’’نعت ہمارے شعر و ادب کی قابلِ قدر روایت بن گئی ہے۔ ایسی روایت جو شاعری میں عبادت کے منفرد عوامل کے ساز و برگ کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ نعت کو شاید کسی اور مذہب و ملّت میں وہ اہمیت حاصل نہ ہو جو ہمارے شعر و ادب میں ہے۔ اس کو مقصد دینے، متحرک کرنے کی ابتدا حالی نے کی، جسے اقبال نے اس درجے پر پہنچادیا ہے جس کے آگے پہنچانا اب کسی اقبال ہی کا کارنامہ ہوگا اور مستقبل قریب و بعید میں کسی دوسرے اقبال کا ظہور پانا آسان معلوم نہیں ہوتا‘‘۔
تنقیداتِ اقبال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس زاویے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے، مگر اس کا عنوان اقبال کی نعت گوئی نہیں ہے، بلکہ اقبال کا عشقِ رسولؐ رہا ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اقبال کے ہاں علیحدہ سے نعت مروجہ صورت میں دستیاب نہیں ہوتی، حالانکہ اقبال کے عشقِ رسولؐ پر لکھتے ہوئے درحقیقت تمام اہلِ علم نے اقبال کے کلام میں نعتیہ عناصر ہی کو نمایاں کیا ہے اور ان کے فکری پہلوئوں کو بااہتمام موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔
زیر نظر کتاب ’’اقبال کی نعت… فکری و اسلوبیاتی مطالعہ‘‘ بھی دراصل اسی جستجو کا تسلسل ہے۔ اس کاوش سے مقصود فکرِ اقبال کے آئینے میں عشقِ رسولؐ کا عکس دکھانا اور نعت کے تخلیقی آفاق پر پھیلنے والی حیات افروز روشنی کو نمایاں کرنا ہے جس نے نہ صرف اقبال کے نعتیہ اظہار کو ایک انقلابی آہنگ عطا کیا، بلکہ اسلوبِ نعت کا مزاج بھی بدل ڈالا، اور یوں نعت میں جذب و فکر کی نو بہ نو کیفیات نے ظہور کیا۔ اقبال کے نعتیہ اشعار نے نہ صرف افغانستان و ایران اور ہندوستان کے مسلمانوں میں محبت کی روح پھونکی بلکہ پورے عالمِ اسلام کا دامن عشق کی حرارت اور کیف و مستی سے بھردیا۔ نعت میں بھی اقبال نے اپنی طرزِ سخن کے عین مطابق ایک نئی روش نکالی اور اس میں بھی احیا و انقلاب کا سامان پیدا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اقبال کے فکری و تخلیقی تناظر میں مومنِ اوّل اور مردِ کامل کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں، آپؐ کی زندگی اور اسوۂ حسنہ ہی اقبال کے قلندر، درویش اور مردِ خود آگاہ و خدا مست کے مشعلِ راہ کا درجہ رکھتا ہے۔
اقبال کی نعت اپنی یگانگت اور انفرادیت کا ایک اور بہت اہم یہ حوالہ رکھتی ہے کہ اقبال نے جس طرح نعت کی موضوعاتی وسعت کو کائناتی سطح تک پھیلایا اور اس کی لے کو سوزِ دروں اور جذبِ باطن سے ہم آہنگ کیا ہے، اسی طرح اس نے نعت کی صنفی اور ہیئتی قیود کو بھی کراں تابہ کراں کشادہ کیا ہے کہ اس میں وجود و شہود، زمین و زماں، شاہد و مشہود اور حضوری و سپردگی کے تصورات سے تجربات تک تہہ درتہہ عناصر مل کر ایک ایسا کلامیہ تشکیل دیتے ہیں جو کشف و الہام کی سطح کو پہنچا ہوا معجزۂ فن بن جاتا ہے۔اس کتاب میں شامل مضامین دراصل ایک بڑے ذخیرے سے بہت احتیاط اور ذمہ داری سے منتخب کیے گئے ہیں، اس لیے کہ مقصد ایک کتاب مرتب کرنا نہیں تھا بلکہ اس موضوع پر ان اہم ترین تحریروں کو یک جا کرنا اور ایک ایسا لوازمہ پیش کرنا تھا جو موضوع کی تمام ممکنہ فکری، ادبی اور اسلوبیاتی جہات کا احاطہ کرتا ہو۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ اس مطالعے سے نعت گو شاعر اور نعت کے نئے ناقدین ہی استفادہ نہیں کریں گے بلکہ یہ مضامین اور ان میں پیش کیے گئے اشارات و نکات ایک عام قاری کو بھی اپنے ادب، شاعری، تہذیب اور زمانی حقائق کو سمجھنے کے لیے نئے شعور سے ہم کنار کریں گے۔
کتاب خوب صورت عکس و ڈسٹ کور کے ساتھ سفید کاغذ پر شائع کی گئی ہے، کتاب کی حروف خوانی نے اس کو چار چاند لگادیئے ہیں، ہر عاشقِ رسولؐ کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صبیح رحمانی بھائی کی کاوشوں کو قبول فرمائے، آمین ثم آمین۔