پڑھتے پڑھتے آنکھیں پتھرا گئیں اورسنتے سنتے کان پک گئے کہ… ’’یہ کتابوں کی آخری صدی ہے‘‘ … ’’کتاب ختم ہورہی ہے‘‘ … ’’الوداع، الوداع، دورِ کتاب الوداع‘‘ اور… ’’بہت جلد کتابوں کا دور ختم ہونے والا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ایسی باتیں ہم نے پہلے بھی بہت سنیں۔ پچھلی صدی میں سنا کہ یہ صدی اس دنیا کی آخری صدی ہے۔ ایک سائنس دان نے دعویٰ کردیا کہ اتنے برس میں سورج کا ڈبّا گول ہوجائے گا۔ کچھ ’تعلیم یافتہ‘ لوگوں نے اُٹھ کر قیامت کی تاریخ طے کردی۔ اس پیش گوئی پر ایمان بالغیب لانے والے لرزتے رہے، اُن کے اعصاب پر قیامت اور دی گئی تاریخ بیت گئی، مگر قیامت نہ آئی۔ چند سال قبل عالمی ادارۂ صحت ‘WHO’ نے بھی سناؤنی سنائی تھی کہ موجودہ دُنیا ’کورونا‘ کی جس شدید وبا کا شکار ہے، اب اسی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ بسر کرنا ہوگا۔
ایسی باتیں کیسے لوگ کرتے ہیں؟ ویسے ہی لوگ، جو نہیں جانتے: ’کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے‘ اور یہ کہ بس وہی جانتا ہے کل کیا ہوگا اور قیامت کب آئے گی۔ ہر نہ آنے والی سے ڈرانے والے اس نادان ’مشقّت زادے‘(انسان) کے متعلق سُورۃ البلد میں آیا ہے :
’’کیا وہ گمان رکھتا ہے کہ اُس پر کسی کا زور نہیں چلتا؟‘‘… اور … ’’کیا وہ یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ اُس کو کوئی دیکھنے والا نہیں؟‘‘
تو صاحب اِس تیقُّن سے مستقبل پر حکم لگانا ایسے ہی بُوجھ بجھکڑوں کاکام ہے۔ قیامت نہیں آئی تو کون اُن سے پوچھنے گیا کہ ’’صاحبِ عالم! حتمی تاریخ مقرر ہوجانے کے بعد قیامت آخر ٹلی کیسے؟ بتائیے نا!‘‘ اوراگر اگلی صدی میں بھی کتابیں دندناتی پِھرِیں تو فقط اس سوال کا جواب دینے کے لیے کون جیتا رہے گا کہ ’حضور!کہاں گیا وہ لب و لہجہ وہ طنطنہ؟ کہ الوداع الوداع، دَورِ کتاب الوداع‘۔
لوگ زورِ کلام کے لیے، محترم مفتی تقی عثمانی کے بھتیجے اور برادرم، سعودؔ عثمانی کے مشہور شعر کا دوسرا مصرع مستعار لے لیتے ہیں:
کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ رُوٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
بھائی! شاعری، شاعری ہوتی ہے۔ تخیل کا پرتو۔ برقی کتب کی آمد ہوئی توکچھ لوگوں کو کاغذ کی کتابیں قصۂ ماضی بنتی نظر آنے لگیں۔ مگر کتنے لوگ ہوں گے جو کمپیوٹریا فون پر کوئی برقی کتاب مکمل پڑھ لیتے ہوں؟ کتابیں پڑھنے والے شاید اب بھی کاغذ ہی کی کتابیں اوّل تا آخر پڑھتے ہیں۔کاغذ کی کتابوں میں نشان لگانا اور نشان زدہ حصے نکال کر بار بار پڑھ لینا نسبتاً آسان ہے۔ بس میز سے کتاب اُٹھانے کی زحمت اُٹھانی پڑتی ہے۔ جِھلّی یا چمڑے پر ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں کے دور سے لے کر، اب بہترین قیمتی آرٹ پیپر پر طبع شدہ نفیس، مزیّن اور رنگا رنگ کتابوں کے زمانے تک، ارتقا کا جوسفر طے ہوا ہے، کیا وہ اُس ذات کی مرضی، منشا اور مشیت کے بغیرطے ہوگیا ہے، جس نے صدی بہ صدی انسان کے علم و فن میں بتدریج اضافہ کیا اور جس نے انسان کو خود یہ دُعا سکھائی: ’’رَبِّ زِدْنِی عِلْماً‘‘۔
وہی تو ہے جس نے آسمان سے آخری کتاب نازل کی۔ بتایا کہ اس کتاب [کے کتابُ اللہ ہونے] میں کوئی شک نہیں۔ اللہ کی اِس کتاب سے اب تک بے حساب کتابیں وجود میں آچکی ہیں۔ انسان ہو یا انسان کے ہاتھوںکی تخلیق ’حاسب‘ (Computer)، کسی کے بس کی بات نہیں کہ اُن سب کتابوں کا حساب (Compute)کرسکے۔ ’الکتاب‘ تاقیامت رہے گی۔ تفسیری کتب (اُردو میں بھی) قیامت تک وجود میں آتی رہیں گی اورماضی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ صدی بہ صدی کتابوں کا معیار بلند ہوتا جائے گا۔ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلّم کی فرمائی ہوئی علاماتِ قیامت کے مطابق، آخر میں علم گھٹ جائے گا، جہل بڑھ جائے گا۔ پھر وہ وقت آجائے گا جب راتوں رات قرآنِ مجید کی آیات سینوں سے اور اس کے حروف مصحف سے اُٹھا لیے جائیں گے، صفحات سادہ رہ جائیں گے۔ قیامت برپا ہوجائے گی۔ شاید وہی صدی آخری صدی ہو۔ (دیکھیے: صحیح بخاری، حدیث نمبر:81۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:3289۔ سنن الدارمی، حدیث نمبر:3370)
’ک ت ب‘ سے بننے والے جتنے الفاظ ہیں سب کا مطلب ’لکھنا‘ ہے۔ کتابت لکھنے کا عمل ہے۔ کاتب لکھنے والا ہے۔ مکتوب ہے لکھی ہوئی چیز۔ ہمارے ہاں مکتوب سے مراد خط لیا جاتا ہے۔ مکاتبت کے معنی ’خط کتابت‘ ہیں، اور فقہی اصطلاح میں وہ معاہدہ جو کوئی غلام یا لونڈی ایک معینہ معاوضے کے عوض آزادی پانے کے لیے تحریر کروائے۔ کتبہ بھی لکھی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔ عموماً قبر کے تعویذ کی تحریر کتبہ کہلاتی ہے۔ حالاں کہ حکمران سرکاری خرچ پر بنی ہوئی عمارتوں میں اپنے نام کی اور اپنے نام کو، جو تختیاں نصب کرواتے ہیں اُن کی تحریر بھی کتبہ ہے۔ مکتب کا لفظی مطلب ہے لکھنے کی جگہ۔ پہلے اس سے مراد درس گاہ ہوئی، پھر جب ہر مدرسے نے ’مکتب فکر‘ کی صورت اختیار کرلی تو اس ترکیب کا اطلاق ایک خاص عقیدہ یا خاص نظریہ رکھنے والے گروہ پر بھی کیا جانے لگا۔ مکتب فکر کو ’مکتبۂ فکر‘ لکھنا غلط ہے۔ مکتبہ لکھی ہوئی چیزوں کا ذخیرہ کرنے کی جگہ یعنی کتب خانے کو کہا گیا۔ زمانے نے ترقی کی تو کتابوں کا اشاعت خانہ بھی مکتبہ ہوگیا۔ مکتوب کی جمع مکاتیب اور مکتب کی جمع مکاتِب ہے۔ جو لوگ ’مکاتیبِ فکر‘ لکھتے ہیں، غلط کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جا بجا ’’کُتِبَ عَلَیْکُم‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں جس کا لفظی ترجمہ ہے: ’تم پر لکھ دیا گیا‘۔ اصطلاحی معنی ہیں’تم پر فرض کردیا گیا‘ یا ’تم پر واجب کردیا گیا‘۔ جن رسولوں پر شریعت نازل کی گئی، خواہ لکھی ہوئی نازل ہوئی یا بعد میں لکھ لی گئی، دونوں صورتوں میں ’کتاب‘ کہی گئی۔ توریت، انجیل، زبور اور قرآنِ مجید آسمان سے اُتری ہوئی کتابیں ہیں۔ کتاب بھی لکھی ہوئی چیز یا نوشتہ ہے،جس کو الوداع کہا جارہا ہے۔
’رقم کرنا‘ لکھنے کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ لکھنے اور نقطے یا اِعراب لگانے کو ’ترقیم‘ کہتے ہیں۔ پہلے بے نقط اور بے اِعراب لکھنے کا رواج تھا۔ رقم کا لفظی مطلب دھاری دار، چتکبرا یا سیاہ و سفید ہے۔ ’ارقم‘ ایک زہریلے چتکبرے سانپ کو کہتے ہیں۔ مجازی معنوں میں قلم بھی ’الارقم‘ ہے۔ لکھنے کا عمل چتکبرا عمل ہے۔ سفید پر سیاہ سے لکھتے ہیں یا ایسے رنگ سے کہ قرطاس پر مرقوم الفاظ نمایاں نظر آئیں۔ مرقوم کا مطلب ہے لکھا ہوا۔ ٹانگوں پر سیاہ و سفید دھاریوں یا دھبوں والا بیل ’ثَورٌ مَرقُوم القَوائم‘ کہلاتا ہے۔ کسی کو کہہ مت دیجے گا۔
اب سے دو ڈھائی برس بعد یہ صدی چوتھائی سفر طے کر چکی ہوگی۔ ہم میں سے کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ2025ء ہی کا سورج دیکھ سکے گا،کجا کہ اگلی صدی کا۔ رواں صدی میں ابھی تک تو کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں۔لوگ نہ صرف پڑھ رہے ہیںبلکہ کتابوں پر تبصرے لکھ بھی رہے ہیں اورصدا بندبھی کررہے ہیں۔ وسیع المطالعہ لوگ اپنی اپنی ’کتاب بیتی‘ سنا رہے ہیں۔’کتاب دوستی‘ کی انجمنیں بن رہی ہیں۔ ارے تو کیا یہ ساری کی ساری ’کتاب کو الوداع‘ کہنے کی تیاری ہے؟
کسی نے جھوٹ کی درجہ بندی کرتے ہوئے تین درجات مقرر کیے تھے:’جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار‘۔ کتابیں نہ پڑھنے والے بے شک بے شمار ہوں گے۔ مگر کتابیں پڑھنے والوں کو کسی نے کب شمار کیا؟ یہ تو ایسی ہی دلیل ہے جیسی کسی چور نے دی تھی :’’ آپ صرف چار گواہ پیش کررہے ہیں، جنھوں نے مجھے چوری کرتے دیکھا۔ میں چارسو، چارہزار بلکہ چار لاکھ ایسے افراد بتا سکتا ہوں جنھوں نے مجھے چوری کرتے نہیں دیکھا‘‘(اعداد و شمارکو داد دیجے)۔ کن کن شہروں، کن کن قصبوں اور کن کن دیہاتوں کے جدید و قدیم کتب خانوں میں اُردو کی کون کون سی نئی اور نادر و کمیاب کتابیں پڑھی جا رہی ہیں، اِس سے بھلا اُن کو کیادلچسپی ہو سکتی ہے جن کا اُردوپڑھنے کا شوق مثنوی ’سحر البیان‘ ہی پرمُک جاتا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کی ’سیرت النبی‘سے لے کر مولانا مودودی کی ’تفہیم القرآن‘تک بے شمار ادبا، علما اور مصنفین نے اُردو ادب کو جو گراں قدرذخیرۂ کتب عطا کیا ہے،کیا خبر بے خبروں کو کہ یہ دولت کیا ہے۔اس ذخیرۂ دولت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔