معروف کالم نگار ڈاکٹر قاسم سوڈھر نے بروز پیر 15مئی 2023ء کو اپنے زیر نظر کالم میں وطنِ عزیز کی سیاست کے حوالے سے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ کاوش حیدرآباد میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
’’قیامِ پاکستان سے پیشتر مسلمان اکثریتی ریاستوں کے لوگوں سے جو وعدے کیے گئے ان کی ملک کے قیام کے بعد سے ہی نفی کی گئی، اور اسی طرح سے بعدازاں بھی لگاتار کبھی ریاست قلات پر قبضہ، کبھی خدائی خدمت گار پارٹی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنا، اور کبھی کراچی کو سندھ سے الگ نہ کرنے کے جرم میں سندھ اسمبلی کا تقدس پامال کرنے سمیت ون یونٹ کا نفاذ کرنا، نیز ضیا الحق کے مارشل لا یا پرویزمشرف دور میں روا رکھے گئے مظالم سمیت برائے نام سویلین حکومتوں میں عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیاں… درحقیقت یہ سب کچھ بے چارے عوام ہی نے ہر دور میں بھگتا اور برداشت کیا ہے۔
چند دن قبل عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو صورتِ حال سامنے آئی، اس میں عسکری اداروں کے اہم دفاتر پر حملے کرنے تک کے بھی معاملات سامنے آئے، اس حوالے سے کہا گیا کہ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے طالبان کی طرف سے جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا تھا اور جسے موقع پر ہی ختم کردیا گیا تھا۔ میں اگرچہ تشدد کے خلاف ہوں لیکن یہ سوال بہرحال ضرور ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر اِس مرتبہ جب پی ٹی آئی کے کارکنان نے حملہ کیا تو سیکورٹی اتنی کمزور کیوں تھی؟ آخر کیوں اور کس لیے حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیا گیا؟ کیا مجموعی صورتِ حال میں خان صاحب کو خود طاقتور اداروں کی خفیہ سپورٹ حاصل ہے؟ کیوں کہ یہ امر تو اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا ہے کہ عمران خان کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے والے بھی ہمارے ملک کے یہی خفیہ ادارے تھے، پھر بھلے سے ان اداروں میں سے اس وقت مضبوط طاقت خان صاحب کو سپورٹ نہ کرتی ہو۔ دوسری بات یہ کہ تاریخی طور پر ملک میں اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ ہمیشہ سے ہی ایک پیج پر رہتے چلے آئے ہیں، جس کی بہت ساری مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے اگر عدالت ضیا الحق کے ساتھ کھڑی ہوئی نہ ہوتی تو بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ممکن ہی نہیں تھا۔ اسی طرح 90ء کی دہائی میں نوازشریف انہی ’’شریف النفس‘‘ اداروں کے ایک طرح سے رازدان اور نفسِ ناطقہ بنے ہوئے تھے، تب سپریم کورٹ انہیں مکمل طور پر تحفظ فراہم کرتی رہی، لیکن آخر کیا سبب ہے کہ اِس وقت جب کہ بہ ظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے عمران خان کے خلاف ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کپتان کو ہر مرتبہ اور بار بار مکمل ریلیف دیتے چلے جارہے ہیں؟
آج کل بحث جاری ہے کہ عدلیہ باہم تقسیم ہوچکی ہے، اور اس بات کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق عمران خان کی گرفتاری کو قانونی عمل قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس گرفتاری کو غیر قانونی عمل گردانتے ہیں۔ بہرکیف پاکستان کی اس ساری سیاسی صورتِ حال میں اس وقت سیاسی طور پر عمران خان ہی چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف اتحادی حکومت کا محض ڈمی کردار نظر آتا ہے، جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرنے سے زیادہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
عمران خان اقتدار سے باہر آنے کے بعد ہی سے آج تک متواتر اس بات پر بضد ہیں کہ فوری الیکشن کروائے جائیں، کیونکہ انہیں امید ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے انہیں کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو خواہ کسی بھی طور سے سہی لیکن اِس وقت عمران خان ہی ملک میں سب سے پاپولر سیاست دان ہیں، اور اگر الیکشن میں دھاندلی نہ کی جائے تو اُن کے الیکشن جیتنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت یہ مطالبہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ ملک میں بلاتاخیر الیکشن کروائے جائیں، اور اگر ان کے اس مطالبے پر عمل درآمد ہوگیا تو الیکشن میں دھاندلی ہونے کی صورت میں چیف جسٹس صاحب (موجودہ) اس معاملے پر ان کی مکمل سپورٹ کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں بھی اس بات پر بضد ہیں کہ الیکشن کا انعقاد ماہ ستمبر کے بعد ہی کروایا جائے، کیونکہ ستمبر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ریٹائر ہونا ہے جس کے بعد عمران خان کی سپورٹ کا دھاگہ بھی ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ اس صورتِ حال میں جب کہ پی ڈی ایم سپریم کورٹ کی جانب سے خان صاحب کی سرِعام حمایت ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے تو یہ امر یقیناً اتحادی حکومت ہضم یا برداشت نہیں کرسکتی۔ اسی لیے پی ڈی ایم کی طرف سے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا مارنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ اُس وقت تک احتجاج پر بیٹھی رہے گی جب تک کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوجاتے۔ میرے خیال میں اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس کو سپورٹ کرنے والا فریق بھی اتنا کمزور ہرگز نہیں ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے سامنے اپنے ہتھیار پھینک دے۔ اس لیے لگتا ہے کہ مقابلہ دلچسپ ہوگا۔
اس ساری رسّاکشی اور انارکی پر مبنی صورتِ حال میں نقصان ہمارے ملک کی معیشت کو پہنچ رہا ہے، اور اس معیشت کا براہِ راست تعلق ملک کے اکثریتی عوام سے ہے۔ اس لیے عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ان طاقت ور حلقوں کی اقتدار اور طاقت کو بڑھانے کی جنگ میں وہ خوامخواہ اپنی توانائیاں ضائع نہ کریں، بلکہ اس کے برعکس عوام کو اپنے لیے ایک درست متبادل تلاش کرنا چاہیے، جو اقتدار کی لڑائی نہیں بلکہ عوام کی حقیقی خود مختاری اور معاشی سمیت ہر حوالے سے بہتری پر یقین رکھتا ہو۔