کچھ سیاست دانوں کی سرگرمیاں بتارہی ہیں کہ آزادکشمیر میں ایک کنگز پارٹی کے قیام کا تجربہ ہونے جارہا ہے۔ یہ تجربہ سب سے قدیم سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے ٹائٹل کے تحت ایک داخلی جماعت کے طور پر بھی کیا جا سکتا ہے، اور اس کی شکل و صورت کوئی اور بھی ہوسکتی ہے۔ اس میں تمام جماعتوں کے دھڑوں اور شخصیات کو شامل کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ آزادکشمیر کے موجودہ ماحول میں کنگز پارٹی بنانے کا تکلف کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں کنگ کون ہے؟ کیا آزادکشمیر میں کوئی جماعت کنگ کے حکم سے سرتابی کررہی ہے؟ کیا کوئی جماعت کنگ کی اطاعت سے انکاری ہے؟ اگر سبھی ریاستی اور غیر ریاستی جماعتیں کسی کنگ کی اطاعت کررہی ہیں تو پھر الگ سے کسی جماعت کا ڈول ڈالنے کی ضرورت کیا ہے؟ اس سے بھی بڑھ کر آزادکشمیر کے جوانوں اور سوسائٹی کی ضرورت اب نت نئی سیاسی جماعتیں نہیں رہیں۔ نسلِ نو کی ضرورت تعلیم، صحت اور روزگار کے بہتر مواقع ہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں جدت ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کے لیے روزگار کے مواقع ہیں تاکہ ڈگری حاصل کرتے ہی کوئی نوجوان بیرونِ ملک جانے پر مجبور نہ ہو، اور سوسائٹی میں برین ڈرین کا عمل تیز نہ ہو۔ آزادکشمیر کے نوجوان کا مسئلہ کرپشن سے پاک اور قانون کی حکمرانی کا حامل معاشرہ ہے۔
اگر اس معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو آج بیرونِ ملک بسنے والے لاکھوں کشمیری یہاں سرمایہ کاری کرکے ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہوتے۔ ان کشمیریوں کو یہاں آنے اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری یا کسی بھی نوعیت کا مثبت کردار ادا کرنے سے کوئی روک رہا ہے تو یہ اس علاقے میں قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا یا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جنگل کے قانون کا نفاذ ہے۔ بیوروکریٹک بھول بھلیاں بھی اس راہ کی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
آزادکشمیر کے معاشرے کی ایک اور ضرورت برادری ازم کی پرستش کے رویوں میں کمی ہے۔ ایک ہمہ گیر سماجی اصلاح، جس میں لوگوں کو ریاستی املاک اور زمینوں کو امانت سمجھنے کا احساس اُجاگر ہو۔ آزاد کشمیر کے ڈھانچے کی اس انداز سے تشکیلِ جدید ہو جس میں یہ خطہ سری نگر کی آزادیاں سلب ہونے کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کی آواز بن سکے مگر اسے ایک نئی دکان اور نئے کاروبار کے طور پر نہ چلایا جائے بلکہ ایک کاز اور مشن کے طور پر جاری رکھا جائے۔
ان سب پہاڑ جیسے مسائل کی موجودگی میں سیاسی تجربات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ یہ نئی نسل کو کنفیوژ کرنے اور حقیقی مسائل سے نظریں چرانے کا رویہ ہے۔ کنگر پارٹی میں جو لوگ شامل ہیں کیا وہ مریخ سے آئیں گے یا کسی عالمِ بالا سے اُتریں گے؟ ان میں اکثر وہی چہرے ہوں گے جو آزادکشمیر کے بگڑے ہوئے سیاسی کلچر کا حصہ رہے ہیں۔جو کسی نہ کسی سطح میں خرابی میں شریک رہے ہیں۔ 75 سالہ گھسے پٹے تجربات کو دہرانے سے آزادکشمیر کے عوام کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔سیاسی جماعتوں کی قطع برید کے ذریعے ایک بوسیدہ نظام کو تسلسل اور استحکام دینا عوام کے مسائل کا حل ہے نہ ان کے دکھوں کا مداوا۔اچھا ہو کہ پرانی سیاسی جماعتوں پر ہی قناعت کی جائے۔آزادکشمیر کی کوئی بھی سیاسی جماعت سسٹم کے لیے انقلابی نہیں رہی بلکہ ان میں ہر جماعت فرینڈلی رویّے کی حامل رہی ہے۔ ددستوںسے گلے شکوے ہو سکتے ہیں مگر انہیں تباہ کرنا حکمت کا تقاضا نہیں۔
آزادکشمیر کی سیاست اس وقت تجریدی آرٹ کا ایک نمونہ اور منظر پیش کررہی ہے۔ ہر پارٹی نیلی پیلی ایک آڑھی ترچھی لکیر کی طرح اس منظر کو مبہم اور غیر واضح کرتے ہوئے گزر رہی ہے۔ اس سیاسی پزل میں کون کس کے ساتھ ہے؟ کون کس کا اتحادی ہے؟ کون اپوزیشن میں اور کون حکومت میں ہے؟ جب سے تبدیلی کا پنڈورا باکس کھلا ہے کسی کو خبر نہیں، بلکہ وہ لوگ بھی اس سے بے خبر اور ناآشنا ہیں جو اس عمل کا سرگرم حصہ ہیں۔ خود کھلاڑیوں کو خبر نہیں کہ وہ کس جانب کھیل رہے ہیں اور ان کے گول سے جیت کس کی ہوگی؟ اور گول کیپر کو اندازہ نہیں کہ وہ دفاع کرکے کس کا کام کررہا ہے؟ اور گول ناکام بنانے پر اسے انعام و اکرام ملے گا یا الزام و اتہام؟ کسی کو خبر نہیں کہ وہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں؟ آزادکشمیر کی سیاست میں اتنی پیچیدگی اور اُلجھائو شاید ہی پہلے کبھی دکھائی دیا ہو۔ جوتشیوں، پنڈتوں، نکتہ وروں اور ریاضی دانوں کے لیے بھی اس مسئلے کو سلجھانا کارِ دارد ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد سیاسی عمل ایک مقام پر رک گیا ہے۔ پسِ پردہ جوڑتوڑ کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہورہا ہے۔ ایسے میں پندرہویں آئینی ترمیم کی باتیں عام ہیں بلکہ اس کا مسودہ بھی سامنے آگیا ہے۔ اس آئینی ترمیم کا مقصد کابینہ کے ارکان کی تعداد بڑھانے کی گنجائش پیدا کرنا ہے کیونکہ تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے نہ صرف وزراء کی تعداد کم کردی گئی بلکہ مالیاتی اختیار بھی کشمیر کونسل سے آزادکشمیر حکومت کو منتقل ہوا تھا۔ اب اس ترمیم میں ترمیم کا نظریۂ ضرورت ذہنوں میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ اس ترمیم میں ترمیم کی ضرورت بظاہر تو کابینہ کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے محسوس کی گئی، مگر یہ کسی اور دل میں سلگنے والی چنگاری کا شاخسانہ بھی معلوم ہوتی ہے جو اب شعلہ بن کر بھڑک اُٹھی ہے، جس کا تعلق آزادکشمیر کے مالیاتی اختیار کے خاتمے سے ہے۔ کشمیر کونسل کا دیو اس بات کو ہضم ہی نہیں کرسکا کہ آزادکشمیر کی چڑیا مالیاتی اختیار کے پَر لگا کر اس کے سر پر یوں چڑھ کر پھُدکتی، ناچتی اور چہچہاتی رہے۔ اس لیے یہ دیو اس انتظار میں تھا کہ کب موقع ملے اور وہ اس چڑیا کو دبوچ کر اس کے پُر نوچ کر مسل ڈالے۔
اب شاید اس سوچ اور خواہش کا موافق موسم قریب آرہا ہے۔ آزادکشمیر کو مالیاتی اختیار دلوانے کا کریڈٹ لینے اور تمغا سجانے والے خود اپنے دام میں پھنس چکے ہیں، اور وہ اب ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن“ والی کیفیت کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس کیفیت پر کشمیر کونسل کے کرتا دھرتا ضرور کہتے ہوں گے ’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘۔ ایسے میں لندن سے یہ اطلاع ملی ہے کہ میاں نوازشریف نے اپنی پارلیمانی پارٹی کو پندرہویں ترمیم کی حمایت سے روک دیا ہے۔ یوں بھی پی ٹی آئی حالیہ بحران کی لہروں میں بہہ گئی مگر پندرہویں ترمیم کا معاملہ مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر کی صفوں میں بھی ایک بھونچال کا باعث بن رہا تھا۔ اس فیصلے نے آزادکشمیر کی سیاست کے کینوس کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور یک رکنی(باقی صفحہ 33پر)
جماعتیں سب کا مخمصہ ابھی قائم ہے کہ وہ آزادکشمیر میں آنے والی حالیہ تبدیلی میں حکومت ہیں یا اپوزیشن؟ صرف پیپلزپارٹی آزادکشمیر خود کو حکومت کا حصہ سمجھ بیٹھی ہے اور اس تبدیلی میں اپنے لیے مواقع اور امکانات کی تلاش میں ہے۔ اس غیر یقینی صورتِ حال کا جس قدر جلد خاتمہ ہوجائے، اچھا ہے۔ آزادکشمیر کی تجربہ گاہ میں یہ ڈائی سیکشن باکس مزید کب تک کھلا رہے گا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر اسے جتنی جلدی سمیٹ کر معاملات کو منطقی انجام کی طرف لے جایا جائے، اچھا ہے، کیونکہ اس کیفیت میں بہت سے ریاستی امور رک جاتے ہیں اور لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔