تین آدمی چوری اور آوارہ گردی کے الزام میں پکڑے گئے اور حجاج بن یوسف کے سامنے پیش ہوئے۔ حجاج نے پوچھا: تم کون ہو؟ ان میں سے ایک نے جواباً ایک شعر پڑھ دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ میں اُس شخص کا فرزند ہوں جس کے سامنے بڑے بڑے معزز اور بااقتدار لوگوں کی گردنیں جھکی رہتی ہیں، یہ سب لوگ میرے باپ کے پاس مجبوراً آتے ہیں۔ حاضرین نے سمجھا کہ یہ عرب کے شرفا اور رئیسوں میں سے ہے۔
دوسرے نے کہا: میں اس باپ کا بیٹا ہوں جس کی ہانڈی کبھی چولہے سے نہیں اترتی، اور اگر اترتی ہے تو پھر چڑھ جاتی ہے۔ عوام میرے باپ کی جلتی آگ کی طرف جوق در جوق آتے ہیں۔ حاضرین نے سمجھا کہ یہ اہلِ سخاوت اور اہلِ کرم میں سے ہے۔
تیسرا بولا: میں اُس کا بیٹا ہوں، جو اپنے ارادے سے صفوں کو چیرتا اور تلوار سے ان کو سیدھا کرتا ہے یہاں تک کہ وہ سیدھی اور درست ہوجاتی ہیں، اس کے پائوں ہمیشہ رکابوں میں رہتے ہیں۔ حاضرین نے خیال کیا یہ شجاعانِ عرب میں سے معلوم ہوتا ہے۔
جب ان تینوں کے حالات و بیانات کی تحقیق کی گئی تو پہلا شخص حجام، دوسرا نان بائی اور تیسرا جولاہا نکلا۔
(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ ، جون 2004ء)