’’میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنی اصلاح کے ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت بنیں انہیں ایک دوسرے کا ہمدر دو مددگار اور غمخوار ہونا چاہیے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد عظیم میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان کی جماعت بحیثیتِ مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہو۔ اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تزکیے کا طریقہ یہی ہے۔ میں گرتا نظر آؤں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ میرے دامن پر کوئی دھبہ نظر آئے تو آپ اسے صاف کریں ، اور آپ کا دامن آلودہ ہورہا ہو تو میں اسے پاک کروں۔ جس چیز میں میری فلاح و بہتری آپ کو محسوس ہوا سے آپ مجھ تک پہنچا ئیں اور جس چیز میں آپ کی دنیا و عاقبت کی درستی مجھے محسوس ہو اسے میں آپ تک پہنچاؤں ۔ مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور پر سب کی خوش حالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی جب یہ امداد باہمی اور دادوستد کا طریقہ چل پڑتاہے تو پوری جماعت کا سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔“