھی ختم ہو گئی اور مقبوضہ جموں و کشمیر بھی بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرح کی ایک ریاست بنا دی گئی ہے جس کے بعد بھارت کے باقی حصوں کے لوگوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیدادوں کی خرید و فروخت اور رہائش پذیر ہونے کا حق دے دیا گیا ہے۔ اس اقدام کے پس پشت بھارتی حکمرانوں کی یہ سازشی سوچ بھی کارفرما ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کیا جا سکے اور یوں کشمیریوں کے جذبۂ حریت اور رائے شماری کے مطالبہ کو غیر موثر بنا دیا جائے۔ بہرحال کشمیر کے عوام نے بھارت کے دیگر بہت سے دعوئوں اور اقدامات کی طرح پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے چنانچہ کم و بیش چار برس گزر چکنے کے باوجود آج بھی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی کیفیت ہے اور پوری ریاست جموں و کشمیر محاصرے کی کیفیت میں ہے خطے میں گزشتہ 75 برس سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، پوری حریت قیادت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے، مقبوضہ کشمیر کے بزرگ، جرأت مند اور مقبول حریت رہنما سید علی گیلانیؒ سمیت کئی قائدین نظر بندی کے عالم ہی میں جان کی بازی ہار چکے ہیں جب کہ یٰسین ملک تہاڑ جیل میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں مقبوضہ علاقے میں ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم اور 22 ہزار سے زائد خواتین بیوہ کی جا چکی ہیں سات ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں اور بزرگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے بہت سے لا پتہ ہیں اور پونے دو لاکھ بے گناہ کشمیری جیلوں میں بند ہیں، بھارت ظلم اور جبر کا ہر حربہ آزما رہا ہے پیلٹ گنز کا استعمال عام ہے جس کے ذریعے لوگوں کو بڑی تعداد میں نابینا اور معذور بنایا جا رہا ہے ۔ لوگوں کے گھروں کی مسماری، صنفی زیادتی اور اجتماعی قبروں کی دریافت بھی بھارتی فوج کے مظالم کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ مکمل طور پر سنگینوں کے سائے میں سانس لے رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سروس 2019ء کے اقدام کے بعد طویل عرصہ بند رکھی گئی اور اس وقت بھی اکثر و بیشتر پابندیوں کی زد میں رہتی ہیں مگر تمام ظلم و ستم کے باوجود بھارت کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے…!!!

جبر کے اس ماحول میں بھارت نے جی 20 ممالک کا اجلاس 22 سے 24 مئی تک مقبوضہ کشمیر میں سرینگر میں منعقد کیا جس کے ذریعے وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا تھا کہ کشمیر پر اس کا مکمل تسلط ہے جو پر امن فضا میں سانس لے رہا ہے اور کشمیری عوام بھارت کے ساتھ خوش اور مطمئن ہیں۔ مگر عملی حقیقت یہ سامنے آئی کہ بھارت کو مقبوضہ ریاست میں اجلاس کے موقع پر تمام تعلیمی ادارے نو دن کے لیے بند کرنا پڑے، اجلاس کے دنوں میں کشمیر کے حریت پسند عوام نے مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈائون ہڑتال کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس صورت حال کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا کہ ’’جی 20 اجلاس کے لیے کشمیر کو بدنام زمانہ امریکی فوجی جیل ’’گوانتا ناموبے‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔ آئینی دفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد کشمیر ایک جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔‘‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ انسانی حقوق کے امریکی ادارے، ہیومن رائٹس کمیٹی اور ایشیا واچ جیسی بین الاقوامی تنظمیوں کی رپورٹوں میں واضح طور پر بھارت پر کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین اور بدترین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کئے گئے۔ بھارت کی جانب سے دنیا کو گمراہ کرنے کی سوچ کے تحت سیاحت سے متعلق جی۔ 20 اجلاس کے سرینگر میں منعقد کرنے کے شر میں سے اللہ تعالیٰ نے خیر یہ برآمد کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اجلاس کے اعلان کے بعد سب سے پہلے چین نے اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ ہم متنازعہ علاقوں میں جی 20- کے اجلاسوں کی کسی بھی شکل میں انعقاد کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اس لیے چین ایسے کسی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا پھر جب اجلاس کے انعقاد کا دن آیا تو بھارت کو ایک بار پھر سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ امت مسلمہ کے اہم ممالک سعودی عرب، ترکیہ اور مصر نے بھی اس میں شرکت نہ کر کے مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو اجاگر کیا۔ یوں بھارت کے اس اقدام کے سبب جو اس نے اپنی دانست میں کشمیر میں سب کچھ ’’معمول‘‘ پر ظاہر کرنے کے لیے سرینگر میں منعقد کیا تھا، عوام کے بڑے پیمانے پر احتجاج اور عالمی برادری کے رد عمل کی وجہ سے مسئلہ کشمیر جو اپنے وکیل پاکستان کے سرد مہری پر مبنی رویہ اور بھارتی جارحانہ پیش رفت کے نتیجے میں عالمی برادری کے ذہنوں سے محو ہو کر طاق نسیاں کی زینت بنتا محسوس ہو رہا تھا، جی 20- اجلاس کے بعد ایک بار پھر ابھر کر دنیا کے سامنے آ گیا ہے…!!! (حامد ریاض ڈوگر)