پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر کی طرح خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع بشمول پشاور میں بھی پی ٹی آئی کارکنوں کے احتجاج اور گھیراؤ جلاؤ کی وجہ سے صورتِ حال کشیدہ رہی۔
احتجاج کے روز پشاور میں غیر یقینی صورتِ حال کے باعث ٹریفک کا نظام بھی مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ پشاور کے علاوہ چارسدہ، بنوں، دیر، سوات، صوابی، نوشہرہ اور مردان میں بھی صورتِ حال کشیدہ رہی اور بڑے پیمانے پر کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ احتجاج میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب رجمنٹ سینٹر، مردان ایکسپریس وے، سوات انٹر چینج، نستہ انٹر چینج اور ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت سمیت تمام سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کی شناخت کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ نادرا کی مدد سے سی سی ٹی وی کیمروں اور خفیہ کیمروں کی مدد سے مظاہرین کی شناخت کی جارہی ہے اور پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا گیا ہے، جب کہ ذرائع کے مطابق ان کی گرفتاری کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ خیبر پختون خوا کے مختلف اضلاع میں اب تک سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ مزید گرفتاریاں جاری ہیں۔
پشاور پولیس نے ریڈیو پاکستان و صوبائی اسمبلی سمیت سرکاری املاک کو آگ لگانے اور اہم مقامات کو نقصان پہنچانے والے 42 مظاہرین کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کرلیے ہیں۔ توڑ پھوڑ، گاڑیوں پر پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ پولیس ترجمان کے مطابق قلعہ بالا حصار، ریڈیو پاکستان اور صوبائی اسمبلی سمیت اہم عمارتوں میں داخل ہونے اور سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچانے والے دیگر افراد کی شناخت کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کرلی گئی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے مظاہرین کی قیادت کرنے والے سابق ایم این ایز اور ایم پی ایز کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارنا شروع کردیئے ہیں۔ اگر کوئی سابق ایم این اے یا ایم پی اے املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی مقدمات درج ہوں گے۔ پولیس نے بتایا کہ پشاور میں موٹروے انٹر چینج، دلہ زاک روڈ کمبوتر چوک اور جنرل بس اسٹینڈ سمیت 8 مقامات پر مظاہرے ہوئے تاہم سب سے بڑا مظاہرہ سورے پل میں ہوا۔ ہشت نگری بازار کی مختلف دکانوں پر حملوں کے واقعات بھی پیش آئے اور املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، جبکہ جی ٹی روڈ پر واقع پلازے اور اس کے قریب عمارت پر پتھراؤ کرکے شیشے توڑے گئے۔ ادھر باچا خان چوک کے قریب ڈائریکٹوریٹ آف کیپٹل میٹرو پولیٹن اور میئر پشاور کا سائن بورڈ اکھاڑ کر سڑک کے بیچ رکھ دیا گیا تھا، جبکہ دیگر مقامات پر بھی دکانوں کے سائن بورڈز اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مختلف چوکوں، شاہراہوں اور بازاروں میں نوجوانوں کے جتھے موجود تھے۔ پولیس کے مطابق گزشتہ روز احتجاج کی آڑ میں بعض عناصر نے لوٹ مار شروع کردی جبکہ کئی دکانوں کے تالے توڑے گئے۔ ہشت نگری میں ہی مین روڈ کے اوپر واقع اسلحہ کی دکان کے تالے نامعلوم افراد نے توڑ دیئے تھے۔ اس ضمن میں وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے دکان سے مختلف قسم کا اسلحہ لے کر جارہے ہیں۔ بعد ازاں ہشت نگری پولیس نے نشاندہی کرکے 4 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے اور ان سے 6 بندوقیں برآمد کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔
احتجاج کرنے والے پی ٹی آئی کے ہزاروں مشتعل کارکنوں نے بلامبٹ دیرپائین میں فرنٹیئر کور اسکول اینڈ کالج پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کے بعد اسکول میں موجود فرنیچر اور ساز و سامان کو آگ لگادی تھی۔ ایف سی پبلک اسکول بلامبٹ تیمرگرہ کی 37 کمروں پر مشتمل عمارت کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا، شیشے، الماریاں، کھڑکیاں اور دروازے توڑ دیئے گئے جس کے بعد کمپیوٹرز، سائنس لیبارٹری کا سامان، پنکھے، لیپ ٹاپ، ایئر کنڈیشنر اور مبینہ طور پر اسکول کے بچوں کی فیس کے مبلغ 9 لاکھ روپے لوٹ لیے گئے تھے جبکہ اسکول کی عمارت کو آگ لگادی گئی تھی۔ اسکول انتظامیہ کے مطابق فرسٹ ایئر کلاسز کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے نوتعمیر شدہ یونٹ بھی نذر آتش کردیا گیا جس میں اگست سے نئی کلاسز کا آغاز ہونا تھا۔ اسکول انتظامیہ کے مطابق اسکول میں زیر تعلیم 1430 طلبہ میں سے اکثریت مقامی سویلین افراد کے بچوں کی ہے۔ اسکول انتظامیہ کے مطابق اسکول تباہ ہونے کے بعد طلبہ وطالبات کی پڑھائی کا سلسلہ بند کردیا گیا ہے جبکہ متاثرہ اسکول کی بحالی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں، اسکول کی تباہی کے باعث ملاکنڈ بورڈ کے زیر اہتمام میٹرک امتحانات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی لوئر دیر کے تین سابق ارکان اسمبلی کو پولیس نے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے، ڈی پی او لوئر دیر طارق اقبال کے مطابق ملک شفیع اللہ خان، ملک لیاقت اور محمد اعظم خان کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے دیگر ارکان اسمبلی اور قائدین کو بھی جلد گرفتار کیا جائے گا جبکہ ایف سی پبلک اسکول جلانے والے شر پسندوں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔
اس دوران نگران وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمد اعظم خان، چیف سیکرٹری ندیم اسلم چودھری اور نگران وزیر اطلاعات و تعلقاتِ عامہ خیبر پختون خوا بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے کہا ہے کہ ملکی تنصیبات کو نقصان پہنچانا اور قیمتی املاک کو جلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ پُرتشدد احتجاج کے دوران ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو بے رحمی سے نذرِ آتش کیا گیا، قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی ایک غلط مثال قائم کی گئی ہے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سینٹر کے دورے کے دوران انہوں نے شرپسندوں کے حملے میں زخمی ریڈیو پاکستان کے ملازمین سے ملاقات کی اور آگ سے متاثرہ ریڈیو اسٹیشن کی بلڈنگ کا معائنہ بھی کیا۔ اس دوران اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان پشاور اعجاز خان نے وزیراعلیٰ کو اسٹیشن کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ریڈیو پاکستان کی عمارت کے علاوہ پرانے ریکارڈ، گاڑیوں، کمپیوٹرز، اور دیگر قیمتی مشینری کو نقصان پہنچایا گیا ہے، جبکہ واقعے میں ریڈیو پاکستان کے دو ملازمین شدید زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان میں 1935ء سے موجود قیمتی آرکائیوز کو بھی بے دردری سے جلایا گیا۔ نگران وزیر اطلاعات نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شرپسند عناصر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کی آواز کو چپ کرانا چاہتے ہیں مگر وہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے اور اس حملے میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ ریڈیو پاکستان نے پاک فوج کی مدد سے اپنی نشریات دوبارہ شروع کردی ہیں جب کہ آرمی نے بجلی کی فوری بحالی اور صفائی کے انتظام کے لیے 100 سے زائد افراد پر مشتمل عملہ فراہم کیا تھا۔
واضح رہے کہ پشاور ریڈیو اسٹیشن کا شمار برصغیرپاک وہند کے دو قدیم ترین ریڈیو اسٹیشنز میں ہوتا ہے، جس کا پہلا ٹرانسمیٹر ریڈیو کے موجد مارکونی نے خود اسلامیہ کالج پشاور کے بانی اور خیبر پختون خوا کے ممتاز ماہر تعلیم اور راہنما صاحب زادہ عبدالقیوم خان کو عطیہ کیا تھا۔ دراصل ریڈیو پاکستان پشاور ایک قومی اثاثہ اور تاریخی ورثہ ہے اور عوام کو بروقت معلومات کی فراہمی کے علاوہ مقامی ادب اور ثقافت اور قومی ومذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ریڈیو پاکستان پشاور کا ہمیشہ سے بہت بڑا کردار رہا ہے۔ اس تاریخی ورثے کو اس طرح کا نقصان پہنچانا انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔