ترک انتخابات…. فیصلہ نہیں ہوسکا

ترکیہ کے 14 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات غیر فیصلہ کن رہے۔ تادم تحریر 99 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر صدر رجب طیب اردوان 49.34فیصد ووٹ لے کر اس دوڑ میں پہلے درجے پر ہیں، ان کے قریب ترین حریف کمال کیلج دار اوغلو نے 45 فیصد ووٹ حاصل کیے، اور آزاد امیدوار سینان اوغن کے بکسوں سے 5.23 فیصد ووٹ برآمد ہوئے۔ دست بردار ہوجانے والے جناب محرم انس کو بھی 0.43ووٹ مل گئے۔ ترکیہ میں صدر منتخب ہونے کے لیے کُل ڈالے جانے والے ووٹوں کے نصف سے کم از کم ایک ووٹ زیادہ لینا ضروری ہے، چنانچہ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار 28 مئی کو براہِ راست مقابلہ کریں گے۔ دوسرے مرحلے کے اس انتخاب کو سیاسی اصطلاح میں run-offالیکشن کہا جاتا ہے۔

اسی روز ملک میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے اور 600 رکنی TBMM (قومی اسمبلی) کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ نتائج کے مطابق صدر رجب طیب اردوان اور ان کے اتحادیوں نے 324 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی، حزب اختلاف کا قومی اتحاد 211 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا، اورحریتِ مزدور اتحاد نے 65 نشستیں جیت لیں۔

ساڑھے آٹھ کروڑ سے کچھ زیادہ نفوس پر مشتمل اس ملک کا بڑا حصہ مغربی ایشیا میں جزیرہ نمائے اناطولیہ المعروف ایشیائے کوچک پر واقع ہے، جبکہ جنوب مشرقی یورپ میں جزیرہ نمائے بلقان کا ایک ٹکڑا بھی ترکیہ کا حصہ ہے۔

ترکیہ کو اسلامی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے کہ دوسرے مسلم اکثریتی ممالک کی طرح یہاں بھی وردی والوں نے عوام کی امنگوں پر متعدد بار شب خون مارے لیکن اس ملک میں 1946ء سے آج تک بہت تسلسل کے ساتھ انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ بار بار کے مارشل لا اور فوجی مداخلت کے باوجود انتخابات میں دھاندلی اور بدعنوانی کی کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی اور تقریباً ہر موقع پر اسلام پسندوں کی کارکردگی بہت بہتر رہی۔

ترک آئین کی رو سے ریاستی معاملات میں مذہب کا دخل ایک صریح بغاوت ہے جس کی کم سے کم سزا سیاست سے نااہلی ہے، جبکہ سزائے موت بھی خارج از امکان نہیں۔ سیکولرازم اس مملکت کی بنیاد ہے جسے پوری کی پوری پارلیمان، حتیٰ کہ استصواب کے ذریعے ساری قوم بھی تبدیل نہیں کرسکتی۔ اسلام پسندوں کو اس کا ادراک ہے۔ خدمت، قیادت، سیاسی بصیرت، برداشت، تدبر اور معاملہ فہمی کے اعتبار سے ترکی کے اسلام پسند دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لیے مینارہ نور ہیں کہ یہاں مظاہروں اور مزاحمت کے بجائے متانت و استقامت اور لچک دار حکمت عملی کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بندش کی صورت میں رکاوٹ سے سر پھوڑنے اور راستہ کھوٹا کرنے کے بجائے پُرجوش دریا کی طرح متبادل راہ سے سفر جاری رہتا ہے کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرچہ انتخاب کے ذریعے پُرامن اسلامی انقلاب کی ستّر سالہ طویل جدوجہد کا ایک جائزہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔

ترکیہ کے پہلے کثیر الجماعتی انتخابات 1946ء میں ہوئے۔ اس سے چند سال قبل معتدل اسلام پسندوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے سربراہ بزرگ سیاست دان جلال بائر تھے۔ ان انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی اچھی نہ رہی اور اتاترک کے جانشین عصمت انونو کی قیادت میں ریپبلکن پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی، لیکن صرف چار سال بعد 1950ءکے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ریپبلکن پیپلز پارٹی کے تئیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیا اور عدنان میندریس نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔

نئی حکومت نے سارے ترکی میں صنعتوں کا جال بچھا دیا، ترکیہ نے مغرب سے قریبی تعلقات قائم کیے اور نیٹو کی رکنیت حاصل کی۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو پارلیمینٹ کے سامنے جواب دہ کیا گیا۔ شہری آزادیوں کو آئینی تحفظ، مدارس میں عربی تعلیم کی اجازت اور عربی میں اذان بحال کی گئی۔ اسی کے ساتھ اسکارف لینے والی خواتین کے پبلک پارکوں میں داخلے پر پابندی بھی ختم کردی گئی۔

ان اصلاحات کے بعد 1954ء کے انتخابات میں عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی نے کامیابی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ حکمران جماعت کو پارلیمان کی 541میں سے 502 نشستیں حاصل ہوئیں اور عصمت انونو کی پارٹی کا عملاً صفایا ہوگیا۔

اگلے انتخابات میں عدنان میندریس نے ایک بار پھر دوتہائی سے زیادہ نشستیں جیت کر ہیٹ ٹرک کرلی۔ تاہم مئی 1960ء میں چند نوجوان فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، ڈیموکریٹک پارٹی پر سیکولرازم کے خلاف کام کرنے کے الزام میں پابندی لگادی گئی اور وزیراعظم میندریس سمیت ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ بحیرہ مارمرا المعروف نہرِ استنبول کے ایک تنگ و تاریک جزیرے میں مقدمہ چلا، اور غداری کے الزام میں جناب میندریس کو ان کے ساتھیوں فطین رستم اور حسن ارسلان کے ساتھ پھانسی دے دی گئی۔

عدنان میندریس کے ساتھیوں نے پابندی کے فوراً بعد عدالت پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت کھڑی کرلی اور سلیمان ڈیمرل اس کے سربراہ مقرر ہوئے۔ قید و بند کی آزمائش میں مبتلا نوزائیدہ جماعت نے 1961ء کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ انھیں اکثریت تو نہ مل سکی مگر قاتل جرنیلوں کی منظورِ نظر ریپبلکن پیپلز پارٹی کی 173 کے جواب میں اسلام پسندوں نے 158نشستیں جیت لیں اور پارلیمنٹ میں عدنان میندریس کی اصلاحات کا بھرپور دفاع کیا گیا۔ چار سال بعد 1965ء کے انتخابات میں اسلام پسندوں نے دوبارہ اکثریت حاصل کرلی اور سلیمان ڈیمرل وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 1969ء کے انتخابات میں بھی عدالت پارٹی نے اپنی برتری قائم رکھی۔

انتخابات کے بعد اسلام پسندوں اور سلیمان ڈیمرل کے درمیان بعض امور پر اختلافات پیدا ہوئے اور ان کارکنوں نے پروفیسر نجم الدیں اربکان کی قیادت میں ملی نظام پارٹی بنالی، لیکن سیکولرازم کی خلاف ورزی کے الزام میں یہ جماعت صرف ایک سال بعد کالعدم قرار دے دی گئی۔

پروفیسر صاحب نے ایک ہی ہفتے بعد ملی سلامت پارٹی کے نام سے ایک اور جماعت رجسٹر کرالی اور سارے ترکی میں رفاہی کام شروع کردیا۔ یہ جماعت تیزی سے مقبول ہوئی اور 1973ء کے انتخابات میں ملی سلامت پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ ان انتخابات میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی چنانچہ ریپبلکن نے ملی سلامت پارٹی سے اتحاد کرکے مخلوط حکومت تشکیل دی اور پروفیسر صاحب نائب وزیراعظم مقرر ہوئے۔ اسی دوران قبرص میں یونانی فوج کے ہاتھوں ترک قبرصیوں کے قتل عام کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ اربکان صاحب کے پاس اُس وقت مخلوط حکومت کی وزارتِ دفاع کا قلمدان بھی تھا۔ پروفیسر صاحب نے فوج کے اعلیٰ افسران سے مشورہ کرکے راتوں رات قبرص میں اپنی فوج اتار دی۔ یہ ساری کارروائی اس قدر خاموشی اور برق رفتاری سے ہوئی کہ یونانی سپاہ کو سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا اور صرف چار دن میں جزیرے پر قبرصی ترکوں کی علیحدہ خودمختار حکومت قائم کردی گئی۔ تاہم وزیراعظم بلند ایجوت کو پروفیسر صاحب کی یہ جرات پسند نہ آئی اور یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد مارشل لا لگادیا گیا اور تمام جماعتیں کالعدم قرار دے دی گئیں۔

نئے آئین کی تشکیل کے بعد 1983ءمیں عام انتخابات منعقد ہوئے جس میں نجم الدین اربکان کو حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ انتخابات کے بعد اسلام پسند رفاہ پارٹی کے بینر تلے جمع ہوگئے اور 1992ء کے انتخابات میں رفاہ پارٹی چوتھی بڑی جماعت بن کر ابھری، جبکہ 1995ءکے انتخابات میں یہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی اور پروفیسر صاحب نے تانسو چلر کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ یہ اتحاد بھی بہت زیادہ دن نہ چل سکا اور تانسو صاحبہ نے رفاہ پارٹی سے ناتا توڑ کر وطن پارٹی سے رشتہ جوڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی رفاہ پارٹی پر بھی پابندی لگ گئی، مگر پروفیسر صاحب حضرت اقبال کے مشورے کے مطابق اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے کی تصویر بنے رہے، فضیلت پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت معرضِ وجود میں آگئی اور 1999ء کے انتخابات میں فضیلت پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

بدقسمتی سے پارٹی میں اختلافات پیدا ہوگئے چنانچہ فضیلت پارٹی کے نوجوان کارکنوں نے طیب اردوان کی قیادت میں عدالت و ترقی پارٹی (ترک مخفف آق) کے نام سے علیحدہ جماعت قائم کرلی اور 2002ء کے انتخابات میں اس نوزائیدہ جماعت نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ عمدہ طرزِ حکمرانی، شفاف حکومتی نظام، عدل و انصاف اور غیر معمولی معاشی ترقی کی بنا پر چار سال بعد آق کے ووٹوں میں ساٹھ لاکھ کا اضافہ ہوگیا، 2011ء میں آق نے ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔
آئینی ترمیم کے بعد 2014ء میں پہلے صدارتی انتخابات ہوئے جس میںرجب طیب اردوان صدر منتخب ہوگئے، 2018ء میں قوم نے صدر اردوان پر اعتماد کی تجدید کردی۔

ترک انتخابی سیاست اور اس میدان میں تحریک ِاسلامی کی شاندار کارکردگی کے بعد آتے ہیں حالیہ انتخابات کی طرف۔ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کُل تعداد 6کروڑ 40 لاکھ تھی جن میں سے 34 لاکھ رائے دہندگان بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ دنیا بھر کے ترک سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔ ووٹروں کی فہرست میں 49لاکھ افراد وہ تھے جو پہلی بار رجسٹر ہوئے ہیں، پارلیمانی انتخابات میں 24 سیاسی جماعتوں اور 59 آزاد امیدواروں نے حصہ لیا۔ووٹ ڈالنے کا تناسب 87.48فیصد رہا۔

صدارت کے لیے چار امیدوار میدان میں تھے۔ قوم پرست ہوم لینڈ پارٹی کے محرم انس انتخابات سے دودن پہلے دست بردار ہوگئے۔ اصل مقابلہ 69 سالہ صدر رجب طیب اردوان اور حزب اختلاف کے 74 سالہ کمال کیلج دار اوغلو کے درمیان تھا۔ چوتھے امیدوار 55 سالہ آذربائیجانی نژاد سنان اوگن تھے۔

حسب روایت اِس بار بھی سیاسی جماعتیں اتحاد بناکر میدان میں اتریں۔ صدر اردوان کا جمہورِ اتفاقی یا عوامی اتحاد، انصاف و عدالت پارٹی، قوم پرست MHP، نجم الدین اربکان کے صاحب زادے فاتح اربکان کی جدید رفاہ پارٹی (YRP)، کرد اسلامی جماعت آزاد ہدایت پارٹی (HÜDA PAR) اور ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی (DSP)پر مشتمل تھا۔

متحدہ حزب اختللاف کے جمہوری اتحاد میں ریپبلکن پیپلزپارٹی (CHP)، افضل پارٹی (IYI) اور اسلامی خیالات کی حامل سعادت پارٹی سمیت چھ جماعتیں شامل تھیں۔

حریتٓ مزدور اتحاد اور بائیں بازو کے سوشلٹ محاذ نے صرف پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور قوم پرست آبائی یا Ancestorial اتحاد نے آزاد صدارتی امیدوار سنان اوغن کی حمایت کی۔

ترکیہ کو لاحق اقتصادی پریشانیوں کی بنا پر صدر اردوان شروع ہی سے دبائو میں تھے۔ نامراد کورونا نے ترک معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا۔ روس سے میزائیل نظام کی خریداری پر امریکہ بہادر اور ان کے نیٹو اتحادی ناراض تھے اور واشنگٹن کی لگائی تجارتی پابندیوں نے مہنگائی اور ڈالر کو آسمان پر پہنچادیا۔ فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے ترکوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ جناب اردوان 2002ء سے برسراقتدار ہیں اور تبدیلی کی فطری خواہش نے بھی ان کے لیے مشکلات پیدا کیں۔

فلسطینیوں کے لیے ترک صدر کی گرم جوشی یورپ، امریکہ اور اسرائیل نواز حکومتوں کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ تل ابیب سے سفارتی تعلقات کی بحالی دراصل ”اسرائیل دشمن“ ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھی۔ لیکن یہ میل ملاپ ترک اسلام پسندوں کو پسند نہ آیا۔ صدر مرسی کے خلاف شب خون پر صدر اردوان کے سخت ردعمل سے جنرل السیسی اور جنرل صاحب کے خلیجی سرپرست سخت ناراض تھے۔ ترک صدر نے جنرل السیسی، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اماراتی حکمرانوں کو نامہ و پیام بھیج کر تعلقات میں در آنے والی سلوٹوں کو ہموار کرنے کی بھی کوششیں کیں۔

ترکیہ میں صدارتی نظام کا نفاذ حزب اختلاف کو پسند نہیں۔ کچھ سیاسی عناصر کا خیال ہے کہ صدارتی نظام نے شخصی آمریت کا دروازہ کھول دیا ہے۔ کمال کلیج دار اوغلو اور سعادت پارٹی سمیت جمہوری اتحاد کے رہنمائوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر انھیں کامیابی ملی تو پارلیمانی نظام بحال کردیا جائے گا۔ فی الحال تو سیاست کے پہیّے کو اُلٹا چلانا ممکن نہیں لگتا کہ اس کے لیے پارلیمان میں دوتہائی اکثریت درکار ہے اور نتائج کے مطابق پالیمانی نظام کے حامیوں کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوسکی۔

رائے عامہ کے جائزوں سے صدر اردوان کی مقبولیت میں کمی کا جو تاثر ابھر رہا تھا نتائج سے اس کی کسی حد تک تصدیق ہوگئی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 52.59 فیصد ترکوں نے جناب اردوان کی حمایت کی تھی جو سکڑ کر اب 49.3 رہ گئی ہے۔ استنبول، انقرہ، ازمیر اور اکثر بڑے شہروں میں جناب اردوان ہار گئے۔ تاہم زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔

دوہفتے بعد براہِ راست انتخاب کا نتیجہ کیا ہوگا اس بارے میں کچھ کہنا ممکن و مناسب نہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والے سنان اوغن کی حمایت فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگئی ہے جنھوں نے 5.22فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جناب اوغن قدامت پسندی کی طرف مائل معتدل اور سلجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ بلقان اور وسط ایشیائی امور پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ کمال اوغلو کی یورپ نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ ان کی صدر اردوان کی اتحادی جماعت MHP سے رنجش ہے۔ اوغن صاحب MHP کے رکنِ پارلیمان تھے اور اس جماعت سے ان کا دوبار اخراج ہوا۔

دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جناب اردوان کو اخلاقی برتری حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے حریف سے 24 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے، اور اس لحاظ سے عوام نے انھیں مینڈیٹ سے نوازا ہے جس کا احترام ہونا چاہیے۔ ترکوں کا شمار دنیا کی چند انتہائی ذمہ دار اور باشعور اقوام میں ہوتا ہے۔ سیاست میں اخلاقی اقدار کی ان کے یہاں بڑی اہمیت ہے۔ اسی بنا پر صدر اردوان پُراعتماد ہیں کہ دوسرے مرحلے میں اوغن کے حامیوں کے ساتھ بہت سے وہ لوگ بھی انھیں ووٹ دیں گے جنھوں نے 14 مئی کو جناب اوغلو کے نام پر ٹھپہ لگایا تھا۔
………….
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔