خود سے خدا تک

عہدِ اوّل کے بعد کبھی آدمی یہ نہ سمجھ سکا کہ اللہ کی آخری کتاب میں علوم کا خزانہ کس قدر بے کراں ہے۔ ناصر افتخار نے اس دریا میں چھلانگ لگائی ہے اور بہت سے لعل و گوہر تلاش کیے ہیں۔ بہت سے سانپوں، سنپولوں اور اژدھوں کا سراغ لگایا ہے۔ وہ ابھی طوفانوں اور موجوں سے لڑ رہے ہیں، ابھی کش مکش میں ہیں لیکن ساحل کے عزم اور تمنا کے ساتھ۔ لگتا ہے کہ زندگی کے تمام اسرار، اشکال نفسِ انسان کی طرح ہوتے ہیں، ان کی وضاحت بھی شاید پیچیدگیوں کے تسلسل کا نام ہے۔
اپنی شناخت، اپنے باطن میں ڈوب کر اپنا سراغ لگانے کی مہم دنیا کی مشکل ترین مہم ہے۔ سلطان باہوؒ نے کہا تھا: ’’دل دریا سمندروں ڈونگے، کون دلاں دیاں جانے ہو‘‘۔ اوّل تو اس دریا میں کوئی اترتا ہی نہیں، اور اگر اترے تو تھک کر لوٹ آتا ہے کہ آدمی کو خود سے محبت بہت ہوتی ہے۔ اپنے خلاف لڑی جانے والی جنگ صرف وہی جیت سکتا ہے جو صداقتِ ازلی کا شیدا ہو۔یہی اقبال کا مردِ مومن ہے، اسی کو ہم صوفی، درویش اور سالک کہتے ہیں۔ آزمائش بہت بڑی اور عقل بہت چھوٹی۔ بچے گا وہی جو ایمان رکھتا ہو، صبر کا دامن ہمیشہ تھامے رکھے اور غور و فکر اپنا شعار بنالے۔ ایک عارف باللہ نے کہا تھا: دو چیزیں شاید انسان کبھی نہ سمجھ سکے گا، جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامات کتنے ہیں اور نفس کے فریب کس قدر۔
یہ کتاب آپ پر لکھی گئی ہے۔ یہ آپ کو بتائے گی کہ آپ کون ہیں؟ اسے پڑھنے کے بعد آپ کے اندر بے پناہ تبدیلی آئے گی۔ آپ کا زاویۂ نظر بدل جائے گا، بڑھ جائے گا۔ علم حاصل ہوگا اور اس علم کی مدد سے آپ خود کو بدل ڈالنے میں اللہ کے فضل سے کامیاب ہوتے چلے جائیں گے، اور یہ کتاب آپ کو مایوسی سے نکال کر اللہ سے روشناس کروائے گی۔