کور کمانڈرز اجلاس… تحقیقات اور مذاکرات

پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت ملک و قوم کو درپیش حالات کے تناظر میں کور کمانڈرز کا خصوصی اجلاس پیر، پندرہ مئی کو جنرل ہیڈ کورارٹرز میں منعقد ہوا، جس کے بعد شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ کے مطابق عسکری تنصیبات اور جلائو گھیرائو کی سرگرمیوں پر پاک فوج کی صفوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشیل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اجلاس کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ مسلح افواج ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے تمام مجرموں سے بخوبی آگاہ ہے، اجلاس کے دوران گزشتہ دنوں میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا جسے ایک سیاسی جماعت کی قیادت نے محض اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا، اجلاس میں اس ملزم کا اظہار کیا گیا کہ امن و امان میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا…!

وطن عزیز میں گزشتہ دنوں رونما ہونے والے توڑ پھوڑ اور تخریب کاری کے واقعات کے بعد کور کمانڈرز کا یہ خصوصی اجلاس نہایت بروقت ہے جو صورت حال کے تجزیہ کے لیے ضروری تھا، اجلاس میں بجا طور پر تخریبی کارروائیوں پر غم و غصہ اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا عزم ظاہر کیا گیا ہے تاہم اس ضمن میں مناسب ہو گا کہ فریق ثانی کے موقف پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں نے نو مئی کے واقعات سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے حکمرانوں کے خود ہی جج، جیوری اور جلاد کا کردار سنبھالنے کا جو شکوہ کیا ہے اسے نظر انداز نہ کیا جائے۔ انہوں نے تمام حالات و واقعات کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ ترین سطح کا عدالتی کمیشن بنانے اور اس کے روبرو حقائق اور شواہد پیش کرنے کی پیشکش بھی کی ہے، جو ایک معقول تجویز ہے اس طرح یہ تاثر زائل کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ حکومتی کارروائیاں یکطرفہ اور انتقام کے جذبے کے تحت ہیں اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو سکیں گے، ایسے کسی اعلیٰ سطح کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد جس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی اس کے پاس اسے غیر منصفانہ اور انتقامی قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا… اس ضمن میں ایک نہایت اہم کام یہ بھی ہے کہ اہم عسکری تنصیبات کا تحفظ جن جن اداروں اور ان کے اعلیٰ مناصب پر موجود جن افراد کی ذمہ داری تھی، اور وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے، ان کا بھی تعین کیا جائے اور تخریبی کارروائی کرنے والوں کے علاوہ ان افراد کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی سرکاری افسر اور اہلکار اس طرح کی اہم ذمہ داری پر رہتے ہوئے فرائض منصبی میں کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہوئے سو بار سوچے۔ یہاں اس امر کی جانب توجہ دلانا بھی نا مناسب نہیں ہو گا کہ اگرچہ مسلح افواج کے سپہ سالار اور شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے بار بار اس بات کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ ہم نے خود کو سیاست سے قطعی لاتعلق اور اپنی دفاعی ذمہ داریوں تک محدود کر لیا ہے مگر عوام میں آج بھی یہ تاثر پوری شدت سے موجود ہے کہ عملاً ایسا نہیں ہوا اور فوج اپنے اعلانات کے باوجود اب بھی سیاست کے معاملات میں مداخلت اور من پسند سیاسی عناصر کی سرپرستی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ نہایت موزوں وقت ہے کہ فوج کے سپہ سالار اور دیگر ذمہ داران کی طرف سے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا جائے کہ اب واقعی ان کا سیاست سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا… !!!

کور کمانڈرز کے اجلاس کے اعلامیہ کے آخر میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جاری سیاسی عدم استحکام کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے تمام فریق قومی اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ عوام کا اعتماد اور اقتصادی سرگرمیاں بحال کی جا سکیں اور جمہوری عمل کو تقویت مل سکے۔ اجلاس میں اس انتہائی ضروری اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی بھر پور حمایت کا عزم بھی ظاہر کیا گیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کے لیے یہ مشورہ نہایت صائب اور اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کی بھر پور حمایت کا عزم قابل قدر اور خوش آئند ہے، اہل سیاست کو پوری سنجیدگی اور مکمل یکسوئی سے اس جانب پیش رفت کرنا چاہیے کیونکہ موجودہ سیاسی و معاشی، اخلاقی و معاشرتی بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے، عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ نے بھی پنجاب میں انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران ایک بار پھر حکومت اور حزب اختلاف کو مذاکرات کی ضرورت کا احساس دلایا ہے، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق، جنہوں نے شدید کشیدہ فضا میں فریقین کو بات چیت پرآمادہ کیا تھا، انہوں نے بھی از سر نو مذاکرات کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کا پہلا، دوسرا، تیسرا اور آخری حل سیاسی جماعتوں کے مذاکرات ہیں۔ امید ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین ملک کی ان معتبر آوازوں پر کان دھریں گی ورنہ جو تباہی آئے گی اس سے یہ خود بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے…!!!

(حامد ریاض ڈوگر)